ابھی تو انسان کے روپ میں ایک مشترک شریک موجود تھا تو سبھی شانتی سے رہتے تھے جونہی یہ پتھر راہ سے ہٹا تو جانوروں کی آبادیاں تیزی سے بڑھنے لگیں۔ شر کو کسی طور زندہ رہنا تھا سو میرا دھیان سب سے پہلے بندر کی طرف گیا ، کیوں کہ وہ انسان کا دور کا رشتہ دار تھا اور ارتقا کی دوڑ میں کہیں پیچھے رہ گیا تھا۔ اس قبیل کے تمام جانوروں جن میں چمپنزی، لنگور وغیرہ شامل تھے ، نے خوب شورش کی۔ ایک دوسرے قبیلے پہ حملہ کرنا روز کا معمول تھا۔ یہ شور شرابہ اور دھینگا مشتی روز چلتی رہتی ۔یہ ایک دوسرے کے بچے مارنے اور ماداؤں سے زور زبردستی میں کافی بدنام ہوے ۔
کوے جو لاکھوں سالوں سے انسانوں کے ساتھ رہتے آ رہے تھے کہاں پیچھے رہنے والے تھے۔ پرندوں کی دنیا میں ان کی آبادی بھی تیزی سے بڑھی۔ مکاری و عیاری میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ نام اسی لئے کوا تھا کہ بڑے کایاں تھے اور انسانوں سے کئی چالاکیاں سیکھ چکے تھے۔ انسانوں کے جانے کے بعد ان کے بڑوں نے بتایا کہ قابیل والی کہانی جھوٹی تھی اور انسان کی گھڑی ہوئی تھی ۔ کووں کا اس میں سرے سے کوئی کردار نہیں تھا ۔ ارتقا نے تیزی سے سفر کیا اور کووں کی چونچیں لمبی اور نوک دار ہو گئیں۔ چھوٹی موٹی چڑیوں، فاختاؤں کو تو وہ چیر پھاڑ دیتے تھے ۔
گدھے بیچارے گدھے ہی رہے۔ روز کا بوجھ اٹھانے اور لاٹھیاں کھانے سے تو ان کی جان چھوٹی لیکن اب بھی آسانی سے شکار ہو جاتے تھے۔ ہاں مگر گھاس پھوس کے میدان آباد ہونے سے ان کے قد کاٹھ بڑھ گئے تھے ۔
کتوں کی زندگی میں کوئی خاص بدلاؤ نہیں آیا وہ ابھی بھی دربدر تھے۔ گیدڑوں، لگڑ بگڑوں، بھیڑیوں نے انھیں اپنی جاتی میں لینے سے انکار کر دیا۔ انسانوں کے ساتھ رہنے کی وجہ سے وہ ان پہ اعتبار نہیں کرتے تھے اور چن چن کے مار رہے تھے ۔ لاکھوں سال انسانوں کی خدمات گزاری کی تھی لیکن اب ان کا کوئی محسن اردگرد موجود نہیں تھا۔
گاۓ، بیل، بکری، بھینسیں بھی گھاس کی فراوانی سے خوش تھیں۔ ان کے بچے سیر ہو کے دودھ پیتے۔ لیکن شیر، چیتے اور دیگر درندے انھیں آسان حدف سمجھ کہ ہاتھ صاف کر جاتے ۔ خیر جاتی کے کچھ جانوروں کی قربانی دے کر وہ مطمئن ہو جاتے۔ یہ حرکت ان نے انسان سے سیکھی تھی۔
چیلوں، عقابوں کی زندگی ویسی کی ویسی تھی ۔ وہ جہاں جی چاہتا شکار کرتے "I prey where I please ۔ شاہینوں کا ٹھکانہ پہاڑوں کی چٹانوں کی بجاے، فلک شگاف پلازوں کی ممیوں پہ تھا جہاں سے وہ ہر آنے جانے والے پہ نظر رکھتے ۔چیلوں نے موبائل فون کے ٹاوروں پہ انڈے بچے دئے ہوے تھے۔
بلیاں تنہائی پسند ہو گئیں تھیں۔ وہ سارا دن دھوپ میں سوئی رہتیں۔ کتے آبادیوں کو چھوڑ گئے تھے۔ لیکن بلیاں اب بھی انہی ملبوں پہ دل پشوری کرتی رہتی تھیں جہاں کبھی انسانوں کے عظیم شہر آباد تھے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر