بھٹو کا قتل حیران کن نہیں تھا۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح ان کا میدانِ سیاست میں قدم رکھنا۔ ہزاروں ایکڑ پر پھیلی ہوئی دسیوں پُشتوں کی وراثت، نسل در نسل ملتی ہوئی حاکمیت و اختیارات، اردگرد کے ہر شخص کی احتراماً جھکی ہوئی نگاہیں ، بچپن سے ہی پلک جھپکتے پوری ہوتی ہوئی خواہشوں کا اعتماد، آکسفورڈ کی تعلیم، ہمیشہ امتیازی رزلٹ کے ساتھ یونیورسٹی میں بھی امتیازی شناخت، ذاتی قابلیت اور ذہانت کی خود شناسی، مدلل گفتگو اور دل موہ لینے والی تقریر کا ملکہ غرض بھٹو کی شخصیت میں ہر وہ بات موجود تھی جس نے ان کو سیاست میں کھینچ کر لے آنا تھا اس لئے حیرانی بے جا تھی۔
لیکن حیران کن امر یہ ہوا کہ ڈرائنگ روم کی سیاست کے عروج کے دنوں میں ڈرائنگ روم کو اپنے سحر میں گرفتار کرلینے کی صلاحیت رکھنے والا شخص سیاست کرنے کے لئے لیاری میں عثمان بلوچ کے ساتھ تھڑے پر جا بیٹھتا ہے۔ اپنے وقت کے میسر بہترین انقلابی ذہنوں کو گلبرگ کے ایک گھر میں بلا کر ایک ایسی پارٹی کی بنیاد رکھ دیتا ہے جس کے نام میں پہلی بار لفظ "لوگ” (پیپلز) کا استعمال ہوتا ہے۔ مغربی پاکستان کے لوگ شاید پہلی بار کسی پارٹی سے احساسِ ملکیت کا ایسا تحفہ وصول کرتے ہیں۔ میرے خیال میں یہی پہلا کرشمہ تھا جس نے مسٹر بھٹو کے ساتھ لوگوں کی جُڑت کو مضبوط بنا دیا۔
شملہ معاہدہ کے وقت اندرا گاندھی نے دو میں سے صرف ایک چیز چُننے کی پیش کش کی۔
1ـ جنگی قیدی یا
2ـ جنگ میں ہارا ہوا مغربی پاکستان کا رقبہ۔
پہلا آپشن زیادہ بہتر تھا۔ اس سے عوامی پذیرائی اور مقبولیت میں مزید اضافہ ہوتا۔ لیکن اس وقت اندرا سمیت پوری دنیا کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں جب چئیرمین بھٹو نے دوسرا آپشن منتخب کیا۔
بی بی نے بے چین ہو کر پوچھا… بابا جانی یہ کیوں؟
بولے "زمین کے لئے دوبارہ پریشر قائم نہیں کیا جاسکتا لیکن قیدی انسانی حقوق کا معاملہ ہیں بھارت کو بہر صورت واپس کرنا ہوں گے”۔
پھانسی کے فوراً بعد بھٹو کے ختنے چیک کرانے والے ضیاء کو جاوید ہاشمی نے اپنی کتاب میں لکھا ہوا وہ واقعہ تو ضرور سنایا ہوگا کہ جب ہاشمی اور بھٹو اکٹھے خانہ کعبہ کے اندر کھڑے ہوئے تھے اور ایک عربی نے بھٹو کو بتایا کہ اس وقت آپ جہاں کھڑے ہیں ٹھیک اسی جگہ رسولِ خدا ﷺ نماز پڑھا کرتے تھے۔ بھٹو یہ سنتے ہی گھبرا کر فوراً پیچھے ہٹ گئے کہ مبادا وہاں پیر نہ پڑ جائیں جہاں رسالت مآب ﷺ نماز پڑھتے ہوں۔ یہ عقیدت ہاشمی کے لئے تو حیران کن ہو سکتی تھی لیکن ضیاء جیسے سرد مزاج کو جسمانی معائنہ کرانے کی توہین سے نہ روک سکی۔
بھٹو کے لئے امریکہ جیسی سپر پاور کی گود میں بیٹھ کر اقتدار کے مزے لوٹتے رہنا زیادہ آسان کام تھا لیکن اپنی حکومت اور اپنی زندگی کو داؤ پر لگاتے ہوئے روس کو زمینی حقیقت سمجھنا، فرانس سے ایٹمی پروگرام پر معاملات کرنا اور چین کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کرنا، ایسے فیصلے تھے جو سامراجی قوتوں کے لئے حیرت ناک نہیں بلکہ تشویش ناک تھے۔
بھٹو کا قتل بالکل بھی حیران کن نہیں تھا البتہ بھٹو کا قتل نہ ہونا زیادہ حیرت کا باعث ہوتا۔ ضیاء کی فطری بزدلی سے زیادہ بھٹو کے قتل کا سبب شاید یہ بھی تھا کہ بھٹو سیاست کو تو ڈرائنگ روم سے باہر نکال لائے لیکن اس ڈرائنگ روم کو تالا لگانا بھول گئے۔ سیاست ہاتھ سے نکل جانے کے بعد "ڈرائنگ روم والوں” کے پاس اب "سیاست” ہی نہ رہی تو پھر "سازش” بچ گئی.. وہ بدترین سازش کہ جس نے اس قوم کے مستقبل کو سولی پر لٹکا کر تاریکی کو مقدر بنا دیا۔
صدیوں تک سیانے بھٹو کی شہادت کے اسباب ڈھونڈتے رہیں گے جبکہ ہم اس کے نتائج بھگتتے رہیں گے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر