خواتین کے عالمی دن پر تحریک منھاج القرآن ویمن لیگ کی عورتوں نے نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں ایک مشاورتی کانفرنس کی اور عورت مارچ بھی کیا اور اس مارچ میں بھی درجنوں عورتیں شامل تھیں- پاکستانی مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر تحریک منھاج القرآن ویمن لیگ کے اس مظاہرے کو بہت کم توجہ دی بلکہ کئی ایک نے تو منفی اور بے بنیاد رپورٹنگ سے دریغ نہ کیا-
عورتوں کے عالمی دن پر اگر کسی اسلام پسند تنظیم کی عورتوں کے مظاہرے میں پوسٹرز پر لکھے مطالبات اعتدال پسندی اور روشن خیالی کے قریب تر تھے تو وہ منھاج القرآن ویمن لیگ کے تھے اور عورتیں ہی اُن کی مشاورتی کانفرنس کو اور مارچ کو لیڈ کررہی تھیں-
مذھب اور مذھبی خیالات کو لیکر ہمارے لبرل اور لبرل لیفٹ کے کئی ایک لوگ ایک غلط مساوات بناتے ہیں اور وہ مساوات ہے
مذھبی ہونے کا مطلب کٹھ ملائیت کا پرچارک ہونا، عورتوں کے حقوق کا دشمن ہونا اور تنگ نظر ہونا، دقیانوسی ہونا وغیرہ وغیرہ ہے…….. جبکہ یہ بات ہر ایک مذھب پسند پر لاگو نہیں کی جاسکتی لیکن کردی جاتی ہے-
پاکستان میں جیسے ایسے مذھب پسندوں کی کمی نہیں ہے جو ‘عورت مارچ’ سُن کر ہی آپے سے باہر ہوجاتی ہے جسے عورت کے منہ سے لفظ ‘آزادی’ کا نکلنا ایسے لگتا ہے جیسے وہ عورت بازار میں لباس فطرت میں آگئی ہو تو ایسے ہی ایسے لبرل اور بوتیک لیفٹ کی کمی نہیں ہے جو مذھب کا نام سنتے ہی آپے سے باہر ہوجاتے ہیں جن کو مذھبی علامتوں سے الرجک ہے، اُن کو کسی چہرے کی داڑھی اچھی نہیں لگتی، کسی کے سر پر سجا عمامہ و ٹوپی اچھی نہیں لگتی، کوئی انشاء اللہ کہہ دے یا سبحان اللہ کہہ دے یا کوئی عورت حجاب میں آئے، کوئی پابندی سے نماز پنجگانہ ادا کرے یا پرفیوم پر عطر کو ترجیح دے، عاشورا اور میلاد اہتمام سے مناتا ہو تو وہ اُسے بھی مذھبی انتہاپسندوں کی صف میں کھڑا کردیتے ہیں……
جیسے حجاب نہ کرنے والی ہر عورت دھندا کرنے والی نہیں ہوتی، ایسے ہی ہر داڑھی رکھنے والا مرد چھوٹے بچوں اور بچیوں کا ریپ کرنے والا نہیں ہوتا، ایسے ہر کلین شیو زانی نہیں ہوتا…..
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر