کورونا وائرس کے حوالے سے بنیادی دو سوال ہیں، ہمیں کیا کرنا چاہیے اور ہم کیا کیا کچھ کرسکتے ہیں؟ آئیڈیل صورت حال کیا ہونی چاہیے اور عملی طور پر ہم کیا کر سکتے ہیں؟ ان دونوں کے درمیان کہیں جا کر ہمیں اپنی پالیسیاں بنانی چاہئیں۔ حکومتیں اس نکتے کا خیال رکھیں اور انفرادی طور پربھی ہم یہ سوچیں۔
بات کو مزید واضح کرتے ہیں۔کورونا وائرس سے لوگوں کو بچانے اور اس کے سدباب کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ ہر ایک کو گھروں تک محدود رکھا جائے ۔ کورونا باہر سے مریضوں کے ذریعے آیا۔ اصل بات یہ ہے کہ ان سب مریضوں اور ممکنہ مریضوں کو دوسرے صحت مند لوگوں سے دور رکھا جائے۔ بہترین اور سادہ حل کرفیو لگانا ہے۔ کوئی گھر سے نکلے گا ہی نہیں تو ملے گا کیسے ؟آئیڈیل حل یہی ہے کہ ملک میں دو تین ہفتے کے لئے کرفیو لگ جائے۔ اس دوران جس جس میں کورونا وائرس موجود ہے، وہ اپنا لائف سرکل مکمل کر کے خود ختم ہوجائے گا ۔یوں دو تین ہفتوں میں کورونا وائرس نامی جرثومہ کا پاکستان سے وجود ختم ہوجائے گا۔ یہ آپشن موجود ہے،کچھ لوگ اس کے حق میں بات بھی کر رہے ہیں، مگر کیا ایسا کرنا چاہیے ؟ہرگز نہیں۔ پاکستان میں کرفیو لگانا ہزاروں لوگوں کی اموات کا باعث بنے گا بلکہ جانی نقصان سے زیادہ خدانہ کرے ایسا خوفناک عوامی ردعمل سامنے آئے گا کہ فوری طور پر کرفیو اٹھانا پڑے ،پھر کیا کریں گے؟
بات وہی ہے کہ آئیڈیل حل سے زیادہ یہ دیکھنا ہے کہ اپنے معروضی حالات میں ہم کر کیا سکتے ہیں؟ قابل عمل پلان کی طرف جانا چاہیے ۔ وہ لاک ڈاﺅن یا سیمی لاک ڈاﺅن ہی ہے۔ لاک ڈاﺅن کی موجودہ صورتحال ہی سے لاکھوں لوگ فاقوں کا شکار ہوسکتے ہیں۔پاکستان میں لوگوں کی بڑی تعداد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارتی ہے، مگر کم وبیش اتنی ہی تعداد اس غربت کی لکیر سے تھوڑا اوپر ہی زندگی بسر کرتی ہے۔ کئی ملین بلکہ کروڑوں میں لوگ ایسے ہیں جن کی روزی کا دارومدار روزانہ کے کام کاج پر ہے۔ صرف مزدوروں، دیہاڑی داروں کی بات نہیں ہو رہی۔ مختلف شعبوں میں بے شمار روزکا کام کر کے گھر چلانے والے موجود ہیں۔ لاکھوں صرف سیلزمین ہیں۔دکان مالکان بحران میں آ گئے، تنخواہ کہاں سے دیں گے ؟لاکھوں چھوٹے دکاندار ہیں، روز کی پانچ سات ہزار سیل ہوئی، اس میں سے ہزار پندرہ سو منافع بنا ، جس سے گھر چلتا رہا۔ اب پچھلے آٹھ دنوں سے دکانیں بند اور کاروبار ٹھپ ہیں، کم سے کم اگلا ایک ہفتہ یہی صورتحال ہے۔ لاک ڈاﺅن کو بڑھایا گیا جو کہ یقینی طور پرممکن ہے ، ایسے میں مزید دس پندرہ روز یہ گھر بیٹھیں گے تو کھائیں گے کیا؟لوئر مڈل کلاس یا لوئر لوئر مڈل کلاس پاکستان میں لاکھوں میں نہیں بلکہ کروڑوں میں ہے۔ تیس چالیس سے پچاس ہزار کی آمدنی کے سفید پوش لوگ جو کسی کے آگے ہاتھ بھی نہیں پھیلا سکتے اور بمشکل اپنا بھرم قائم رکھ پاتے ہیں۔اس بحران میں بدقسمتی سے ہر قسم کے حکومتی اور غیر حکومتی پیکیج، فلاحی تنظیموں اور انفرادی طور پر لوگوں کی مدد کرنے والوں کی تمام تر توجہ لوئر کلاس پر ہے۔ ایسے لوگ جو روٹی کے محتاج ہوچکے ہیں، پہلی ترجیح ان کو راشن کی فراہمی ہے۔ درست بات ہے، مگر لوئر مڈل کلاس ہمیشہ بھی دباﺅ اور بحران میں ہے۔ان کی مدد کے لئے کوئی نہیں اٹھتا۔ کسی کو خیال ہی نہیں آتا کہ فلاں صاحب کی دکان بند پڑی ہے، کام کاج نہیں ، کیسے گزارا ہو رہا ہوگا؟
اس تفصیل کو بیان کرنے کے دو مقصد ہیں، ایک تو یہ کہ اپنے دائیں بائیں ایسے سفید پوش لوگوں کا ضرور خیال رکھیں۔ اللہ نے آپ پر کرم کیا ہے، اپنے گھر کے آس پاس، محلے میں یا ویسے کسی جاننے والے نادار گھرانے کے لئے آپ راشن جمع کررہے ہوں گے۔ایسا ضرور کریں، مگر یہ بھی سوچ لیں کہ مشکل کی اس گھڑی میں لوئر مڈ ل کلاس لوگ بھی پریشان ہیں۔ اپنی توجہ کا کچھ حصہ ان کی طرف بھی مبذول کیجئے گا۔ بھوک سب کو لگتی ہے، بچے سب کے ہی کھانا مانگتے ہیں، کوئی سفید پوش فیملی اگر اپنا بھرم رکھے ہوئے ہے تو اس میں بٹائیں۔ ان کے گھر راشن کے تھیلے کے بجائے کچھ نقد رقم ہی کسی اچھے قرینے سے پہنچائیں۔ رب کریم آپ کی ہر کاوش کوبے شمار گنا زیادہ کر کے واپس کرے گا۔ اس عظیم الشان ہستی کی سخاوت پر پورا بھروسہ رکھیں۔
حکومت کو دو تین اقدام ترجیحی طور پر کرنے چاہئیں۔ ایک تو فنڈز کو تیزی سے ریلیز کریں۔اعلان، ٹوئٹ، پرکشش نعروں سے زیادہ اس وقت عمل کی ضرورت ہے۔ ہر گزرتا دن غریبوں کی مشکل بڑھا رہا ہے۔ فلاحی تنظیموں کے پاس اچھا نیٹ ورک موجود ہے۔ الخدمت نے پچھلے چند دنوں میں تیس چالیس کروڑ سے زیادہ کا راشن تقسیم کیا ہے۔ اسی طرح اخوت محلہ کی سطح پرمواخات کے تصور کو لے کر چل رہی ہے، دوسری تنظیمیں بھی اپنے اپنے انداز میں کام کر رہی ہیں۔ ان تنظیموں سے ڈیٹا لیں اورتیزی سے رقم مستحق افراد تک پہنچائیں۔ اخوت اور الخدمت کے ڈیٹا پر اعتماد کیا جا سکتا ہے۔فوری طور پر چند لاکھ گھرانوں تک چاہے چار ہزار ہی پہنچیں، مگر پہنچنے چاہئیں۔ چار ہزار سے بھی گھر کا راشن تو آ جائے گا،فاقوں سے بچ جائیں گے۔ دوسرا بڑا فیور یوٹیلیٹی بلز کو ایک ماہ کے لئے موخر کرنا ہے۔ یہ ظاہر ہے بڑا قد م ہوگا، بڑی رقم حکومتی خزانے میں جمع نہیں ہوسکے گی، مگر آفت کے اس وقت میں لوگ بلز بھرنے کے قابل نہیں۔ صرف لوئر کلاس ہی نہیں بلکہ مڈل کلاس بھی بری طرح پس رہی ہے۔ صرف ایک شعبے کو دیکھیں کہ ملک بھر میں لوگوں کی بڑی تعداد کریم، اوبر وغیرہ کے ذریعے اپنا گزارا کر رہی تھی۔ اب ٹیکسی سروس ہی بند ہوگئی تو ان چند ہفتوں میں یہ لوگ گھر بیٹھ گئے ۔ ان کے اخراجات تو ختم نہیں ہوئے۔ جس نے گاڑی کی قسط دینی ہے، وہ بھی وقت پر دینا پڑے گی، ورنہ بینک گاڑی ضبط کرلیں گے۔ایسے لوگوں کے لئے بھی کچھ سوچنا چاہیے۔ اگر سٹیٹ بنک بنکوں سے گاڑی کی قسط کے لئے ایک آدھ ماہ کی رعایت دلا دے تو آسانی پیدا ہوجائے گی۔
اس کے ساتھ ساتھ براہ کرم کرفیو کی آپشن سے دور رہیں۔ عمران خان کا موقف درست ہے کہ پاکستان یورپ یا امریکہ نہیں جہاں آسانی سے لاک ڈاﺅن جیسی آپشن پر جایا جا سکتا ہے۔وہاں حکومتوں کے لئے مستحق افراد تک پہنچنا آسان ہے کہ ہرایک کا ڈیٹا سامنے ہے۔ پاکستان میں تو سب سے بڑا مسئلہ مستحق لوگوں کی شناخت ہے۔ لاک ڈاﺅن سے پہلے کے چند دنوں میں اگر خاموشی سے کچھ ڈیٹا اکٹھا کر لیا جاتا تو آج آسانی ہوتی۔ بڑے شہروں کے مختلف مصروف چوک پر روزانہ درجنوں لوگ مزدوری کرنے جمع ہوتے ہیں۔ یہ محنتی لوگ ہیں، بھکاری نہیں، روز کی دیہاڑی پر ان کے گھر چلتے ہیں۔ مزدور، رنگ کرنے والے،سامان شفٹ کرنے والے وغیرہ وغیرہ۔ اگر ان کا ڈیٹا ہوتا تو لاک ڈاﺅن کی اس کڑی آزمائش میں ملک بھر کے ان لاکھوں دیہاڑی دار افراد کو مدد دی جا سکتی تھی۔مجھے نہیں معلوم کہ حکومت کے پاس انہیں ڈھونڈنے کا کیا پلان ہے، مگر ہمارے گلے سڑے انتظامی ڈھانچے پر اگر چھوڑا گیا تو یقینی طور پر بے پناہ مسائل پیدا ہوں گے۔وزیراعظم نے کورونا ٹائیگر فورس بنانے کا اعلان کیا ہے، یہ خوش آئند ہے، کاش یہ قدم چند دن پہلے اٹھایا جاتا۔گزشتہ روز حیدرآباد میں ایک فلاحی تنظیم کا راش کا ٹرک مستحق افراد نے لوٹ لیا، مجھے خطرہ ہے کہ آنے والے دنوں میں ایسے بہت سے واقعات ہوسکتے ہیں۔ خدا کرفیو سے بچائے، اگر لگا توبھوکے لوگ بندوقوں کے آگے آ جائیںگے۔
اس لئے کرفیو کی آپشن کو ذہن سے نکال دیں، سردست جو لاک ڈاﺅن چل رہا ہے، اس میں اس طرح تبدیلی لے آئیں کہ غیر ضروری میل جول بھی بند ہوجائے ، مگر چند ایک مزید شعبوں کا کاروبار چل پڑے۔ مثال کے طور پر ایزی پیسہ ، موبائل لوڈ، نیٹ پیکیج کرانے والی تمام دکانیں بند ہوچکی ہیں۔ اس فیصلے کی ضرورت نہیں تھی۔ لاکھوں لوگ اس شعبے سے وابستہ ہیں، معمولی سی احتیاطی تدبیرکی شرط رکھنے سے سے ان کا کام چل سکتا تھا۔ ایزی پیسہ کرانااس وقت ضرورت بھی ہے۔ ان کڑے دنوںمیں آپ اپنے کسی کم وسیلہ عزیز، رشتے دار یا آبائی شہر میں کسی کی مدد کرنا چاہئیں تو کیسے کریں؟ غریبوںکے بینک اکاﺅنٹ نہیں ہوتے۔اس لئے بہت سے لوگ چاہنے کے باوجود مدد نہیںکر پا رہے۔ایزی پیسہ کی دکانیں صوبائی حکومتوں کو کھول دینی چاہئیں، ایک بڑی تعداد میں لوگوں کا بند روزگار کھل جائے گا۔
آج کل نیوز چینلز زیادہ دیکھ رہا ہوں، محسوس کیا ہے کہ بعض اینکر حضرات باقاعدہ پریشان ہیں کہ دنیا بھر میں سینکڑوں لوگ روزانہ مر رہے ہیں جبکہ پاکستان میں( الحمدللہ )صورتحال بہتر ہے۔ لہجے کی مایوسی دیدنی ہے کہ صف ماتم بچھانے کا موقعہ نہیں مل رہا۔ میڈیا کا کاروبار منفی خبروں پر چلتا ہے۔ ان کابس چلے تو صرف کرفیو نہیں ، اس سے آگے کچھ اور بھی کرا ڈالیں۔ حکومتوں کو مگر عوام کا خیال رکھنا چاہیے۔ کورونا سے بچنا لازمی ہے، سماجی فاصلہ بھی رکھا جائے، مگر سب کاروبار بند بھی نہ ہوں ، لوگ بھوکے نہ مریں۔ یہ چیلنج ضرور ہے، مگر سلیقے سے کیا جائے تو ممکن ہے۔
بات کو مزید واضح کرتے ہیں۔کورونا وائرس سے لوگوں کو بچانے اور اس کے سدباب کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ ہر ایک کو گھروں تک محدود رکھا جائے ۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر