جناب وزیر اعظم کی کچھ دن پہلے اسلام آباد کے صحافیوں سے ملاقات ہوئی ہے‘ جس میں انہوں نے اپنی شکایتیں بیان کیں۔ وہ میڈیا سے سخت ناراض لگتے ہیں کہ جب بھی صحافیوں سے ملاقات ہوتی ہے‘ ذاتی شکایتوں کا پلندہ کھول کر بیٹھ جاتے ہیں۔
جب بھی میں ان کی میڈیا سے شکایتیں سنتا ہوں تو مجھے ایک احساس ضرور ہوتا ہے کہ اتنے برس خبروں میں رہنے کے بعد بھی well left کا مطلب نہیں سمجھ سکے۔
بہت سے لوگ اپنے بارے میں بہت حساس ہوتے ہیں‘ چھوٹی چھوٹی خبروں پر بھی وہ بہت رد عمل دیتے ہیں‘ میں بھی انہی میں سے ایک تھا‘ لیکن دھیرے دھیرے میں نے اپنی کونسلنگ شروع کی‘ خود کو سمجھانا شروع کیا کہ اگر پبلک لائف میں رہنا ہے اور دریا میں اُترنا ہے تو پھر بارش کے قطروں سے نہیں ڈرنا چاہیے۔ مجھے یاد ہے ڈاکٹر ظفر الطاف اکثر کہا کرتے تھے کہ اچھا کرکٹر وہی ہے جو یہ جانتا ہے کہ کب اچھی بال کو آپ نے شاٹ کھیلنے کی بجائے اسے وکٹ کیپر تک جانے دینا ہے‘ اس لیے کہ جو باہر جاتی گیند کو چھیڑتے ہیں وہ اکثر سلپ میں آئوٹ ہوتے ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ جب وزیراعظم بننے کے دو ہفتے بعد عمران خان صاحب کی صحافیوں سے پہلی ملاقات ہوئی تو اس میں بھی وہ ایک گھنٹہ تک میڈیا کی شکایتیں کرتے رہے ‘ حالانکہ وزیر اعظم بنے انہیں ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئے تھے۔
آج جب اٹھارہ ماہ گزر چکے ہیں تو بھی وہ میڈیا سے ناراض ہیں اور شکاتیں کر رہے ہیں۔ جس کام کے لیے وہ وزیر اعظم بنے تھے وہ کب کا بھول چکے۔ اب ان کی زندگی کا ایک ہی مقصد ہے‘ میڈیا اور سوشل میڈیا کو ٹھیک کرنا۔
وزیر اعظم میڈیا سے مسلسل شاکی ہیں‘ اور اب تو ان کا گلہ صرف گلہ نہیں رہا بلکہ وہ اپنے عہدے کی وجہ سے اس پوزیشن میں ہیں کہ میڈیا کے خلاف کارروائی بھی کر سکیں۔ پہلے انہوں نے پیمرا کو ٹارگٹ کیا کہ وہ ان کے وزیروں کی فائل کی ہوئی شکایتوں پر ایکشن نہیں لے رہا۔ جب پیمرا کے سرکاری افسران نے اندھادھند کارروائیاں شروع کیں تو وہ عدالتوں میں چلے گئے۔ اس پر بھی وزیراعظم ناراض ہیں کہ بھلا عدالتیں کیسے کسی کیس میں سٹے دے دیتی ہیں‘ جس میں وزیراعظم کا نام ہے۔
وہ اس بات پر حیران ہیں کہ جو فیصلہ پیمرا نے ان کے حق میں دیا‘ اس پر عدالت نے فیصلہ ہونے تک سٹے دے دیا ہے۔ اس لیے وہ کافی دیر تک عدالتوں کے حوالے سے بھی باتیں کرتے رہے‘ جس میں ان کی شکایت بڑی واضح تھی کہ عدالتیں سٹے دے رہی ہیں۔
مطلب وہی تھا کہ جو فیصلہ ان کے حق میں آجائے اس کے بعد عدالت کو فوراً فیصلہ دے دینا چاہیے‘ جو یقینا ان کے حق میں ہونا چاہیے۔ وہ چاہتے ہیں کہ پیمرا کے بعد اب عدالتوں کی طرف دیکھیں اور ساتھ میں سوشل میڈیا کے حوالے سے بھی سخت قوانین سامنے لائے جا رہے ہیں۔ مطلب یہ کہ جو بھی واچ ڈاگ ہیں ‘جو کسی بھی معاشرے میں جمہوریت کی مضبوطی کا سبب بنتے ہیں‘ ان کو حکومتوں کے آگے کمزور ہونا چاہیے۔
جب نئی حکومت اقتدار میں آئی تھی تو سب کا خیال تھا کہ یہ حکومت اداروں کو مضبوط بنانے پر کام کرے گی اور خصوصاً میڈیا اور سوشل میڈیا کو بہتر جگہ ملے گی۔ جس طرح پہلے دن سے میڈیا کو ٹارگٹ کیا گیا اس سے ہر ایک کو یہ پیغام ملا کہ میڈیا اس وقت تک اچھا تھا جب تک وہ عمران خان صاحب کے گیت گا رہا تھا۔
اب اگر میڈیا ان پر تنقید کرے گا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میڈیا بک چکا ہے۔ یوں سوشل میڈیا پر اپنی ٹیموں کے ذریعے ایک مسلسل میسج دینا شروع کیا گیا یا Narrative بنایا گیا تاکہ لوگوں کا اعتماد اس میڈیا پر سے ختم کیا جائے جس کی وجہ سے شریف اور زرداری ایکسپوز ہوئے۔
یہ بات پہلے ہی طے کر لی گئی تھی کہ میڈیا کی ساکھ کو تباہ کرنا ہے اور اسے فیک نیوز کہہ کر خراب کرنا ہے‘ تاکہ حکومت کے خلاف سکینڈلز آئیں یا ان کی نالائقی کھل جائے تو اس میڈیا کو کوئی بھی سیریس نہ لے۔ اسی لیے پہلے ہی دن سے میڈیا کو کہا گیا کہ وہ اپنا بزنس ماڈل درست کریں۔
مزے کی بات یہ ہے کہ یہ مشورہ وہ دے رہے تھے جن سے پی ٹی وی نہیں چل رہا ‘ جسے ہر سال آٹھ ارب روپے بجلی کے بلوں پر عوام کی جیب سے اکٹھا کر کے دیے جارہے ہیں‘جسے کمرشل یا اشتہارات کمانے کے لیے کسی کے پاس نہیں جانا پڑتا۔
اربوں کے گھاٹے میں پی ٹی وی چلانے والے اب اخبارات اور چینلز کو طعنے دے رہے تھے۔ مقصد تھا کہ چینلز کو مالی بحران کا شکار کر کے جہاں بہت سے چینلز بند کرائے جائیں اور ورکرز کو بیروزگار کیا جائے وہیں یہ بھی منصوبہ تھا کہ جب مارکیٹ میں چند چینلز بچ جائیں گے تو انہیں سنبھالنا آسان ہوجائے گا۔
اس کے ساتھ ایک اور حکمت عملی بھی لانچ کی گئی کہ جب دل چاہا میڈیا کو دبا کر رکھ دیا‘ لیکن جونہی کہیں مشکل میں پھنس گئے وہیں میڈیا مالکان‘ اینکرز اور کالم نگاروں کو بلا کر ان کی مدد مانگی گئی۔ میں ایسی کئی ملاقاتوں میں موجود تھا جہاں پہلے میڈیا پر سخت تنقید ہوتی تھی‘ لیکن بعد میں انہی کی منت کی جاتی ہے۔ میں نے ایک زور کہہ دیا تھا کہ جس دن آپ پھنس جائیں تو میڈیا کی مدد کے طلب گار ہوتے ہیں‘ ور جب آپ کھڑے ہو جائیں تو اسی میڈیا کا گریبان پکڑ لیتے ہیں۔
اب حالت یہ ہوچکی ہے کہ حکمرانوں کو سمجھ نہیں آتی کہ وہ حکومت کیسے چلائیں۔ سارا دن ایک ہی کام ہوتا رہتا ہے کہ میڈیا ترجمانوں کا ایک اجلاس ختم ہوتا ہے تو دوپہر کو دوسری پارٹی کی باری لگ جاتی ہے۔ شام کو ایک اور قسم کے ترجمانوں کا گروپ میڈیا کوکنٹرول کرنے کے مشورے دے رہا ہوتا ہے۔
یوں اب حالت یہ ہوچکی ہے کہ ہر وزیر کے پاس اپنی وزارت چلانے کے لیے کچھ ہو یا نہ ہو لیکن اس کی جیب میں میڈیا اور سوشل میڈیا کو قابو کرنے کے لیے درجنوں قوانین کے مسودے موجود ہوتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ہر صورت ان پر عمل کرکے گستاخوں کو سزا دی جائے۔ وہ ہر ایسا قانون لانا چاہتے ہیں جو انہیں پروٹیکٹ کرے۔
میں حیران ہوتا ہوں کہ ان سے پہلے جو حکمران تھے ان کے پاس پیسہ بھی بہت تھا اور میڈیا کو کھلانے کے لیے دل بھی بڑا تھا‘ اس کے باوجود وہ میڈیا کو استعمال کر کے خود کو جیل سے نہیں بچا سکے تو موجودہ کیسے بچ پائیں گے؟ میڈیا کبھی کسی حکومت کو نہ گرا سکتا ہے اور نہ ہی گرنے سے بچا سکتا ہے۔
اگر یہ ممکن ہوتا تو یقین کریں نواز شریف اپنی بیٹی سمیت جیل نہ جاتے۔ ان کے لیے میڈیا کے کچھ حصوں نے بڑا زور لگایا کہ انہیں فرشتہ بنا کر پیش کیا جائے۔ وہ نہ بچ پائے۔ اس طرح جنرل مشرف کو بھی عدالتوں کی سزا سے بچانے کے لیے طاقتور حلقوں نے بہت زور لگایا۔ میڈیا چینلز اور صحافیوں کو واٹس ایپ میسجز اور منت ترلے سے دھمکیوں تک سب کچھ استعمال کیا گیا۔ ریاست ایک طرف کھڑی تھی اور اس کے ساتھ اس کے ادارے بھی کہ پرویز مشرف کے حق میں میڈیا میں تحریک چلائی جائے۔
اس کے لیے کچھ اداروں نے اپنی سوشل میڈیا ٹیموں کو بھی بھرتی کیا‘ جنہوں نے دن رات اس پر کام کیا کہ پرویز مشرف کو ہر قیمت پر ایسا کردار ثابت کیا جائے کہ کسی عدالت کو جرأت نہ ہو کہ اس پر بغاوت کا مقدمہ چلا سکے اور اگر چلا بھی لے تو انہیں سزا نہیں ہونی چاہیے۔ پھر کیا ہوا…کیا وہ سب مل کر بھی ریاست اور اداروں کی طاقت سے جنرل مشرف کو سزا سے بچا پائے؟
بعد میں وہ عدالتوں میں جا کر عدالت کی تشکیل کو چیلنج کر کے عدالت ہی کو غیرقانونی قرار دلواتے رہے‘ لیکن جو ہونا تھا وہ ہوچکا تھا۔
ان دو تین مثالوں میں بہت بڑا سبق ہے‘ تحریک انصاف کی حکومت کے لیے اگر یہ سمجھنا چاہیں۔ نہ ان کے پاس وہ طاقت اور پیسہ ہے جو نواز شریف اور پرویز مشرف کے پیچھے کھڑے اداروں کے پاس تھا۔ اگر اس کے باوجودہ وہ کوشش کرنا چاہتے ہیں کہ وہ پاکستان کو بیس سال پیچھے لے جائیں تو ان کی مرضی ‘وہ کوشش کر کے دیکھ لیں ۔ نتیجہ وہی نکلے گا جو پرویز مشرف اور نواز شریف کے وقت نکلا تھا ۔
کرنی آپ نے اپنی مرضی ہے… ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر