نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

میڈیا گروپوں کی جعل سازیاں۔۔۔ عامر حسینی

برطرف صحافی واپس نوکری پر لیے جائیں اور جن کو کئی ماہ سے تنخواہ نہیں ملی اُن کی تنخواہ جاری ہو

میڈیا گروپ بھی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی طرح جعلی آؤٹ سورس کمپنیاں بناتے اور تھرڈ پارٹی کنٹریکٹ کرتے ہیں تاکہ صحافی ویج بورڈ ایوارڈ کے حقدار نہ بن سکیں اور برطرفی پر براہ راست میڈیا مالک پر مقدمہ نہ دائر کرسکیں-

جنگ – جیو میڈیا گروپ میں شکیل الرحمان کے زیادہ تر ملازم صحافی ‘صحافی’ کی کیٹگری میں اسی وجہ سے شمار نہیں ہوتے کہ وہ براہ راست شکیل الرحمان کے میڈیا گروپ کی بجائے جعلی آؤٹ سورس کمپنیوں کے ملازم ہیں-

اب زرا اُن نام نہاد بائیں بازو کے صحافیوں، سیاسی کارکنوں سے پوچھا جائے جو میر شکیل الرحمان کی گرفتاری کو حکمران طبقات کی باہمی سرپھٹول کا نتیجہ بتانے کی بجائے اسے میر شکیل کی آزادی صحافت کے لیے جدوجہد کا نتیجہ قرار دیتے ہیں کہ ایک جعل ساز میڈیا مالک جو اپنے ملازم مزدور صحافیوں کو اجرتی غلام بنائے اور جو معاوضہ اور مراعات اسے ویج بورڈ ایوا رڈ سے ملنے ہیں اُس سے محروم رکھنے کے لیے جعل سازی کرتا ہو تو اُس کے جلوس نکالنا اور اُسے ھیرو بنانا کون سی ترقی پسندی اور کون سی انسان دوستی اور لیفٹ کے کس اصول کے مطابق ہے؟

کمرشل لبرل اور بوتیک لیفٹ جن میں سرفہرست لاہور میں امتیاز عالم ہے، کراچی میں مظہر عباس ہے، ایسے ہی ڈان میڈیا گروپ کا وسعت اللہ خان، ضرار کھوڑو، مبشر زیدی ہیں اور پھر ایسے ہی کالعدم تنظیموں کا یار اور بے پیندے کا لوٹا حامد میر اور آج ٹی وی کی اینکر عاصمہ شیرازی ہے….

مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے لاہور میں کہ بائیں بازو کے ایکٹوسٹ فاروق طارق، لندن میں ہمارے استادوں کے استاد پروفیسر محمد امین مغل سمیت کئی درجن بھر ایسے لیفٹ ایکٹوسٹ ہیں جنھوں نے بجائے میڈیا مالکان کے خلاف تحریک منظم کرنے کے میڈیا مالک کے حق میں احتجاج کررہے ہیں-

لاہور، کراچی، اسلام آباد، پشاور، کوئٹہ، فیصل آباد، گوجرانوالہ، رحیم یار خان، سکھر، حیدرآباد میں میڈیا گروپوں میں جو صحافی آؤٹ سورس کمپنیوں کے ملازم ظاہر کیے جاتے ہیں اُن کو براہ راست میڈیا کمپنیوں کا ملازم صحافی ہونے کا لیٹر جاری ہو، برطرف صحافی واپس نوکری پر لیے جائیں اور جن کو کئی ماہ سے تنخواہ نہیں ملی اُن کی تنخواہ جاری ہو-

روزنامہ جنگ میں کرائم رپورٹر سے ایڈیٹر تک کی پوسٹ پر کام کرنے والے لاہور کے سینئر صحافی جمیل چشتی کیا لکھتے ہیں نیچے کمنٹ میں ملاحظہ کرلیں-

روزنامہ جنگ سے وابستہ سینئر صحافی جمیل چشتی لکھتے ہیں:

جواد نظیر مرحوم نے مرنے سے کچھ روز قبل مجھے فون کیا! مجھے معلوم تھا کہ اسے جنگ سے فارغ کردیا گیا ہے جواد نے کہا میں بہت پریشان ہوں پھر کچھ ایسی باتیں بتائیں جسے میں فی الحال شیئر نہیں کر سکتا ۔۔۔۔۔۔۔اور پھر اچانک ہی دن جواد نظیر کی وفات کی خبر پہنچ گئی میں اس کے گھر جوہرٹاون گیا جہاں سو گوار خاندان کے علاوہ شاہین قریشی خاور نعیم ہاشمی رائیس انصاری ایسے چند چہرے نظر آئے ۔۔۔۔۔۔اگلے روز بھی یہی دوست تھے اور کچھ اور لوگ بھی آگئے۔۔۔تو مجھ سے رہا نہ گیا اسی رات جب جواد نظیر کی میت گھر کے اندر تھی میں نے یہ کہا کہ اس شخص کو ادارے سے برطرف کرکے کے اس کا قتل کیا گیا ہے وہ یہی سوال کرتا رہا کہ میں اتنا غیر ضروریانسان ہوں ہکہ مجھے کچھ نہیں آتا ؟کیا میں غیر ہم ہوں ؟ کیا میں غیر ضروری ہوں ؟ کیا مجھے کچھ نہیں آتا ؟ اس کے علاوہ اور بہت سے سوالات ؟؟؟؟؟ میں نے اس کے گھر جذباتی ہوئے ایک صاحب سے کہا اس کی موت کا ذمہ دار ہے میر شکیل ہے ان صاحب نے مجھے یہ کہہ کر چپ کرادیا کے بابا جی آپ جذباتی ہوکر کیس خراب نہ کریں میں MSR سے بات کروں گا اور اس سے جواد کے بچوں کے لیے لئے بہت کچھ لے کے دون گا۔۔میں خاموش ہوگیا ۔جیو دیکھا تو جوادنظیر کی وفات کی کوریج کچھ اس طرح تھی ک اسے سے جیو کا ڈائریکٹر لکھا گیا ۔برطرف یا سابق نہیں ۔اس طرح شکیل الرحمان ا نے اس کیس میں بھی اپنے آپ کو بچا لیا اور مرحوم کے بچوں کو آج تک کچھ بھی نہیں ملا۔۔۔۔۔۔۔۔ بلکہ جواد نظیر کی موت کے فوری بعد اُن کے بیٹے علی کو بھی جنگ کی نوکری سے نکال دیا گیا-

About The Author