گُل زیب خاکوانی
اس مضمون کو یہ عنوان دینے سے روح کانپ جاتی ہے ۔ظاہر ہے یہ کبھی زرخیز خطہء زمین تھا مگر اب قصہء پارینہ بن چکا ہے ۔ایک وقت تھا کہ اسکے اطرف دو بڑے دریا بہتے تھے۔
ڈیراول چولستان کی سرزمین پر دریائے ہاکڑہ اور مغربی حصے کی طرف ستلج ۔ہاکڑہ یقناً کل کی بسری کہانی جیسا ہے مگر ستلج کو بھی اپنی پوری آب و تاب سے بہے ہوئے پچاس برس ہونے کو آئے ۔
جب جب خریدار کی گاگر بھر جاتی ہے اور پانی زحمت بننے لگتا ہے تو وہ اسکے سارے بند توڑ دیتا ہے اور پانی اِتنی شدت سے واپس آتا ہے کہ اپنے کناروں سے چھلک کر رستہ ہی بھول جاتا ہے اور وحشت میں ادِھر اُدھر بھٹکتا پھرتا اپنے پُرانے راستوں کو تلاش کرتا ہے ۔
مگر اُن رستوں پر تو خیر سے آبادیاں ہوچکی ہیں۔کالونیاں بن چکی ہیں،مگر دریا اپنے بہاؤ کیساتھ اُنہی رستوں کی تلاش میں رہتا ہے جہاں وہ بہا کرتا تھا ۔
بزرگوں سے سُنا کہ پانی لوٹا تھا ۔اپنی پوری آب و تاب کیساتھ،ستّر اکہتر کا سن تھا ۔ بہت کچھ بہا کے لے گیا ۔مگر ہم نےاس پانی کو دوبارہ آتے ہوئے اٹھاسی کو دیکھا۔
نور الزماں احمد اوج بہالپوری کی ایک کتاب “لیگیسی آف چولستان” میں اُن سیاحوں کا ذکر ملتا ہے جو وکٹورین عہد میں بہاولپور آئے۔”الذبیر” کے بہاولپور نمبر میں بھی ان سیاحوں کا ذکر موجود ہے جو شہر کے مشرقی علاقوں میں پھیلے وسیع و عریض جنگلوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور شہر بہاولپور کے اردگرد چہار اطراف گھنے درختوں کی ہریالی پر جی اُٹھے۔
اُنہیں یہ علاقہ بہت خوبصورت اور خواب آور لگا۔یہاں کے کنوؤں کا میٹھا پانی آب حیات سے کم نہیں تھا۔
ایک سیاح اپنی ڈائری میں لکھتا ہے کہ وہ بیکانیری دروازے(موجودہ فرید گیٹ) سے نکل کر بائیں ہاتھ لحظہ بھر چلا ہی تھا کہ اُس نے اس عظیم دریائے ستلج کو دیکھا جسے ماضی بعید میں سَتددری یا ستادری کہا جاتا تھا ،جی ہاں یہی وہ دریا تھا جہاں علاقہ ء ملتان سے آنے والےہارے ہوئے بیمار بے حوصلہ مقدونی لشکر کو سمندر کا گُمان ہوا۔
یہ دریا اپنے پیٹے کے اعتبار سے بہت وسیع و عریض تھا ۔یہی وجہ ہے کہ ایک انگریز سیاح کو بیکانیری دروازے سے کچھ فاصلے پر ملا۔مجھے اچھی طرح یاد ہے جب اٹھاسی میں اسی دریا کا پانی شہر کو ڈبونے پر تُلاتھا تب انتظامہ کے پاس ایک ہی حل رہ گیا تھا کہ لاری اڈے کے قریب ایک انتہائی مضبوط بند بنا دیا جائے تو شہر کو بچایا جا سکتا ہے۔
تاہم ماڈل ٹاؤن سی کی مغربی حد پر بند بندھا تب جاکر شہر کو بچایا جا سکا۔تاہم اس بند کی دوسری طرف کے نشیبی علاقے بستیاں سمال انڈسٹری سمیت سب دریا کے بہاؤ کا حصہ ہو چکے تھے۔
اگر ہم اس انگریز سیاح کی پیمائش پر غور کریں تو یقیناً لاری اڈہ سے لیکر پیچھے آئیں تو ریڈیو کی عمارت تک کے علاقے کسی زمانے دریا کے مشرقی کنارے ہوا کرتے تھے ۔
یعنی ملتان کی جانب سے آتے ہوئے آدم واہن کے ریلوے اسٹیشن کو عبور کرتے ہی ٹرین کا ٹریک ایک قدیم سروقد مندر کے قریب سے گُذرتا ہوا ایمپریس آہنی پُل کی طرف آتا تھا ۔اور یہی قدیم مندر تب دریائے ستلج کے مغربی کنارے پر بنا ہوگا ، کیونکہ قدیم عہد میں زیادہ تر ہندوؤں کے مندر دریاؤں کے کنارے پر آباد ہوا کرتے تھے۔
ٹھیک اُسی طرح جیسے کوٹ اسلام اور سرائے سِدّھو کے درمیان دریائے راوی کے دونوں کناروں پر “رام چونترہ” اور “لکشمن چونترہ” کے مندر آباد تھے،جنکے آثار صیحح سلامت اب بھی موجود ہیں مگر یہ مندر جو دریائے ستلج کے مغربی کنارے پر آباد تھا اب مُنہدم ہو چکا ہے ۔
جب بہاولپور سے مُلتان کے درمیان چھنمب موڑ پر ٹریفک کے لیے پُل نہیں بنا تھا تب پُرانی سڑک مندر کے بہت نذدیک ہوکر گذرتی تھی۔لیکن اکہتر کے سیلاب سے لیکر پُرانی سٹرک کی تعمیرِ نو سے اس مندر کی عمارت پیسا کے منار کی طرح جُھک گئی تھی۔
باقی کسر چھنب موڑ پر سن چوراسی میں بنے والے عام ٹریفک کے پُل کی تعمیر نے نکال لی ۔مگراپنی خستہ حالی کے باوجود دو ہزار کے سن تک موجود تھا جو بعد میں مُنہدم کردیا گیا ۔
اسکے مُنہدم ہونے کے پیچھے کئی داستانیں ہیں مگر ہم پانی سے جُڑے ہوئے تھے اور وہ بھی دریائے ستلج کے پانی کا قصہ تھا جو اب قصہ ہی رہ جائے گا۔
تہذیب پھیل چُکی ہے اور جنگل سکُڑ چکے ہیں ۔بقول آنس معین
“ کتنے ہی پیڑ خوفِ سے خزاں سے اُجڑ گئے
کچھ برگِ سبز وقت سے پہلے ہی جھڑ گئے
نروان کیا ،بس اب تو اماں کی تلاش ہے
تہذیب پھیلنے لگی جنگل سُکڑ گئے”
بہاولپور کے جنوبی علاقے میں ایک بہت بڑے ٹیلے پر آباد ہونے والے ایک اللہ کے ولی حضرت ملوک شاہ رح کے حوالے سے ایک واقعہ معروف ہے کہ دریائے ستلج جب اپنی پوری شان سے بہا کرتا تھا تب اسکے مغربی جنوبی علاقے میں (موجودہ قدیم اندرون شہر ) کوئی بستی بستے بستے بسنے لگتی تو دریا کی موجیں ہر سال اس علاقے تلک چلی آتیں اور سب کچھ بہا کر لے جاتی تھیں ۔اور یہ شہر بسنے کا نام ہی نہیں لیتا تھا۔
بہت زور آور تھا یہ دریا،تاریخ میں درج ہے کہ ستادری جب کوہِ ہمالیہ سے نکل کر تبت کے مقام تک آتا تھا تب اسکے زور کو دیکھ کر اسے ہاتھی دریا کہا جاتا تھا۔
اسکے پانیوں کی کوئی حد ہی نہیں ہوتی تھی۔یہاں تک کہ لگ بھگ تین سو سال قبل احمد خان پرجانی بلوچ سردار کا بسایا ہوا شہرکُہنہ احمد پورچہار اطراف فصیل کے اندر ٹیلے پر آباد تھا جو اسی دریا کی منہ زور لہروں کی نظر ہوگیا اور دوبارہ بسایا گیا ۔
بالکل ویسے ہی شہر کُہنہ بہاولپور بھی کئی بار دریا برُد ہوا اور دوبارہ بسایا گیا۔ بہرحال بہاولپور کے تمام خطے کو اسکے سیلابی پانی نے زیرِزمین میٹھے زودہضم پانی کے زخیروں سے بھر دیا۔
تھوڑی سی کھدائی کرتے تھے اور زیرِزمین کم فاصلے پر ٹھنڈے یخ بستہ میٹھے پانی کے چشمے اُبلنے لگتے تھے۔
جب نواب بہاولپور نے مقامی زمین داروں کو روہی چولستان آباد کرنے اور صحرائی زمینوں کو کاشت کاری کے قابل بنانے کے لیے زمینوں کو مفت بانٹنے کی پیشکش کی تو کوئی بھی اپنے سرسبز باغات اور میٹھے پانی چھوڑنے کو تیار ناں تھا۔
حالانکہ چولستان کو سیراب کرنے کے لیے ستلج ویلی پراجیکٹ کے نام سے جدید نہری نظام بنایا گیا۔ہیڈ پنجند تعمیر ہوا وہاں سے ایک نہر کے زریعے بہت سا پانی چولستان کی طرف بھیجا جاتا تھا۔مگر مقامی خوشحال زمین داروں نے حامی نہیں بھری۔
تقسیم ہند سے پہلے کا بہاولپور باغوں باغیچوں میں گھرا سرسبز علاقہ ہوا کرتا تھا ۔اسکی زرعی زمینیں سونا چاندی اُگلتی تھیں ۔ اور کاشت کاروں کو زمین کے لیے وافر مقدار میں پانی ملا کرتا تھا۔
پاکستان کا کوئی علاقہ اس خطے کی زراعت کی پیداوار کا مقابلہ نہیں کرسکتا تھا ۔ یہاں کا بناسپتی چاول ،گنا ، مکئی، گندم باجرہ اور کپاس سرسوں اپنی پیداوار کے اعتبار سے اپنی مثال آپ تھے۔باغات میں عاموں کی مشہور اقسام “کریمن والی کاتکنڑ” “انور رٹول” ہندوستان بھر میں مشہور تھے۔
افسوس کہ آج کی نسل کریمنڑ والی کاتکن کی اُس مقامی نایاب آم کی قسم اور اسکے لازوال زائقے سے کہاں واقف ہوگی۔
ان باغات میں ہر طرح کا پھل اگتا تھا ،یہاں کے انار اور کنوں مالٹوں اور کھجورکی شُہرت دور دور تک جایا کرتی تھی۔ہر گھر میں “سوفنڑیں “اور کابلی بیر کے ساتھ ساتھ جامن کے درخت عام تھے۔اور فالسے کے بڑے بڑے جھاڑ نما پودے۔ہر تہوار پر ہر گھر سے اہل ِخانہ کے دور پرے کے رشتہ داروں کے لیے گھر کے پھلوں کی سوغات کیساتھ موسمی آم پیٹیاں بھر بھر کے بھجوائے جاتے تھے۔
ہر گھر میں مال مویشی پالے جاتے تھے۔دیسی انڈے گراتی ہوئی صحت مند مُرغیاں،دالیں اور دوسرے اناج گھر کے توشہ خانوں میں وافر مقدار میں ہر وقت موجود رہتے تھے۔
یہ وہ وقت تھا جب دودھ ، مکھن ، گھی ، صابن ، نمک مرچیں مصالحے ،آٹا اور دالیں پلاسٹک کے پیکٹوں میں نہیں آیا کرتے تھے۔
اُپلوں ، لکڑیوں اور لکڑی کے برادوں پر مٹی یا پیتل کی ہانڈی میں بنے کھانوں کا سواد ہی کچھ اور ہوا کرتا تھا۔
بریانیاں مٹن و مرغ قورمے محلوں میں نوابوں کا پیٹ خراب کرنے پر معمور تھے مگر عام لوگوں کے گھروں میں پکنے والے سالن کی خوشبو کا کوئی ثانی نہیں تھا ۔
صبح ناشتے میں دہی لسی اور مکئی کی روٹی ، دوپہر کو گوشت کیساتھ دیسی آلو یا گوبھی یا اروی یا سوکھی ہوئی سبزیاں ۔
شام کو مونگ اور مسور کی دال اور رات کو آم کیساتھ تھوڑی سی روٹی اور خالص بھینس کا دودھ کا استعمال ہوا کرتا تھا ۔
گرمیوں میں باہر صحن میں سونے کا رواج تھا ۔ پنکھے یا کولر نہیں چلتے تھے، رات کی رانی کی خوشبو میں لپٹی ٹھنڈی ہوا(حیل) سارے دن کی تھکاوٹ بھگا دیتی تھی ۔اور رات گئے گرمیوں میں بھی سردی کا احساس ہوا کرتا تھا۔
روہی بہار کے دنوں میں رنگ رنگیلڑی رُتوں کی تصویر بن جاتی تھی۔
اور اہلیانِ خطہ ء بہاولپور کے لیے وہاں سے خاص سوغاتیں لیکر روہیلنیاں جب شہروں منڈیوں کا رُخ کرتیں تو لوگ شدت سے انتظار کرتے تھے،اور اُن سوغاتوں کے بدلے انہیں پیسہ نہیں چاہیے ہوتا تھا بلکہ اسکے بدلے وہ آٹا اور دوسرا اناج لیکر جاتیں تھیں ۔
اور جلانے کے لیے لکڑی(کاٹھیاں) بھی اونٹوں پر لاد کر لیجاتیں۔اور اُن سوغاتوں میں پھگوسی اور پیلھوں سمیت دوسرے سوکھے ہوئے کھابے(باٹے) اور روہی چولستان میں اُگنے والے طرح طرح کے ساگ شامل ہوتے تھے ،جو اپنی لذت کے اعتبار سے بے مثال تھے،
شیشم (ٹاہلی)، برگد(پِپل) سنُبل ، امبل تاس ، نیم (نِم) کیکر(کرینھ) کے درخت ایک کثیر تعداد میں موجود تھے بلکہ جنگلات در جنگلات سلسلوں میں پھیلے ہوئے تھے،لسوڑے اور شہتوت کے بیشمار درخت تھے۔
آج سے پچاس برس پہلے تک جب حالات اتنے دگرگُوں نہیں تھے یہ سب کچھ موجود تھا ۔ یہاں کی زرعی پیداوار یہاں کی منڈی یزمان ۔منڈی حاصل پور بہاولپور ،احمد پورشرقیہ اور رحیم یارخان سے پورے ملک جایا کرتی تھی۔
باہر کے وپاری یہاں کی مقامی جنس کے پیچھے پاگل تھے۔ٹرک کے ٹرک بھروا کر ملک کے باقی حصوں میں لیجایا کرتے تھے۔اور اُنکی شدید مانگ تھی۔پھر یہ ہوا کہ جنس کیساتھ ساتھ وپاریوں کی نظر یہاں کے جنگلات پر ایسی پڑی اور لوگوں نے لالچ میں آکر درخت بھی بیچنا شروع کردیے اور ایک ایک کر کےتمام چھتنار اور اُنکے سائے بک گئے ۔
تمام ریاست میں شہروں اور شہروں سے باہر راستے درختوں کی چھاوں سے ڈھکے ہوتے تھے۔ہر طرف جنگل سا گُمان ہوتا تھا ۔پھر جب نئی سڑکوں کی تعمیر کا آغاز ہوا تو دیکھتے ہی دیکھتے تمام یہ علاقہ درختوں سے خالی ہوگیا۔
اور تو اور اسّی کی دہائی میں احمدپور روڈ سے شہر میں داخل ہوتے ہوئے چوک فوارہ سے لیکر یونیورسٹی چوک تک اور وہاں سے سیٹلایٹ ٹاون تک تمام راستوں پر درختوں کے جھُنڈ تھے۔
مگر ختم ہوگئےاور پرندوں کو کہیں جاء ناں ملی ۔دیکھتے ہی دیکھتے لالیاں ، ہُد ہُد (درکھانڑ پکھی ) شاہ ممولے ، بُلُبلیں ، نیل کنٹھ ( نیل کنڈھ ) اُلو (چِربل ، ٹٹیھر) رنگین چڑیاں (چھوٹی چڑی ) چڑیاں لٹھا کبوتر ُفاختہ گگی گیری سب نظروں سے اوجھل ہوگئے ۔تیتر اور بٹیر بڑی تعداد میں یہاں فصلوں پر بیٹھتے تھے،دانوں کے علاوہ فصلوں کے مضر کیڑے سُنڈیاں کھا جایا کرتے تھے مگر پیداوار بڑھانے اور کم وقت میں کاشت کاری کے لیے جب زہر اُنڈیلا جانے لگا تو وہ بھی ختم ہوگئے ۔
ریاست کے زمانے میں یہاں کی پیداوار کو دیکھتے ہوئے بہت سے وپاری یہیں بس گئے ۔اُسی زمانے میں گجرات احمد آباد سورت کے علاقوں سے بہت وپاری یہاں آئے اور یہاں ریاست سے پرمٹ لیکر کاٹن جننگ اور تیل کی بڑی بڑی فیکٹریاں کھڑی کیں جن میں آج کے بھارت کے مشہور بزنس ٹائیکون ٹاٹا کے بڑے بزرگ شامل ہیں۔احمد پور شرقیہ میں اس ابتدائی بڑی فیکٹری ٹاٹا کی پُرانی عمارت موجود ہے جو تقسیم کے بعد یہاں سے اپنا کاروبار سمیٹ کر واپس ہندوستان چلے گئے اور بمبے میں کاروبار شروع کیا۔
جب دریائے ستلج کو بھارت کے ہاتھ بیچ دیا گیا،تباہی وہیں سے شروع ہوئی اور آج برکت جیسے اس خطے سے اُٹھ چکی ہے ۔ پینے کو پانی نہیں ملتا ، وہ خطہ جو ایک بار یہاں آتا تھا یہیں کا ہوکے رہ جاتا تھا۔
یہاں کے میٹھے پانیوں اثیر ہوجاتا۔ یہ وہ خواب آور خوشحالی کا استعارہ دھرتی تھی کہ یہاں ہر کوئی آکر بسنا چاہتا تھا۔یہاں آباد ہونا چاہتا تھا، یہ وہ علاقہ تھام جہاں آنے والے پردیسی پردیسی نہیں رہتے تھے۔مگر اب حالات اور ہوچکے ہیں ۔باغات کو ختم کرکے وہاں دُکانیں بنا دی گئی ہیں ۔
زرعی زمینوں کو کمرشل کرکے نئی آبادیاں اور کالونیاں اور ٹاؤن میں بدلا جارہا ہے۔لوگ یہاں اپنی جائیدادیں بیچ کر بڑے شہروں میں آباد ہوتے جارہے ہیں ۔اس کی سب سے بڑی مثال کیا ہوگی کہ اس خطے کا سب سے کامیاب کاروبار پراپرٹی ڈیلنگ رئیل اسٹیٹ اپنے عروج پر ہے ۔ہر کوئی اپنی زرعی زمینوں کو کمرشل بنا کر فروخت کرنا چاہتا ہے۔
زراعت ختم ہوتی چلی جارہی ہے منڈیاں سُنسان پڑی ہیں ۔ کھانے پینے کے لیے جنس باہر سے خریدی جاتی ہے ۔زیرِزمین پانی کے زخائر ختم ہوچکے ہیں ،اور آہستہ آہستہ ڈیزرٹیفکیشن (صحرائی عمل) تیز تر ہوتا جارہا ہے وہ وقت دور نہیں کہ ہاکڑہ کے بعد ایک اور سوکھے ہوئے دریا کی سرزمین لق و دق صحرا میں بدل جائے ۔زرخیزی شادابی اور خوشحالی فقط افسانہ بن جائے ۔
نواب بہاول پور صادق محمد خان عباسی پنجم کے دور میں اس خطے کی شادابی کے لیے بہت سے اقدامات ہوئے ۔ہیڈ پنجند کی تعمیر اور چولستان کو سیراب کرنے کے لیے ستلج ویلی منصوبے کے سلسلے میں بہت سے چھوٹے بڑے ہیڈ ورکس بنائے گئے ۔
اور اُنہیں کے دور میں سندھ طاس معاہدے کے تحت ستلج کو بھارت کے ہاتھ بیچ دیا گیا۔یقناً اُنہیں اس بات کا دُکھ ہوا ہوگا مگر انکے درد کو کم کرنے کے لئے ایوب خان نشانِ قائدِاعظم لیکر صادق گڑھ پہنچے ۔اور ایک شاندار تقریب میں اُنہیں بہت اعزاز کیساتھ یہ نوزائیداہ مملکتِ پاکستان کا اعلیٰ ترین میڈل دیا ۔
لوگوں کا خیال ہے کہ انہوں نے اپنے خاندان کے مفادات کے بدلے حکومت سے سودے بازی کی ۔جبکہ ایسا نہیں ہوسکتا ۔یہ وہی ریاست تھی جسکو اپنی زراعت کی پیداوار اور خوشحالی پر مان تھا ۔اور اپنی ریاست کو گروی رکھ کر ہیڈ بنائے گئے۔
مزید براں اس زمانے جاری ہونے والی تاریخی ڈاک کے ٹکٹیں اس بات کی گواہی ہیں ۔
یہ وہ وقت تھا جب ریاست کی طرف سے یہاں آباد ہونے والے ہر نئے خاندان کے لئے بہت سی مراعات حاصل تھیں ۔ اُنکے بچوں کو دسویں جماعت تک کے لیے مفت تعلیم دی جاتی تھیں ۔اور اعلیٰ تعلیم کے لیے لائق فائق طلبا کو سکالر شپ ملتی تھی۔
باہر سے آنے والے طلبا کی ریہائش کھانا پینا مفت تھا۔لوگوں کے لیے ہر گھر میں راشن کارڈ ہوا کرتے تھے اور راشن ڈپووں پر کپڑا لتھا ۔کھانڈ مفت یا بہت ہی کم قیمت پر ملا کرتی تھی۔
اسی خوشحالی کے پیش نظر جب سکھوں نے ملتان پر حملہ کیا تو بہت سے پٹھان اور سید گھرانے یہاں آکر آباد ہوئے۔اور تقسیم ہند تک یہ آبادکاری کا سلسلہ چلتا رہا۔
ہندوستان بھر سے مختلف قبائل یہاں آکر آباد ہوئے۔پہلے احمد پور شرقیہ کو آباد کیا گیا ۔اور جب اس چھوٹے سے شہر میں آبادی بڑھ گئی تو بہاولپور کو بسایا گیا۔اور اولین دور میں بہاولپور کی آبادی مشرقی علاقوں کے ٹیلوں پر آباد ہوئی بعد ازاں فصیل کے اندر شہر بسایا گیا ۔اور تقسیم ہند کے بعد بہاولپور کی آبادی کو پیش نظر رکھتے ہوئے جدید بستیاں آباد کی گئیں۔
ان بستیوں میں ماڈل ٹاون اے جو زمیندارہ ٹاون کے نام سے شروع ہوا۔بعد ازاں ماڈل ٹاون بی۔اور ٹرسٹ کالونی آباد ہوئے۔اور مزید براں شہر کے مشرقی حصے میں سٹلایٹ ٹاون ایسے جدید علاقے آباد ہوئے۔
وقت کیساتھ ساتھ اس شہر کی خوشحالی کے پیش_ نظر شہر بڑھتا گیا لوگ آتے رہے ۔
آج کے مشکل ترین ماحولیاتی دور میں بھی یہ شہر بڑھ رہا ہے ۔مگر وسائل ختم ہوتے چلے جارہے ہیں ۔پانی زمین کی اتاہ گہرایوں میں دور کہیں اُترتا چلا جارہا ہے ۔جو مئیسر ہے وہ پینے کے لایق نہیں ۔سنکھیا زہر خطر ناک حد تک پانی میں شامل ہوچُکا ہے۔ہر دوسرا شخص گُردوں اور جگر کے مُوزی امراض کا شکار ہے ۔درجہ حرارت اب وہ نہیں جو آج سے پچاس برس پہلے ہوا کرتا تھا۔
آج پورے مُلک کا یہئ حال ہے ۔دریاوں کے سوکھنے سے تباہیاں ہورہی ہیں ۔آج اس ملک میں بسنے والے نوع انسان کی بقا ء کے لیے دریاوں اور پانی کی ضرورت ہے ۔اگر ڈیم نان بنے ۔اور پانی کی کمی کو پورا ناں کیا گیا ۔تو حالات جو اب خطرے کی گھنٹی بجا رہے کل بہت مشکل ہوجایئں گے۔۔
اے وی پڑھو
سیت پور کا دیوان اور کرکشیترا کا آشرم||ڈاکٹر سید عظیم شاہ بخاری
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ