پچھلے تین مہینوں سے عمران سرکار نے کرونا وائرس سے پیدا شدہ صورت حال کا جیسے سامنا کیا ہے اسے دیکھ کر انسان کانپ جاتا ہے۔ یہ بے حسی اور غیر ذمہ داری کا بھرپور شاہکار ہے۔
جب جنوری میں ووہان سے بری خبریں آنا شروع ہوئیں تو اس بری خبر میں ہماری اپنی بری خبریں شامل تھیں کیونکہ پاکستانی طلبہ متاثرین میں شامل تھے۔ ہمیں اسی وقت تیاری شروع کر لینی چاہیے تھی لیکن عمران سرکار انہیں چینی حکام کے حوالے کر کے لمبی تان کر سو گئی۔
ہمیں خطرہ چین سے آنے والے وائرس سے تھا لیکن اس وائرس نے ہمیں ایران، سعودی عرب، دوسرے خلیجی ممالک، یورپ اور امریکہ سے ڈسنا شروع کر دیا ہے۔
فروری کے آخری دنوں میں ایران نے سینکڑوں پاکستانی زائرین کو اپنی سرحد سے دھکیل دیا کیونکہ ایران اس آفت کا چین کے بعد بدترین شکار ہونے والا ملک تھا۔ امریکی پابندیوں نے اس سانحے کو مزید سنگین بنا دیا تھا۔
پاکستانی حکام ایرانیوں کو قائل کرنے میں ناکام رہے کہ ان زائرین کو کچھ دن اپنے پاس رکھے لیکن ایرانی حکام نے ان کے پاسپورٹ پر ایگزٹ ٹھپہ لگا کر انہیں تفتان سے پاکستانی علاقے میں بھیج دیا۔ کرونا وائرس کے پاکستانی سانحے کا آغاز یہاں سے ہوا۔
سرحدی معاملات وفاقی حکومت اور اس کے اداروں کی ذمہ داری ہے لیکن بلوچستان حکومت نے اس میں تعاون ضرور کیا۔ اس پورے عمل میں ضرورت ان لوگوں کو حتی الوسیع ایک دوسرے سے دور رکھنے کی تھی لیکن جس طرح سے انہیں تفتان میں رکھا گیا اس نے ایک طرف تو ایک انسانی المیے کو جنم دیا، دوسری طرف تفتان کی یہ جگہ پاکستان میں کرونا وائرس پھیلانے کی سب سے بڑی نرسری بن گئی۔
وفاقی حکومت اور اس کے کارندوں کے اس بیان کی کوئی اہمیت نہیں کہ یہ دور افتادہ جگہ تھی۔ یہ ہماری شہری تھے اور ان کا خیال رکھنا اور باقی لوگوں کو بچانا اس حکومت کی ذمہ داری تھی جسے سرانجام دینے میں یہ بہت بری طرح ناکام ہوئی۔ انہیں اپنی یہ ناکامی تسلیم کرنی پڑے گی۔
یہ ضروری تھا کہ ان لوگوں کو کوئٹہ میں، سندھ حکومت کی طرز پر، الگ الگ رکھا جاتا اور ان کی ٹیسٹنگ کی جاتی اور صرف صحت مند افراد کو بعد میں اپنے علاقوں میں چھوڑا جاتا، مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ اس کی ذمہ دار وفاقی حکومت ہے جو اپنے شہریوں کو محفوظ بنانے کی بجائے اس پورے عرصے میں حزب اختلاف اور میڈیا کو دبانے میں مصروف رہی۔ کچھ اطلاعات کے مطابق ڈیرہ غازی خان میں بھی سینکڑوں افراد کو بھیڑ بکریوں کی طرح ایک ساتھ رکھا گیا۔
اس عمل سے وائرس کو پھیلنے کا مزید موقع ملا۔ نہ صرف یہ بلکہ بین الاقوامی پروازوں سے آنے والوں کی سکریننگ بھی ٹھیک طرح سے نہیں ہوئی۔ اس کے نتیجے میں اب سعودی عرب، خلیجی ممالک، یورپ اور امریکہ سے کرونا کے مشتبہ اور مصدقہ مریضوں کی اچھی خاصی تعداد پاکستان میں موجود ہے۔ لوگوں میں آگاہی کی کمی کی وجہ سے یہ مرض تیزی سے پھیل رہا ہے۔
پاکستان کی بدقسمتی یہ بھی ہے کہ یہ عالمی وبا ایسے وقت آئی جب پچھلے 19 ماہ سے لائی گئی عمران حکومت نے قومی ایکتا کی تمام نشانیاں مٹانے اور قومی شیرازہ بکھیرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
اس وقت تمام قومی ادارے، صوبائی حکومتیں، جماعتیں، ذرائع ابلاغ، پارلیمان جنہیں ایک آرکیسٹرا بینڈ کی طرح کام کرنا چاہیے تھے، ایک دوسرے سے آنکھ ملانے کے لیے تیار نہیں اور اس قومی ایکتا کے بغیر اس چیلینج کا مقابلہ کرنا ناممکن ہے۔
اس انتشار کے عالم میں اگر کوئی اچھی خبر ہے تو وہ سندھ حکومت کی کارکردگی ہے جس نے تفتان سے لائے گئے زائرین سے لے کر، کراچی ایئرپورٹ پر آئے ہوئے مسافروں سے لے کر اپنے صوبے میں انتہائی اقدامات سے اس وبا کو روکنے اور مریضوں اور عام شہریوں بالخصوص غریب شہریوں کے لیے اقدامات اٹھائے ہیں۔
شروع میں بھی جب وفاقی نمائندے ڈاکٹر ظفر مرزا صوبائی اہلکاروں کے اجلاس بلا رہے تھے تو صرف ایک وزیر اعلیٰ ان اجلاسوں میں شریک ہو رہے تھے اور ان کا نام مراد علی شاہ تھا۔ اس ٹیم میں صوبائی وزیر ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو، ناصر شاہ اور مرتضیٰ وہاب شامل ہیں اور بلاول بھٹو زرداری بھی ان کے ساتھ ہیں جنہوں نے اپنی عمر سے زیادہ پختگی کا مظاہرہ کیا ہے۔
اب بھی اس وبا پر قابو پانے کے لیے جن سخت اقدامات پر عمل کیا گیا وہ صرف سندھ میں ہوئے ہیں لیکن سندھ اپنے طور پر یہ کام نہیں کر سکتا جب تک وفاقی حکومت، اس کے ادارے اور دوسری صوبائی حکومتیں اس کے ساتھ مل کر کام نہ کریں۔
ایک جمہوری معاشرے میں جمہوری ادارے ہی بڑے چیلینجوں کا مقابلہ کرتے ہیں۔ موجودہ حکومت نے پارلیمان، مشترکہ مفادات کونسل اور پارلیمانی کمیٹیوں کو عضو معطل کر کے رکھ دیا ہے۔ ماسوائے قومی سلامتی کمیٹی کے ایک اجلاس کے کوئی قابل ذکر قدم نہیں اٹھایا گیا۔
پاکستان ایک وفاقی جمہوری ملک ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد صرف قومی سلامتی کمیٹی اس معاملے کا حل نہیں ڈھونڈ سکتی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس ہنگامی صورتحال میں مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس وڈیو کانفرنس کے ذریعے روزانہ کی بنیاد پر ہو۔
ساتھ ہی قومی اسمبلی اور سینیٹ کی خصوصی کمیٹی اس معاملے پر اپنی سفارشات دے۔ پارلیمان کا مشترکہ اجلاس تمام حفاظتی تدابیر کو سامنے رکھتے ہوئے بلایا جا سکتا ہے۔
لیکن سب سے بڑی ذمہ داری وفاقی حکومت کی ہے۔ 2005 میں زلزلے کے دوران وزیر اعظم ہاؤس میں ایک وفاقی ریلیف سیل قائم کیا گیا تھا، جس میں اس وقت کے وزیر اعظم، صدر، اہم اداروں اور وزارتوں کے نمائندہ افراد شامل تھے۔ اس ماڈل پر کام کرنا ہو گا اور 19 ماہ کی رسہ کشی، تفرقہ بازی اور انتقامی سیاست سے نکلنا ہو گا۔
اس وقت لوگوں کو محفوظ رکھنے کے لیے ٹیسٹ کٹس، حفاظتی آلات اور ادویات کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ اگر ان اشیا کی خریداری اور درآمد میں سرخ فیتہ اور نیب جیسے اداروں کا عفریت سر پر رہا تو تباہی اور ایک عظیم سانحہ ہمارا مقدر ہے۔ اس کے لیے جو کچھ بھی کرنا پڑے کرنا چاہیے تاکہ لوگوں کو بچایا جا سکے۔
اس وقت عوام کو بچانے کے لیے ماہرین صحت کے احکامات کو ماننا ہو گا، چاہے وہ بادی النظر میں ہمارے ثقافتی اور مذہبی اقدار سے مطابقت رکھتے ہوں یا نہ رکھتے ہوں۔ اس وقت سب سے بڑی عبادت انسانوں کی جانیں بچانا ہے۔ باقی تمام چیزیں ثانوی حیثیت رکھتی ہیں۔
اس کے لیے ہمیں جمعے کے اجتماعات موخر کرنے پڑیں، کرفیو لگانا پڑے، جو کچھ بھی کرنا پڑے وہ کرنا ہو گا۔ اس سلسلے میں ہمیں مقامی انتظامیہ کو بااختیار کرنا ہو گا۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ضلعی انتظامیہ، صوبائی اور وفاقی انتظامیہ کی طرف دیکھتی رہے۔
اس دوران درست معلومات تک عوام کی رسائی اور غلط معلومات کو روکنا بہت اہم ہو گا۔ اس میں ذرائع ابلاغ کو ذمہ دار کردار ادا کرنا ہو گا۔ افراتفری کے عالم میں ںظم و ضبط قائم رکھنا زیادہ ضروری ہے۔ افراتفری پھیلانا ہمارا کام نہیں ہو سکتا۔ اس ضمن میں نیوز روم میں غلط معلومات کو روکنے کے لیے خصوصی ڈیسک کا قیام انتہائی ضروری ہے تاکہ یہ نہ ہو کہ عوام تک مضر صحت اور غلط معلومات پہنچے۔
پچھلے دنوں کئی ٹی وی چینلز اور حکومتی اداروں اور غیر سرکاری تنظیموں کی طرف سے غلط معلومات لوگوں تک پہنچائی جاتی رہی ہیں۔ واٹس ایپ طبی اداروں اور ٹوٹکا کارخانوں سے عوام کو بچانا اس وقت ذرائع ابلاغ کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔
یہاں تک کہ جب ملک کے وزیر اعظم ٹیسٹنگ کی اہمیت سے انکار کریں اور سب سے بڑے صوبے کے گورنر جب غلط ٹوٹکے عوام کو تجویز کریں تو پھر بچنا مشکل ہے۔ تمام معلومات کو عالمی ادارہ صحت کی تصدیق شدہ معلومات کی کسوٹی پر پرکھنے کے بعد ہی عوام تک پہنچانا چاہیے۔
آخر میں سب سے اہم بات یہ کہ اس جنگ کے لڑنے والی فوج ہمارے صحت کے کارکن ہیں۔ ان کے ہتھیار ان کے ذاتی حفاظتی آلات ہیں۔ جیسے سپاہی ہتھیاروں کے بغیر نہیں لڑ سکتا اس طرح ان ڈاکٹروں اور کارکنوں کو یہ آلات فراہم کرنا، ان کا خیال رکھنا اور انہیں صحت مند رکھنا انتہائی ضروری ہے۔
یہ جنگ ان کے بغیر نہیں لڑی جا سکتی۔ تمام حکومتوں اور اداروں کو اس کا خیال رکھنا ہو گا۔ اگر ہم اپنی عداوتوں، نفرتوں اور تعصبات کی قیدی رہے تو یہ جنگ ہم جیت نہیں سکیں گے۔
بشکریہ انڈیپینڈنٹ اردو
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ