نومبر 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

طبقاتی نظام زندگی اور ریاست۔۔۔ ملک خلیل الرحمٰن واسنی

ایک تحقیق کے مطابق پرائیویٹ طور پر کرونا ٹیسٹ کی فیس 9700،ویکسینیشن 8500,مدافعتی نظام کو بڑھانے کی ادویات کی قیمت 5500روپے ہے

دنیائے کائنات کے وجود میں آنے سے لیکر آج تک ایک طبقاتی نظام زندگی برقرارہے اور شاید رہے بھی؟ مگر مہذب معاشروں اور خاص طور پر دین اسلام میں برابری کا تصورہے اوریہی وجہ ہے کہ دنیا کے تمام مذاہب اور ادیان سے اسلام کو ممتاز اور جداگانہ مقام حاصل ہے کیونکہ ہم سب کا جینا اور مرنا طے ہے

یہ الگ بات ہے مالدار طبقہ میں پیدائش اعلی ماحول میں ہوتی ہے اور غریب طبقہ میں پیدائش ہسپتالوں کے فرش پرمگر جب موت واقع ہوتی ہے سبھی اسی زمین میں دفن کیئے جاتے ہیں اور وہ بھی خالی ہاتھ جہاں امیر اور غریب کے لیئے ایک ہی مدفن ہے جہا کوئی تخصیص نہیں یعنی صرف زمین۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور مختلف دنیا کے ممالک اور معاشروں میں جہاں اسلامی ضابطہ حیات اور نظام زندگی کو رائج کیا گیا ہے بے شک نام جو بھی ہو وہاں پر ترقی و خوشحالی اور معاشی استحکام حاصل ہے اور اسلام ہی ہے جس نے ہر جاندار کے حقوق و فرائض وضع کیئے ہیں

یہاں تک کہ انسان تو انسان جانوروں کے حقوق کا بھی تصور ہے جس کا مغرب اور مغربی معاشرہ اپنے آپ کو عمل کرنے کا دعویدار ٹھہراتا ہے مگر مذہب اسلام اور اسکی تعلیمات بلاضرورت گھاس تک کو اکھاڑنا قتل کے مترادف قرار دیتا ہے مگر انتہائی افسوس کا مقام ہے آج ہم نے اسلامی تعلیمات کو پس پشت ڈال کر ، نظر انداز کر کے اپنے لیئے مصیبتوں اور پریشانیوں کو گلے لگا یا ہوا ہے جس کی واضح ترین مثال کرونا وائرس کی عالمی وبا ہے جہاں طبقاتی نظام زندگی نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی اک خواب تو تھا ہی اب اس بیماری نے نئی پریشانی میں مبتلاء کر دیا ہے

ایک تحقیق کے مطابق پرائیویٹ طور پر کرونا ٹیسٹ کی فیس 9700،ویکسینیشن 8500,مدافعتی نظام کو بڑھانے کی ادویات کی قیمت 5500اور ہسپتال کے ایک کمرے کی ایک دن کی فیس 2500 جو کہ ہزاروں روپے بنتے ہیں جوکہ اگر ایک عام انسان کا تصور کیا جائے جسے ایک وقت کی روزی روٹی کے لئے چند روپے بھی میسر نہیں اور عام نزلہ زکام بخار کے لیئے دوائی تک میسر نہیں،جہاں پر کتے کے کاٹے سانپ اور بچھو کے ڈسے کی ،ہیپاٹائٹس سے بچائو کی ویکسین تک عام آدمی کو میسر نہیں،

بنیادی روزمرہ زندگی کی عام ضروریات کو پورا کرنے کی سہولیات کی فراہمی جوکہ ریاست کی ذمہ داری ہے مگر ریاستیں فراہمی میں ناکام دیکھائی دیتی ہیں اور وسائل کی غلط تقسیم کے سبب گندگی کے ڈھیروں اورجوہڑوں پر زندگی بسر کرنے کئی کئی بیماریوں کا شکار ہوکر بھی بظاہر فٹ نظر آتے ہیں اور کوٹھیوں ،بنگلوں،آسائش سے بھرپور پر تعیشں زندگی گزارنے والے ذرا سے نزلہ زکام ،فلو پر پوری نظام کو ہلاکر رکھ دیتے ہیں

جس کی واضح ترین مثال سابق حکمران مجرم ہونے کی حیثیت کے باوجود علاج معالجے کے نام پر بیرون ملک میں عیاشیوں پر اکتفاء کیئے ہوئے ہیں اور یہاں کے غریب سہولیات نہ ہونے کے سبب صحت کی سہولیات تو درکنار ایک وقت کی روٹی سے بھی محروم ہیں اور شاید اس کے سبب توہم پرستی، ٹونے،ٹوٹکے اور پتہ نہیں کیا کیا جنم لے رہے ہیں جو معاشرے کے مزید بگاڑ اور تباہی کا موجب ہیں قیام پاکستان سے لیکر آج تک کھربوں ڈالر کے بجٹ عوام کی بہتری کے نام پر نمودو نمائش پر مختص تو کیئے گئے مگر قابل عمل نہ بن سکے جس کے سبب آج بھی 70فیصد آبادی بنیادی سہولیات سے محروم ہے لیکن اگر بنیادی روزمرہ ضروریات زندگی کی فراہمی میں ریاستیں حقیقی معنوں میں اور جذبہ انسانی ہمدردی ،خلوص نیت اور ایمانداری کیساتھ صرف خدمت خلق کے جذبے کیساتھ اس طرف توجہ دیں تو کرونا وائرس جیسی وبائوں پر موجودہ اور آنیوالے دنوں میں قابو پایا جاسکتا ہے اور بہتر طور پر موثر انداز میں روک تھام اور کنٹرول کوبھی قابل عمل بنایا جاسکتا ہے

جیسا کہ پنجاب حکومت نے محکمہ لوکل گورنمنٹ اینڈ کمیونٹی ڈویلپمنٹ اور ضلع و تحصیل سطح پر ایڈمنسٹریشن کے تعاون سے تحصیل کونسلز،میونسپل کمیٹیاں،ٹائون کمیٹیاں،ویلج کونسلز،نیبر ہڈ کونسلز اور بلاک وائز علاقوں کی تقسیم کی ہے اور وہاں آبادی،سہولیات مسائل وسائل کے اعدادوشمار اکھٹے کیئے ہیں کیا وہاں پر ہنگامی بنیادوں پر تمام تر شعبہ ہائے زندگی کے اداروں کے تعاون مشاورت سے سب کچھ ممکن اور قابل عمل بنایا جاسکتا ہے؟ اور ریاست صحیح معنوں میں اپنا کردار ادا کرکے اپنے علاقے کے عوام کی فلاح وبہبود کے لیئے بہتر طور پر اور موثر حکمت عملی اپنا کر بہت کچھ کرسکتی ہے۔

اگر صحت کے مسائل کی بات کریں تو ملک کے کونے کونے میں آرمی میڈیکل کور کے تعاون سے ہسپتال ڈسپنسریاں قائم کر کے انکی زیر نگرانی مستقبل میں بھی انہیں قابل عمل بنایا جاسکتا ہے اور ساتھ میں رشوت و بدعنوانی پر قابو پانے کیساتھ ساتھ جس عوام کے لئے کروڑوں، اربوں ،کھربوں کے فنڈز مختص کیئے جاتے ہیں ان پر حقیقی معنوں میں خرچ بھی ہوسکتے ہیں اسی طرح ہر محکمے کا ایک روڈ میپ تیار کر کے علاقائی اور مقامی سطح کیساتھ وہاں کے زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے عوامی سہولت کے منصوبے تیار کر کے طبقاتی نظام زندگی کا خاتمہ ممکن بناکر ایک مہذب اور اسلامی معاشرہ تشکیل دے کر امن و بھائی چارے کی عظیم اور لازوال مثال قائم کی جاسکتی ہے۔جسمیں تعلیم،صحت،امن و امان،معاشرتی وسائل اور انصاف کی فراہمی میں طبقاتی نظام زندگی کو جڑ سے ختم کردیا جائے تو ایک مہذب معاشرے کے قیام کیساتھ ساتھ ایک صحت مند ذہنی اور جسمانی طور پر مضبوط ترین قوم بن سکتے ہیں۔

لیکن شرط یہ ہے کہ ہم سب من جملہ طور پر تمام تر شعبہ ہائے زندگی سے منسلک لوگ وقت کے ضیاع کی بجائے ہم اپنی اپنی توانائیاں، ایجادات اور ٹیلینٹ ملک و قوم کی بہتری کے لیئے استعمال کریں۔کیونکہ ہمارا ایک ایک سیکنڈ اور گزرتا لمحہ بہت قیمتی ہے جس کو ہم گزرتے وقت کیساتھ ساتھ برف کے پگھلنے کیطرح ضائع اور برباد کررہے ہیں۔

About The Author