نومبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

فضل

دھرنے کی دو دھاری تلوار

نوید چودھری


جے یو آئی(ف) کا 27اکتوبر کو ہونے والا مارچ اور
دھرنا دو دھاری تلوار ہے۔ دھرنا ہو گیا تو نتیجہ خیز ہو سکتا ہے۔ شرکاء کو راستے میں روکا گیا تو حالات نارمل رہنے کی گارنٹی کوئی نہیں دے سکتا۔

دونوں صورتوں میں ملک میں جاری بحران میں مزید بلکہ شدید اضافہ ہو گا۔ کوئی شک نہیں کہ اس احتجاجی پروگرام نے وفاقی دارالحکومت سمیت ملک بھر میں سنسنی پھیلا دی ہے۔ بدھ کی شام مولانا فضل الرحمن سے اسلام آباد میں ان کی رہائش گاہ پر 45منٹ طویل ملاقات میں انہیں مکمل طور پر پرسکون اور پرعزم پایا۔

اس دوران ملکی سیاست، اپوزیشن کے خلاف کارروائیوں، عدالتی بحران، سی پیک، فاٹا کے حالات، مسئلہ کشمیر اور بعض دیگر امور پر گفتگو ہوئی۔

اہم سیاسی و غیر سیاسی شخصیات ایسی ملاقاتوں میں ہمیشہ گفتگو کرتے ہوئے بعض باتوں کو آف دی ریکارڈ رکھنے کی درخواست کرتی ہیں اور بعض معاملات کے حوالے سے محض اشارے دے کر بات چیت کا رخ تبدیل کر دیتی ہیں،اس کے برعکس مولانا فضل الرحمن نے کھل کر اظہار خیال کیا۔

اس نشست میں مولانا فضل الرحمن نے ایک مرتبہ بھی وزیراعظم عمران خان کا ذکر نہیں کیا اور نہ ہی کسی بات کو راز میں رکھنے کا کہا۔ وہ بالکل واضح ذہن کے ساتھ احتجاج کرنے پر یکسو تھے۔

میری آمد سے قبل مسلم لیگ(ن) کے جنرل سیکرٹری احسن اقبال، مولانا سے مذاکرات اور میڈیا سے مشترکہ گفتگو کر کے نکل گئے۔ میں راستے میں موبائل پر خبریں دیکھتا آرہا تھا کہ مسلم لیگ(ن) نے دھرنا نومبر تک ملتوی کرنے کی درخواست کی ہے۔

تھوڑی دیر بعد جب میں ملاقات کے لیے پہنچا تو مولانا فضل الرحمن نے بتایا کہ اگرچہ تاریخ کے حوالے سے حتمی فیصلہ جمعرات کو جے یوآئی (ف) کی مجلس عاملہ کے اجلاس میں کیا جائے گا لیکن تاریخ آگے جانے کا امکان موجود ہی نہیں۔

جمعرات کو اعلان ہو گیا کہ آزادی مارچ اور دھرنا 27اکتوبر کو ہو گا۔ اس دھرنے کے حوالے سے حکومتی حلقوں میں سخت تشویش پائی جاتی ہے۔ میڈیا کے سامنے کچھ اور کہا جارہا ہے لیکن پریشانی بالکل واضح ہے اور چھپائے نہیں چھپ رہی۔

حکومت کے ایک اہم وزیر اور ایک بڑے افسر سے ہونے والی الگ الگ ملاقاتوں میں یہ بالکل واضح تھا کہ دھرنے سے نمٹنے کا سارا انحصار اسٹیبلشمنٹ پر ہے۔

گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا گیا کہ مولانا فضل الرحمن نکل پڑے تو خرابی ہو جائے گی۔ ایک اعلیٰ افسر نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر کسی طرح اسلام آباد میں دھرنا دینے والوں کی تعداد 25ہزار سے بڑھ گئی توگیم آؤٹ آف کنٹرول ہو کر حکومت کے ہاتھوں سے نکل جائے گی۔

یہ بھی کہا گیا کہ دھرنے اور مارچ کو روکنے کی صورت میں بھی احتجاج روکنا ممکن نہیں رہے گا۔ سب سے بہتر آپشن یہی ہے کہ کسی طرح سے مولانا فضل الرحمن کو مذاکرات کے ذریعے انگیج کر کے یہ سلسلہ رکوایا جائے۔

یقینا حکومتی حلقوں کی تشویش بے جا نہیں کیونکہ 2014 ء میں عمران خان، طاہرالقادری کا مشترکہ دھرنا سپانسرڈ تھا۔ جس کے حوالے سے ابتداء اور انتہا تک ہرچیز پہلے سے طے شدہ تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کے مطلوبہ مقاصد حاصل نہ ہو سکے۔

اس دھرنے کے برعکس مولانا فضل الرحمن کا دھرنا ”جینوئن“ اور ”اوریجنل“ ہے۔ اسی لیے حکومت کو حل سجھائی نہیں دے رہا۔ یہ اندازہ ہی نہیں لگاپارہے کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔

اس امر میں شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ اور دیگر ادارے کھل کر حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ دوسری طرف یہ بلنڈر بھی کیا جارہا ہے کہ اپوزیشن کی تمام جماعتوں کو دیوار سے لگا کر ان کے پاس مزاحمت کے علاوہ کوئی اور آپشن باقی چھوڑی ہی نہیں گئی۔

اس وقت تمام سیاسی جماعتوں کے کارکن پوری طرح سے دھرنے اور مارچ میں شمولیت کے حامی ہیں۔ اب حالات اس موڑ پر آ چکے ہیں کہ اپوزیشن لیڈر شپ کے پاس بھی پیچھے ہٹنے کا کوئی راستہ نہیں۔ یہ صورت حال احتجاجی تحریک کے لیے بے حد مفید ہے۔

جماعت اسلامی کے سوا (جو سیاسی میدان سے تقریباً تقریباً آؤٹ ہو چکی ہے) تمام پارٹیاں دھرنا اوراحتجاج چاہتی ہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ہر کوئی اپنے اپنے پارٹی مفادات کو سب سے آگے رکھ رہا ہے۔

جے یو آئی(ف) کی جانب سے احتجاجی پروگرام کا شیڈول دئیے جانے پر کسی سیاسی جماعت نے اعتراض نہیں کیا جس کا مطلب ہے کہ دل سے سب جلد از جلد تحریک چلا کر اسے انجام تک پہنچانے کی حامی ہیں۔

مسلم لیگ(ن) نے اس احتجاجی پروگرام میں شمولیت کا اعلان کر دیا ہے۔ ان کے چند ایسے قائدین جو گومگو کی کیفیت میں مبتلا ہیں ان دنوں کارکنوں کے عتاب کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔

مسلم لیگ(ن) کے مفاہمتی گروپ کو سوشل میڈیا پر ہی نہیں کارکنوں کا سامنا کرتے ہوئے بھی شدید تنقید اور ”غیر پارلیمانی“ جملوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ کارکنوں کا غصہ انتہاؤں کو چھورہا ہے۔ دیگر اپوزیشن جماعتوں کے کارکن بھی ایسی ہی کیفیت سے دو چار ہیں۔

حالات کا دھارا بتارہا ہے کہ کوئی اپوزیشن سیاسی پارٹی چاہے یا نہ چاہے بالآخر اسے اس احتجاجی پروگرام کی حمایت کرنا ہو گی۔

ایک طرف ملک کو جہاں ہاتھ پاؤں باندھ کر آئی ایم ایف کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے وہیں ایک بھی گولی چلائے بغیر مقبوضہ کشمیر کو نگلنے کے بھارتی عمل سے جو زلزلہ پید ا ہوا ہے وہ آسانی سے تھمنے والا نہیں۔

ایسے میں عام لوگ بھی یہ حقیقت جان رہے ہیں کہ بڑے بڑے واقعات وقوع پذیر ہونے پر پردہ ڈالنے کے لیے میڈیا کنٹرول کر کے دوسرے معاملات اچھالے جارہے ہیں۔

وزیراعظم کی ”تاریخی تقریر“ کا چورن شاید ایک سال تک بیچنے کا پروگرام تھا، مگر زمینی حقائق آشکار ہونے سے دوسرے، تیسرے روز ہی ٹائیں ٹائیں فش ہو گیا۔

اب حالات یہ ہیں کہ دینی مدارس کے طلبہ اور تاجروں کو مدعو کر کے ان کی شکایات کے ازالے کے لیے پھر سے تسلیاں دی جارہی ہیں۔ان کی آؤ بھگت بے وجہ نہیں۔

دینی مدارس کے طلبہ کو بظاہر کچھ اور کہہ کر مدعو کیا گیا اورتاجروں کے حوالے سے اچانک جاگنے والی محبت مسائل زیر بحث لانے کی محفل قرار پائی۔ لیکن اصل مقصد صرف اتنا ہے کہ معاشرے کا کوئی بھی متحرک طبقہ حکومتی اقدامات سے تنگ آ کر اپوزیشن کے احتجاج کا حصہ نہ بنے۔

پی ٹی آئی حکومت قائم ہوئے 13 ماہ گزر گئے۔ یہ عرصہ کسی بھی حکومت کی اہلیت کا جائزہ لینے کے لیے کافی ہے۔ اس عرصے میں ہر شعبے کا بینڈ بج چکا۔ صرف ایک مثال ہی کافی ہے کہ میڈیا کے شعبے میں تباہی مچ گئی۔ ہزاروں کی تعداد میں کوالیفائیڈ اور تجربہ کار صحافی بے روزگار ہو گئے۔

جو ملازمتوں پر موجود ہیں ان کی تنخواہیں کم ہو گئیں اور نوکریوں کے لالے پڑے ہیں۔ ہر طرف یہی حال ہے۔ ڈینگی بے قابو وباء بن چکی۔

گورننس نام کی کوئی چیز موجود نہیں۔ تمام باتوں کا ایک ہی جواب ہے پچھلی حکومتوں کو خود بھی گالیاں دو،محرر میڈیا والوں سے بھی دلواؤ۔اگر صرف دھمکیاں دینے،مخالف سیاستدانوں کو جیلوں میں ڈالنے اور گالیاں دینے سے حکومت چل سکتی تو بلاشبہ یہ تاریخ کی کامیاب ترین حکومت ہوتی۔

ملک سے سیاست اور آزاد میڈیا ختم کرنے کے لیے کیے جانے والے تھرڈ کلاس ہتھکنڈوں نے قوم کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ معاملات بیٹھے بٹھائے حل ہونے والے نہیں۔

بعض حلقے تو یہ الزام بھی لگارہے ہیں کہ ملک کو معاشی ابتری، سفارتی تنہائی اور انارکی کی جانب دھکیلنے کے کسی سوچے سمجھے منصوبے پر عمل ہورہا ہے۔

ایسے میں کچھ احمق کہہ رہے ہیں کہ ملک احتجاجی تحریک کا متحمل نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کے نتیجے میں کوئی غیر آئینی واقعہ رونما ہو سکتا ہے۔

ان کو اتنی بھی سمجھ بوجھ نہیں کہ یہ ساری تحریک ہی بحالی جمہوریت اور آئین کی بالادستی کے لیے چلائی جارہی ہے۔

جے یو آئی (ف) ہی نہیں، پیپلز پارٹی جیسی لبرل اور مسلم لیگ(ن) جیسی زیر عتاب جماعت بھی علانیہ کہہ رہی ہے کہ کشمیر کا سودا کیا گیا۔ اب اس کے آگے کیا ہو گالکھتے ہوئے دل کانپ جاتا ہے۔

جے یو آئی (ف) کے احتجاجی پروگرام کے خلاف کارروائی سے جیلیں بھر جائیں گی لیکن تحریک نہیں رکے گی۔

مولانا فضل الرحمن اور دیگر پارٹی قائدین بار بار کہہ رہے ہیں کہ احتجاج مکمل طور پر پرامن ہو،ایک پتہ تک نہیں ٹوٹے گا، لیکن اس کے ساتھ سوال اب یہ بھی ہے کہ قافلوں کو راستوں میں کریک ڈاؤن کیا گیا تو پھر کیا ہو گا۔

گرفتاریوں کے لیے چھاپے مارے گئے تو اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ بتایا گیا ہے کہ جے یو آئی کی تجربہ کار اور زیر ک قیادت نے اس حوالے سے مکمل تیار کررکھی ہے۔

ریاستی آپریشن کا جواب دینے کے لیے خیبر سے کراچی تک تمام اہم شاہراہوں اور راستوں کو بند کر دیا جائے گا۔ نقشے تیار ہیں۔ایسی صورت میں دھرنے سے پہلے ہی دھرنا شروع ہو جائے گا۔

معاشی بحالی سالوں تک ممکن نہیں۔ افسوس صد افسوس!عمران حکومت نے خود کو بچانے کے لیے تمام ریاستی اداروں کی ساکھ داؤ پر لگا دی۔ عدالتوں میں جو کچھ اپوزیشن کے ساتھ ہو رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔

یہ سلسلہ چل نہیں سکتا۔جو لوگ یہ رائے رکھتے ہیں کہ حکومت کو مدت پوری کرنے کا موقع ملنا چاہیے ان سے پوچھا جا سکتا ہے کہ 2023ء میں بھی 2018 ء جیسے الیکشن کرائے گئے تو پھر کیا ہو گا؟
بدقسمتی سے اسٹیبلشمنٹ ایسے اقدامات کر چکی ہے جس کے باعث اصلاح احوال کے مواقع نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں۔

اس نااہل حکومت کا علانیہ دفاع کر کے احتجاج کی راہ اسٹیبلشمنٹ نے ہی دکھائی ہے۔ احتجاج تو ہو گا،اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کی لپیٹ میں کون کون آتا ہے۔راحت اندوری نے کیا خوب کہا ہے
اب کہ جو فیصلہ ہو گا وہ یہیں پر ہو گا
ہم سے اب دوسری ہجرت نہیں ہونے والی

About The Author