نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

شہباز قلندر، مراد علی شاہ اور نیا عہد نامہ۔۔۔ رانا محبوب اختر

غزل ختم ہوئی تو نصرت فتح علی خاں کی آواز میں ، شرف الدین پانی پتی، بو علی قلندر، (1334-1209) ، کا کلام پلے ہو گیا۔ن

سیہون سے روانہ ہوا تو منزل اڈیرو لال تھی۔جو دریا پنتھیوں کا جھولے لال ہے ۔میرا وجود سندھ کی سندرتا اور جھولے لعل قلندر کے اسرار کی لال کتھئی اجرک میں لپٹا ہوا تھا۔دن ڈھلنے لگا تھا۔گاڑی میں عثمان مروندی رح کا کلام سردار علی تکر گاتے تھے۔سندھ کے طلسم ، قلندر کے کلام اور تکر کی گائیکی نے وہ مستی پیدا کی جو حال سے ذرا کم تھی۔المیاتی ارتعاش موسیقی سے موت کو ہم آہنگ کرتا ہے۔ (catastrophic resonance)۔ انڈس ہائی وے کا سیہون سے آمری تک کا حصہ شاندار ہے۔ ریشم کی طرح ہموار رستے پہ خطرناک موڑ ہیں اور ذرا سی بے احتیاطی سے زندگی کا ساز تھم سکتا ہے۔بختیار کاکی رح قوالی کی ایک محفل میں بار بار اک شعر سنتے تھے۔ حال نے بے حال کیا تو زندگی المیاتی ارتعاش میں چکر کھانے لگی، وجود کا گملا ٹوٹ گیا:
کشتگانِ خنجر تسلیم را
ہر زماں از غیب جانِ دیگر است
معراج خاں کوہاٹ کا کم گو آفریدی پٹھان ، میرا دوست اور ڈرائیور ہے۔میری پسندیدہ موسیقی کا خیال رکھتا ہے۔ گاڑی میں تکر کی آواز ناچ رہی تھی :
منم عثمان مروندی کہ یارِ خواجہ ء منصور
ملامت می کند خلقے و من بر، دار می رقصم

غزل ختم ہوئی تو نصرت فتح علی خاں کی آواز میں ، شرف الدین پانی پتی، بو علی قلندر، (1334-1209) ، کا کلام پلے ہو گیا۔نصرت فتح علی دھرپد گانے والے 500 سو سال پرانے گھرانے کا استاد گائیک تھا، اور خیال گائیکی کا کمال استاد!کہ اس جیسی ادائیگی، گرہ ، تدوین ، بول بانٹ، اور لے کاری کی مثال نہیں۔جالندھر کی بستی شیخ درویش کے درویش نے صحیح خوانی اور روہی امروہی کا جیسے خیال رکھا وہ اسی کا خاصہ تھا۔آواز اس کی مرد اور عورت کی صوتی تقسیم سے ماورا ایسی الوہی پوترتا لئے ہوئے ہے کہ سماعت با وضو ہو ۔ بو علی قلندر کون تھے؟ وہ نظامی گنجوی کے گنجا ، آذربائیجان سے ائے تھے یا ملتان سے پانی پت گئے تھے یہ سوچنے کا وقت نہ تھا۔بس وہ شہباز قلندر کے ذرا جونیئر ہم عصر تھے۔قلندر نہ تھے، بو علی قلندر تھے۔ ان کے شاعری کے مجموعے کا نام "کلامِ قلندری” ہے۔نصرت فتح علی خان کی گائی غزل کا شعر دیکھئے:
غلامِ روئے او بودم، اسیرِموئے او بودم
غبارِکوئے او بودم، نمی دانم کجا رفتم
ہم سندھ کی سڑکوں پہ غبارِکوئے او تھے۔کجا رفتم؟ اڈیرو لال! ہم سیہون سے آمری آ گئے تھے ۔آمری ایک قدیم مقام ہے جس کی تہذیب کی کہانی موہنجوڈارو سے ملتی ہے۔آمری اور اڈیرو لال کے درمیان سندھ بہتا ہے۔ سندھو کو دیکھ دل دکھی ہوا۔شیر دریا، کچھوے کی طرح رینگتا تھا۔ وہاں رکا میں کچھ دیر سوچتا رہا کہ اگر سرسوتی اور ستلج کی طرح سندھ بھی خشک ہو گیا تو وادء سندھ ایک بار پھر کتابوں میں قید ہو جائے گی !
مجھے شام سے پہلے کوئی دو گھنٹے کی مسافت پر اڈیرو لال پہنچنا تھا۔ لال رنگ کی تکرار مجھے ستانے لگی تھی۔ لال شہباز قلندر، لال کنوار اور اڈیرو لال، سب لال تھے یہ لعل اور لال کا کیا طلسم ہے؟ چار یاروں میں جلال الدین سرخ بخاری بھی لال تھے۔خراسان سے آئے صوفیوں کے رنگ مقامیوں کے مقابلے میں لال تھے !! ” Black Skin , White Masks میں فرانز فینن کی کالی محبوبہ اپنے گورے محبوب سے تھوڑی سی whiteness مانگتی تھی!اور لال کنوار ،یورپی نوآبادیات سے کئی صدیاں پہلے کیسے لال ہوئی تھی۔ انسان رنگ کا غلام ہے اور طاقتور کا رنگ کمزور کی کمزوری ہوتا ہے۔طاقت mesmerizeکرتی ہے۔ نوآبادیاتی مائنڈ سیٹ کے گرفتار غلام، سپاہی نہیں بن سکتے تو ڈھول سپاہی کے گیت گاتے ہیں !بندیا، سیندور، سرخی، چنی ، عروسی لباس، صبح ، شام ،آگ، خون اور چراغ کی لو لال ہیں!لال رنگ کا اسرار!ہمارے چاروں طرف شام کی لالی اتر رہی تھی !ہمیں لال رنگ پسند ہے کہ ہم نے لال رنگ میں ملبوس ایسے حسین دیکھے ہیں۔جنھیں دیکھ کر لگتا کہ جیسے آگ کی پوجا کا دروازہ کھل جائے گا! لال کنوار ہندو لڑکی تھی اس نے اپنے دھرم سے بغاوت کی ، قلندر کی خدمت کی اور لال کنوار کے نام سے امر ہو گئی۔قلندر کو ہندو بھرتری ہری سے بھی جوڑتے ہیں۔جس کی سمدھی ٹلہ جوگیاں پر ہے۔بھرتری ہری، اجین کا راجہ تھا ۔جس کے اک شعر کا ترجمہ علامہ اقبال نے کیا ہے:
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مردِ ناداں پر کلامِ رم و نازک بے اثر
بھرتری ہری ،ہندوستان کا بڑا شاعر، ماہرِلسانیات اور فلسفی ہے۔ ایک دن پنڈت نے اسے ایک پھل لا کر دیا اور کہا کہ یہ پھل کھا ، لمبی عمر ملے گی۔ راجہ نے پھل لیا ، گھر گیا اور اپنی رانی پنگلا کو دے کہا کہ یہ پھل کھا لو بہت جیو گی۔وہ اپنی عمر پنگلا دے رہا تھا۔پنگلا نے پھل رکھ دیا اور کہا کہ وہ پہلے نہائے گی اور پوتر ہو پھل کھائے گی۔ رانی پنگلا کا محبوب ایک شاہی گھوڑے بان تھا۔ وہ پھل اسے دے آئی۔ سائیس کی محبوبہ اک طوائف تھی اور وہ پھل اپنی محبوبہ کو دے آیا۔طوائف کا محبوب، بھرتری ہری تھا۔وہ پھل لے اس کے پاس پہنچی تو محبت کا چکر اور قسمت کا پھیر مکمل ہوچکا تھا اور راجہ ہری چکرا گیا تھا۔ بے وفائی نے اسے مار دیا۔اس نے بن باس لیا اور ایک طویل زندگی بیاباں میں گزار دی۔سمدھی اس کی ٹلہ جوگیاں پہ ہے۔ گورکھ ناتھ کے کن پھٹے جوگی جہاں بستے تھے۔اسی ٹلے پر بال ناتھ نے رانجھے کو جوگ دیا تو وہ ” کنیں مندرے پا” کے مظفر گڑھ کے رنگ پور میں ہیر کے درشن کو آیا تھا کہ ہیر کی موجودگی ہی شہروں کو جھنگ یا رنگ پور کرتی ہے۔محبت سے بھر دیتی ہے ۔روایت ہے کہ بے وفائی کا داغ دھونے پنگلا دیوی، پرہلاد کے مندر پر، پدما وتی کا رقص دیکھنے ملتان آئی تھی۔کہ رقص اندر کی آلائش ویسے صاف کرتا ہے جیسے آگ پیتل کو کندن کرتی ہے!!شہباز قلندر سے وابستہ بے بیاہی با وفا، لال کنوار کی مہندی سیہون میں ہر سال رجب کے اسلامی مہینے میں ہوتی ہے اور بے وفا پنگلا پر کلامِ نرم و نازک بے اثر ہے!
قلندر کا عرس ہر سال 21 رجب سے 21 شعبان تک ہوتا ہے۔21رجب کو بکی ہوتی ہے اور بکی سندھی میں افتتاحی تقریب کو کہتے ہیں۔عرس کا مطلب شادی ہے۔ لہٰذا شادی سے پہلے 18، 19 اور 20 رجب کو مہندی ہوتی ہے۔تین دنوں میں تین مہندیاں اور تین دھمالیں ہوتی ہیں۔پہلی مہندی مسلمان اور دو مہندیاں ہندو لاتے ہیں۔لکیاری اور سبزواری سید مجاور ہیں۔ قلندر کے مزار کے اردگرد 24 کافیاں ہیں ۔ کافی سندھی میں nest یا گھونسلے کو کہتے ہیں۔ان کافیوں میں قلندر کے فقراء اور ملنگ رہتے ہیں ۔قلندر کے دوست بودلہ بہار کا مزار ان کافیوں میں شمار ہوتا ہے۔ سیہون اسٹیشن کے ساتھ یک تھمبی غار ہے۔وہاں دھمال ہوتی ہے اور روٹ تقسیم ہوتا ہے۔قلندر نے وہاں عبادت کی تھی۔ قریب ہی لال باغ ہے جو قلندر کا تکیہ تھا ۔نقارچی ، مشعالچی، توشہ خانہ اور کتب خانہ، قلندر کی درگاہ سے وابستہ paraphernalia ہے ! مزار پر 21شعبان کو نکھیٹی ہوتی ہے۔سندھی لفظ نکھیٹی کا مطلب closing ceremony ہے۔ شہباز قلندر کا عرس سندھی تہذیب اور ثقافت میں ہندو مسلم ہم آہنگی کا استعارہ بن گیا ہے جس میں ہند سندھ کے مسلمان اور ہندو شرکت کرتے ہیں۔ ہندو شہباز قلندر کو وارونا کا اوتار مانتے ہیں۔چار چراغ ان کی درگاہ پر چاروں اطراف روشنی کا استعارہ ہیں!
چار چراغ تیرے بلن ہمیشہ
پنجواں میں بالن آئی بلا
جھولے لالن
پانچواں چراغ دھمال ہے ۔ صدقہ ہے ۔ خیرات ہے۔محبت کا چراغ، جو لال کنوار کے عشق سے روشن ہے!
اس سال کورونا کی وجہ سے قلندر کا عرس نہیں ہوا۔قلندر کا ہمسایہ مراد علی شاہ کورونا کے خلاف جنگ میں پیش پیش ہے۔اس نے leading from the front کی عمدہ مثال پیش کی ہے۔کرونا کے خلاف جنگ انسانوں سے محبت کر کے جیتی جا سکتی ہے اور محبت پرانے گناہوں سے توبہ کا مطالبہ کرتی ہے۔چنوا اچیبھے کی زبان میں کہانی کو توازن کی تلاش ہے۔ زمین اور انسان کے رشتوں کا بگڑا ہوا توازن restorying کا تقاضا کرتا ہے۔زمین، ظالم اور جاہل انسان سے معافی کا مطالبہ کرتی ہے۔رفعت عباس نے اس مطالبے کو زبان دی ہے:

پُھل ، پَہارو ، پکھی ، پای ، پیڑ ، پہاڑ توں رفعت
نویں کہیں معاہدے وچوں مافی مَنی پوسی
To flowers, animals, birds, waters, trees and mountains Rifat,
Man had to tender an apology through a new testament !!
محبت کو نئے عہد نامے کی ضرورت ہے۔فی الوقت social distancing اور لاک ڈاون ہی کورونا کا علاج ہیں۔اس جنگ میں سندھ کے ساتھ پورا پاکستان اور جمل جہان مراد علی شاہ کی فتح کی دعا کرتا ہے اور سیہون کے جھولے لال قلندر بھی اس دعا میں مراد علی شاہ کے ساتھ شامل ہیں!

About The Author