اس تصویر میں نظر آنے والی عمارت کچھہ عرصہ پہلے تک اپنی جگہ پر مخدوش حالت میں کھڑی تھی۔ لیکن جس طرح جین مندر آنجہانی ہوا اسی طرح شائد یہ عمارت بھی ہو جائے کیوں کہ قرب و جوار کی عمارتیں اورنج لائن کے لیے زمین بوس ہو رہی ہیں۔
1930 کی تیسری دہائی کے ایک بڑے ادبی کردار کے ساتھہ اس عمارت کا ایک تعلقِ خاطر تھا۔
اس عمارت میں ایک بنگالی خاندان رہتا تھا ان کی ایک بچی کالج میں پڑھتی تھی۔ایک روز جب وہ یونیورسٹی گراؤنڈ کے قریب اپنی ایک سہیلی کے ساتھہ گزر رہی تھی تو اسے لمبے بالوں والے ایک نوجوان نے روکا اور کہا کہ میں آپ سے کچھہ کہنا چاہتا ہوں۔ لڑکی رکی مگر نوجوان کچھہ بھی نہ کہہ سکا۔
آپ ضرور یہ جاننا چاہیں گے کہ وہ لڑکی کون تھی اور نوجوان کون تھا؟ اچھا سنیے لڑکی میراسین تھی اور نوجوان ثنا اللہ ڈار تھا۔ اس نا آسودہ ملاقات کے بعد ثنا اللہ ڈار ۔۔۔۔ میراجی بن گیا۔
میراجی یونیورسٹی گراؤنڈ کے ایک کونے میں بیٹھا کرتا تھا یہ کونا جین مندر کے پیچھے تھا۔ میراجی اس کونے میں نشست جما کر میراسین کے گھر کی طرف دیکھتا رہتا تھا۔ اس گھر کی بالکونی میں ایک الگنی بندھی رہتی تھی جہاں میراسین اپنی رنگ برنگ ساڑھیاں دھوپ میں ڈالتی تھی اور میرا جی اسے دور سے دیکھتا رہتا تھا۔
کچھ مدت بعد میراسین کا خاندان اپنے شہر کلکتہ واپس چلا گیا اور اس کے ساتھہ ہی الگنی پرساڑھیوں کی بہار بھی رخصت ہوگئی۔ میراسین چلی گئی مگر میراسین کا امیج میراجی کے لیے ایک تخلیقی تجربہ بن گیا۔ وہ عمر بھر اس امیج کے حصار میں رہا اور یوں میراسین کا امیج میراجی کے لیے ایک باطنی مرکز کی حیثیت اختیار کر گیا تھا۔
[ڈاکٹر تبسم کاشمیری]
نہیں جناب یہ Nostalgia نہیں ہے ، ایسا نہ کہیے..
تبسم صاحب، میرا سین کا یہ گھر، میرا جی کی محبت میں امر ہو گیا…
مجھے کسی زمانے میں اس گھر میں جانے کا بارہا اتفاق ہوا…
آپ ہرگز یہ ناں سمجھیے گا کہ سلمان باقر کو بھی میرا سین کی روح سے التفات ہو گیا تھا…
ایسا نہیں تھا بلکہ قصہ یہ تھا کہ میراسین کی گھر سے رخصتی اور اس کے گھر والوں کی 1947 میں ہندوستان ہجرت کی رخصتی کے بعد یہ گھر مقبول احمد جعفری صاحب کو الاٹ ہو گیا، مقبول احمد جعفری، جعفریہ کالونی، بند روڈ، لاہور کے سیکرٹری کوآپریٹو تھے، ہمارے والد آغا محمد باقر نبیرہ آزاد نے اس سوسائٹی میں گھر کے لئے ایک کنال زمین لی تھی، میں 1968 میں اسی زمین کی بعض قانونی معاملات کے لئیے اس گھر میں آتا تھا.
ایک دن جعفری صاحب سے ادبی باتیں چل نکلیں.
کہنے لگے… سلمان صاحب آپ کو پتہ ہے کہ اس گھر میں ہم سے پہلے کون رہتا تھا؟
میں نے لا علمی سے کہا، نہیں جانتا….
کبھی ایک بہت خوبصورت لڑکی کا خوبصورت سا نام ” میرا سین ” سنا ہے ؟
میں بے اختیار بولا… آپ میرا جی والی، میرا سین کا ذکر تو نہیں کر رہے….
بولے… وہی، اسی کا ذکر کر رہا ہوں، وہ اسی گھر میں رہتی تھی… اور مزے کی بات یہ کہ وہ اسی کمرے میں رہتی تھی، جس میں اس وقت آپ اور میں بیٹھے اسی کی باتیں کر رہے ہیں…
میں حیرت سے اچھل پڑا… ابھی میں عالم حیرت میں، حالت غش میں تھا کہ وہ مزید بولے…
میاں سلمان باقر، ابھی بے ہوش نہ ہونا، جو بات اب میں تمہیں بتانے والا ہوں، وہ نا قابل یقین ہی ہو گی، مگر تم لکھنے پڑھنے والے نوجوان ہو، اس لیے وہ کبھی نہ کبھی تم کو یاد آئے گی، اور تاریخ کا حصہ بن سکتی ہے… پھر وہ اٹھے، سامنے کی بوسیدہ الماری کھولی، ایک تہ شدہ سرخ ساڑھی لا کر میرے ہاتھوں پر رکھ دی… میں نے حیرت سے پوچھا… یہ کیا ہے… کہنے لگے… یہ میرا سین کی ساڑھی ہے…
میرے منہ سے تقریباً حیرت زدہ چیخ ہی نکل گئی…
میرا جی کی محبوبہ کی ساڑھی….!!!
جناب…. جب یہ گھر الاٹ ہوا تو یہ اسی کمرے کی اسی الماری کے اسی خانے میں رکھی ملی… اور ساتھ میں یہ تصویر بھی…
انہوں نے ایک خوبصورت، دھان پان سی لڑکی کی بلیک اینڈ وائٹ، رنگت اڑی تصویر مجھے تھما دی…
میں نے میرا سین کی تصویر دیکھ کر دل میں سوچا کہ اگر میرا جی کا دل اس پر آیا تو ٹھیک ہی آیا تھا، وہ نہیں ملی تو وہ ثناء اللہ سے میرا جی بن گیا، تو ٹھیک بن گیا..
جعفری صاحب، آپ کو کیسے پتہ چلا کہ یہ ساڑھی میرا سین کی ہے… کہنے لگے، تصویر میں پہنی ہوئی ساڑھی، وہی ہے جو تمہارے ہاتھ میں ہے….!
میرا جی کی محبوبہ کی ساڑھی..!!!
[آغا سلمان باقر]
سلمان باقر نے میراسین کے گھر کی جو کہانی سنائی ہے وہ بہت دل چسپ ہے.
آج شام میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ ایک سپر مارکیٹ میں گروسری خریدنے میں مصروف تھا کہ موبائل کی گھنٹی بجی. ہیلو کہا تو لائن پہ مرزا حامد بیگ صاحب تھے. بڑی خوشی سے خبر دی کہ میراسین کی تصویر اور اس کی ساڑھی سلمان باقر نے دریافت کر لی ہے. یہ از بس چونکا دینے والی خبر تھی. میں بے حد انسپائر ہوا اور یہ کہا کہ گھر جا کر بات کرتا ہوں. شاپنگ کے دوران میں یہ خبر مسلسل دماغ میں چکر کاٹتی رہی. مصروفیت کے باعث کوئی بات واضح نہ ہو سکی.
گھر پہنچ کر کافی پی, کچھ آرام کر کے اور سلمان کا بیان پڑھ کے جب ذرا سا غور کیا تو بات واضح ہونے لگی. تحقیق کی مشق نے بہت جلد صحیح راستہ دکھا دیا.
صورت حال کچھ یوں ہے کہ میرا جی نے 26. مارچ 1946 کو دلی سے قیوم نظر کے نام ایک خط میں یہ لکھا تھا ” پرسوں بیس مارچ تھی میراسین کی سروس میں 14 سال ہوئے ” اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ میراسین سے ان کا ذہنی تعلق 1936 میں شروع ہوا تھا اور میراسین اس زمانے میں ایف سی کالج میں پڑھتی تھی. اس مقام پر ایک اہم مسئلہ پیدا ہوتا ہے کہ میراسین جو اپنے خاندان کے ساتھ بنگال سے لاہور آئی تھی وہ کس زمانے تک اس شہر میں مقیم رہی تھی. میں نے اپنی نوجوانی میں کہیں یہ ضرور پڑھا تھا کہ میراسین سن چالیس کے آس پاس لاہور سے چلی گئی تھی . یہ میرا جی کی زندگی کا بہت اہم دور تھا جب وہ ادبی دنیا, ریڈیو اور حلقہ ارباب ذوق کے کاموں میں بے حد دل چسپی لے رہے تھے.اس کے بعد وہ 1942 میں دلی چلے گئے تھے. اب بات یہ ہے کہ فی الوقت مجھے حوالہ یاد نہیں ہے. میں نے اس سلسلے میں نے میرا جی پر رشید امجد کے مستند کام سے بھی رجوع کیا . انھوں نے بھی یہ لکھا ہے کہ حلقہ کی مصروفیت کے زمانے میں میراسین لاہور سے جا چکی تھی. کہنے کا مقصد یہ ہے کہ 1947 میں تقسیم ہند کے موقع پر وہ لاہور کے اس گھر میں نہیں تھی. اس لیے میراسین سے منسوب کر دہ تصویر اورساڑھی اس کی نہیں ہو سکتی ہے. یہ میراسین سے بعد آنے والی کسی خاتون کی ہو گی.
[ ڈاکٹر تبسم کاشمیری ]
اسی جگہ سے ہندئووں کا ایک مقبول اردو اخبار ” تیج ” بھی شائع ہوتا تھا۔ مالکان نے یہاں سے جانے کے بعد بھارت میں بھی نکالا ۔خاصا کثیر الاشاعت تھا۔ لاہور سے بھارت منتقل ہو نے والے دوسرے اخباروں ملاپ اور پرتاپ کے ساتھ یہ بھی دفتر امروز آتا تھا۔ اس طرح چودہ سال سے زیادہ عرصہ میرے زیر مطالعہ رہا۔خاصا چٹخارے دار اخبار تھا۔ فلمی سکینڈلز سے بھرا ہوا۔۔ جوں جوں اردو پڑھ سکنے والے مرتے گئے ان اخباروں کی اشاعت گرتی چلی گئی۔
کچھ عرصہ پہلے تک جین مندر کی طرف سے گزرتے ہوئے TEJ STREETکی تختی پر نظر پڑتی رہی ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر