صوبے میں جاری وزیر اعلی پنجاب سردار محمد عثمان کی کلین اینڈ گرین مہم میں خطہ سرائیکستان کا ضلع رحیم یار خان بھی شامل ہے. یہ مہم اور نعرہ تو اچھا ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی اس مہم کے تحت صفائی ستھرائی اور حقیقی شجر کاری کرکے ضلع کی خوبصورتی اور ماحول کو آلودگی اور تجاوزات سے پاک کر دیا جائے گا. میرے ضلع کے باہمت اور متحرک ڈپٹی کمشنر کو گلہ اور شکوہ ہے کہ میں تنقید زیادہ کرتا ہوں.سچی بات تو یہ ہے کہ تنقید ہمیشہ اصلاح کی نقطہ نظر سے کی ہے. جب زمینی حقائق حکومت اور حکمرانوں کے بلند وبانگ دعووں کے برعکس دکھائی دیتے ہیں.
مسلسل اس قسم کی روش، روٹین کچھ نہ کچھ کہنے اور لکھنے پر مجبور کرتی ہے. ورنہ یہ کوئی شوق اور ذاتی فائدے کام نہیں ہے. خوامخواہ کی ناراضگیاں اور مخالفتیں مول لینے والی بات ہے.اصلاح، بہتری اور اجتماعی علاقائی، وسیبی اور قومی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے مثبت تنقید برائے اصلاح ایک لکھاری کی حیثیت سے اپنا فرض سمجھتا ہوں.یہی وجہ ہے کہ بے خوف و خطر اپنے ضمیر کی بات کر دی جاتی ہے. دیس میں معاشرتی مجبوری اور پرابلم یہ ہے کہ تقریبا ہر سیاست دان اور بیورو کریٹ اپنی تعریف اور خوشامد کو پسند کرتا ہے. اس کام کو سرانجام دینے والا ان کی گڈ بک میں ہوتا ہے. خیر چھوڑیں میں کہاں موضوع سے بھٹک کر کہیں دور نکلا جا رہا ہوں.
محترم قارئین کرام، ہر سال ہونے والی شجر کاری مہم ہمارے سامنے ہے. ہر سال ناجائز تجاوزات کے خلاف ہونے والی مہم کا تماشہ بھی ہم دیکھتے ہیں.شجر کاری کے نام پر بیل بوٹیاں لگا کر فرض ادا کر دیا جاتا ہے.آجکل کہیں پر شجر لگتے نہیں دیکھے. موسمی پھول دار پودوں اور چھوٹے موٹے جھاڑی نما پودوں کو شجر سمجھنے والی قوم کیا شجر کاری کرے گی. محکمہ جنگلات درخت لگانے کے سارے طریقے بھول چکا ہے. جنگلات اور درختوں کے تحفظ و بچاؤ بارے کچھ بتانے والی کتابیں گم کر بیٹھا ہے.
اب بس یہ صرف پہلے سے لگے ہوئے درختوں کی حرام خوری کا شکار ہو چکا ہے.نہروں کناروں درختوں کو جس بے رحمی سے کھایا پیا اور ہضم کیا جا رہا ہے امید ہے کہ آئندہ چند سالوں میں ہماری نہریں درختوں سے مکمل طور پر کلین ہو جائیں گی. یہ جو چھوٹے موٹے پودے لگائے جاتے ہیں. کیا کبھی کسی نے محسوس کیا ہے کہ آخر لاکھوں کے تعداد میں ہر سال لگانے کے باوجود ان میں اضافہ دیکھنے کو کیونکر نہیں ملتا. یہ کہاں جاتے ہیں. ان پودوں کی نگرانی اور باقاعدہ پرورش کا کیا نظام اور انتظام ہے.
دراصل یہی وہ کمی، کوتاہی یا خامی ہے جس کی طرف دھیان دینا بہت ضروری ہے. ضرورت اس امر کی ہے کہ ماضی کی طرح سڑکوں اور نہروں کے کناروں پر ایسے بڑے سایہ دار درختوں کے پودوں لگائے جائیں.جو لمبے عرصے تک ماحول کو ساز گار بنانے کے کام آئیں. اپنی عمر پوری ہونے یا پختگی اور کارآمدگی کی سیٹج پر پہنچنے پر ان کی قیمتی لکڑ کو مختلف استعمال میں لا کر فائدہ حاصل کیا جائے.سرکاری اور غیر سرکاری تعلیمی اور دیگر اداروں میں بھی ماضی کی طرح بڑے سایہ دار درخت لگوائے جائیں. بلکہ انتظامیہ اور حکمرانوں کو چاہئیے کہ کو کسانوں اور زمینداروں کو ترغیب دے کر زیادہ سے زیادہ باغات لگوائے. اس سے جہاں ایک طرف جنگلات میں اضافہ ہوگا.پاکستان حقیقی معنوں میں لوکیشن، ماحول سماجی و معاشرتی اور معاشی طور پرڈویلپ اینڈ گرین بن جائے گا.
وہاں ان درختوں کے پھلوں سے ملکی ضروریات پوری کرنےکے علاوہ زرمبادلہ بھی کما سکیں گے. آم، کنو، امرود، انار، کجھور وغیرہ کے باغات اس حوالے سے بڑے کارآمد ہیں. حکومت باغات میں اضافے کے ساتھ ساتھ مقامی علاقوں میں پلپ انڈسٹری کا قیام بھی عمل میں لائے تاکہ پھلوں کے ساتھ ساتھ جوس اور رس تیار کرکے ملکی اور تجارتی ضروریات میں زراعت کا گراونڈ بڑھایا جائے .
اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ کروڑوں اربوں روپے کے اخراجات کرکے سڑکیں بنائی جاتی ہے مگر ٹوٹ پھوٹ کی صورت میں ماضی کی طرح ان کی دیکھ بھال کا نظام نہیں ہے. یا پھر متعلقہ لوگ گھر بیٹھے قومی خزانے سے تنخواہ لے کر کہیں اور پر ڈیوٹیاں دے رہے ہوتے ہیں. مختلف سرکاری محکموں میں ایسے کئی سرکاری ملازمین ہیں جو تنخواہ تو حکومت سے لیتے ہیں لیکن کام پتہ نہیں کہاں اور کس کا کرتے ہیں.متعلقہ اداروں کے ضلعی ہیڈز کو پتہ ہوتا ہے.
بارشوں کے بعد کناروں کی ٹوٹ پھوٹ اور گڑھے پڑھنے سے سڑکوں کی حالت انتہائی قابل رحم ہوتی ہے. یہی نہیں بلکہ ان کی ابتری کی وجہ لوگوں کو جو تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے. گاڑیوں کا جو نقصان اور حادثات ہوتے ہیں وہ اضافی کھاتہ ہے.ضروری ہے کہ سڑکوں کے ساتھ بلڈنگ کی تعمیر کے وقت فرش کی اونچائی اور پارکنگ کے قوانین پر سختی سے عمل کروایا جائے.آبادیوں کے مقامات پر شاہراہوں کے دائیں بائیں کھالہ جات بنائے جائیں تاکہ بارشوں کا پانی سڑکوں پر جمع ہو کر انہیں تباہ کر نے کا باعث نہ بنتا رہے.
عوام بھی کئی کئی دن تک کیچڑ اور گندگی کا شکار نہ ہوتے رہیں. تجاوزات کے ہوتے ہوئے میں سمجھتا ہوں کے کلین اینڈ گرین مہم کسی صورت بھی کامیاب نہیں ہو سکے گی. سڑکوں اور نہروں کے کناروں کا وزٹ کریں. شہری آبادیوں میں فٹ پاتھ اور گرین بیلٹس کو ملاحظہ فرمائیں. نہ بیلٹ باقی ہیں نہ گرینری. لوگوں نے دھڑلے سے گرین بیلٹس کو اپنے گھروں میں شامل کر لیا ہے. اس مہم کی کامیابی، مطلوبہ مقاصد اورنتائج کے حصول کے لیے ناجائز تجاوزات کے خلاف بلاتفریق آپریشن ضروری ہے. گرین بیلٹس کی واگزاری ضروری ہے.
میں یہاں پر ایک اور اہم نقطہ بھی ضلعی انتظامیہ اور حکمرانوں کے نوٹس میں لاناضروری سمجھتا ہوں وہ یہ کہ شہروں کے ساتھ ساتھ دیہی علاقوں پر بھی خصوصی توجہ مرکوز کی جائے. چند ایک کے سوا اکثر دیہات سیوریج کی سہولیات سے محروم ہیں. گوٹھ گاؤں بستیاں موضع جات میں نکاسی آب کے سرے سے کوئی انتظامات نہیں ہیں. کیچڑ اور گندگی سے بھری گلیاں بیماریوں کے پھیلاؤ کا بڑا ذریعہ بنی ہوئی ہیں.سب سے بڑا ظلم جو دیہی علاقوں کے عوام اپنے آپ کے ساتھ کر رہے ہیں وہ گھروں کے اندر کھودے گئے گٹروں کے گہرے گڑھے ہیں. جو زیر زمین پانی کو خراب کرنے کا باعث ہیں. دیہی علاقوں میں معدے کی بیماریوں اور یرقان کی بڑھتی ہوئی خطرناک لکیر میں اس کا بڑا کردار ہے. پاکستان بھر میں ضلع رحیم یار خان یرقان کی بیماری میں دوسرا نمبر رکھتا ہے. ماحولیات کے قوانین کی دھجیاں اڑاتی، زیریلا دھواں پھیلاتی فیکٹریاں، اینٹوں کے بٹھے اور شوگر ملیں بے خوف و خطر کالی زہریلی گرد پھیلا رہی ہیں. کیمیکلز زدہ پانی نہروں راجباہوں اور کھالوں کے ذریعے گرد و نواح کی زمینوں، فصلات جانوروں اور انسانوں کے لیے مشکلات اور بیماریوں کا سبب ہے. کلین اینڈ گرین مہم کے تحت ان بے مہار و بے لغام عناصر کو بھی قانون کے تابع کرنا ضروری ہے. یہ تحفظ ماحولیات کا تقاضا ہے.
عوام کو چاہئیے کہ وہ اچھے کاموں میں اپنی انتظامیہ اور حکمرانوں کے ساتھ تعاون کریں. اسی میں ہی ہم سب کی بھلائی ہے. عالمی قوانین کی رو سے 25فیصد رقبے پر جنگلات ماحول اور موسم کو سازگار رکھنے کے لیے ضروری ہیں. یہ ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ وطن عزیز میں پہلے سے کم تعداد میں موجود جنگلات بھی بڑی تیزی سے ختم ہو رہے ہیں.آئیے عہد کریں درختوں کو کاٹنے اور اکھاڑنے والوں کا نہیں لگانے والوں کا ساتھ دیں. جابجا اور گلیوں میں کچرا اور گند ڈالنے والوں کی عوامی سطح پر حوصلہ شکنی کرنے کے لیے ایک بیزاری مہم بھی شروع کریں تاکہ اپنےضلع اپنے وسیب اور اپنے دیس کو کلین اینڈ گرین بنانے میں اپنا بھر پور حصہ شامل کرکے مثبت سوچ اور کردار کو آگے بڑھائیں. اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو آمین
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر