خبروں کے مطابق کہا گیاکہ منگل کے روز جو کابینہ کا اجلاس ہواہے اس میں عوام کو آٹا۔چینی۔چاول۔دالیں اور گھی سستے ملنے کی خوشخبریاں سنائی جائینگی۔ آٹے کا تھیلا 800 روپے کلو ملے گا۔ مگر حکومت کی جانب سے آٹے کی قیمت تو پہلے ہی آٹھ سو روپے کلو فِکس ہے۔
اس کے لیے آٹے کی ملوں کو حکومت سستے نرخ پرگندم دیتی ہے اور وہ آٹے میں سوجی۔چوکر۔میدہ وغیرہ نکال کر آٹے پر وٹامن سے بھرپور آٹے کی تحریر لکھ کر مارکیٹ میں ایک دو ٹرک بھیج دیتے ہیں۔
ان کو شھر کے مختلف پوائنٹس پر گھما کر تصویریں بنا کر اخباروں میں چھپوائی جاتی ہیں کہ عوام کو آٹا سستے نرخوں پر مل رہا ہے۔ باقی 90% آٹا ڈیلروں کے ذریعے مہنگے داموں بازار پہنچ جاتا ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ دھوکہ بازی عوام کے ساتھ کھلے بندوں کیوں کی جا رہی ہے ؟
کیا 22 کروڑ عوام اس سے فاعدہ اٹھا سکتے ہیں۔ دھاڑی دار مزدور جس کو شام کو چھٹی ملتی ہے وہ قطاروں میں کھڑے ہو کر آٹے کا تھیلا کس وقت خریدے گا؟
عام غریب آدمی کے پاس تو آٹے کا تھیلا خریدنے کی سکت ہی نہیں وہ تو دو تین کلو روزانہ آٹا خرید کر بچوں کا پیٹ پالتا ہے وہ 800روپے کہاں سے لاے گا۔
آٹے کی ملوں کے ٹرک تو شھر کے چار پانچ میل ایریا میں نمایشی گھومتے ہیں اور ملک کی 65% آبادی تو دیہاتوں میں رہتی ہے وہاں تو آٹے کے ٹرک جاتے ہی نہیں۔ غریب بیوہ عورتیں یا تو لوگوں کے گھروں کپڑے برتن دھونے کا کام کرتی ہیں یا گھر میں سینا پرونا کر کے گزارہ کرتی ہیں وہ آٹھ سو روپے کہاں سے لائیں اور کرایہ خرچ کر کے شھر جائیں اور سستے ٹرک سے آٹا لائیں یہ کیسے ممکن ہے؟
سستے تنوروں پر روٹی فروخت کرنے کا حشر ہم شھباز شریف کی اس سکیم سے دیکھ چکے ہیں۔ یہ سارے کام ملک کو لوٹنے والے ماضی کے لیڈروں کے زمانے میں ہوتے رہے اور ناکام ہوئے اور کروڑوں روپے کرپشن کی نظر ہو گیے۔
PTI کی حکومت کو تو ہم نے اس لیے ووٹ دیے کہ وہ نیے جذبے۔ولولے اور نیے آڈیاز کے ساتھ ان مسایل کا حل نکالے گی مگر وہی آوٹ ڈیٹڈ فرسودہ اور ناکام منصوبوں پر کام شروع ہے۔ اگر یوٹیلٹی سٹور پر آٹے کے ساتھ گندم کے تھیلے بھی فروخت کیے جائیں تو امکان یہی ہے لوگ ملوں کا آٹا خریدنے کی بجاے گندم خریدنے کو ترجیح دینگے اور پھر کم وزن کے آٹے اور گندم کے تھیلے بنا کر غریب کی خریداری کی دسترس میں آ سکتے ہیں۔ گندم -چینی۔ آٹے۔ گھی کا بحران پیدا کیوں ہوا؟
اس پر انکوایری کرا کے اگر ذمہ داروں کو سزا دی جاتی تو کم ازکم آئیندہ یہ بحران پیدا نہ ہوتا۔ لیکن بحران پیدا کرنے والے ہاتھ اتنے طاقتور ہوتے ہیں کہ ان پر کسی حکومت کا بس نہیں چلتا اور PTI کی مرکزی حکومت تو چند ووٹ کی اکثریت سے کھڑی ہے۔ اسمبلی میں پانچ سیٹیں رکھنے والی پارٹی بھی وزیراعظم کو آنکھیں دکھا کر من مانے مطالبات منوا سکتی ہے۔
چلو اچھی بات یہ ہے کہ عمران خان کو آخر غریبوں کا خیال آ ہی گیا ورنہ تو اب تک ۔۔میں ان کو نہیں چھوڑونگا ۔۔کہ کر گزارا ہو رہا تھا اور اب جب سارے چھوٹ گیے تو یہ سلسلہ ختم ہوا۔ دوسرا پیغام عوام کے لیے گھبرانا نہیں کا تھا۔ 18 ماہ عوام مہنگائی کے طوفان کو برداشت کرتی رہی اور حکومت کو وقت دیا کہ اصلاح کرے اب جا کے حکومت کو خیال آیا کہ گبھرانا نہیں کی بھی کوئی حد ہونی چاھیے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر