نومبر 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کلماں چھوٹیاں رکھاں کہ وڈیاں ۔۔۔وجاہت علی عمرانی

یعنی علاقے کی خوشی غمی کے دوران نائی کا موجود ہونا اور فرائضِ منصبی بطریقِ احسن نبھانا ایک اہم معاشرتی فریضہ تھا۔

صنعت کے بطن سے جنم لینے والے انقلاب کی وجہ سے روایتی پیشے، ہنر، کاروباری مراکز یا پیسہ کمانے کے طریقے بدل گئے اور اس تبدیلی نے ہر معاشرے کو بے چینی اور خلفشار کا شکار کر دیا۔ پیسہ کمانے کے طور طریقے بدلنے سے معاشروں میں روایتی افراد اور پیشوں کی سماجی حیثیت شدید متاثر ہوئی اور اثر رسوخ، نام اور پیسہ صنعت کار لے اڑے۔ اس سماجی تبدلی کی زد میں کئی معاشرتی کردار اور پیشے بھی وقت کے گرداب میں کہیں گم ہو گئے۔ یاد رکھیں انسانی سماج میں مختلف قسم کے صد ہا پیشے اور روزگار ہوتے ہیں اور ہر پیشے کا مخصوص نام ہوتا ہے۔ یہ پیشہ یا روزگار علمی بھی ہوتا ہے، خاندانی بھی اور ہنر و فن کے ساتھ ساتھ ثقافتی اور روائتی بھی۔ گزرتا وقت بہت سی چیزوں کو بدل دیتا ہے، کئی چیزوں کی اہمیت کم ہو جاتی ہے یا ان کی جگہ نئی چیزیں لے لیتی ہیں، اور ان سے منسلک افسانوی پہلو وقت کی دھول میں کھو جاتا ہے۔ جس طرح ”نائی ” اپنی بنیادی شناخت کو ختم کرکے مختلف طبقوں میں تقسیم ہو گئے۔ بیس پچیس سال قبل تک حجام ”نائی”کے نام سے جانے جاتے تھے اور ذات برادری سے مشہور ہونے کے ساتھ ساتھ بال کاٹنا، دیگوں کی پکوائی، شادیوں کے سندیسوں کو پہنچانا اور بچو ں کے ختنوں کے کام سے وابستہ تھے۔ لیکن اب ایونٹ آرگنائزر،پکوان سنٹر، ہیئر ڈریسر،بیوٹی پارلرز،مساج سنٹرز،بیوٹی سیلون ، میک اپ آرٹسٹ اور دیگر مختلف ذرائع سے اپنی ثقافت کو ختم کر رہے ہیں۔

کچھ لمحے، کچھ باتیں صرف محسوس کی جاسکتی ہیں ان کا رنگ دل کی آنکھ سے جاملتا ہے اور ہر بات آیت کی طرح اترتی چلی جاتی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب ایک ہی بندہ نومولود بچے کی جھنڈ بھی اتارتا تھا اور لگے ہاتھوں نومولود لڑکے کا ختنہ کرکے مسلمان بھی کردیتا تھا۔ جس کے بعد رنگ برنگے مربعوں والی زردے کی دیگ بھی یہی نائی پکاتا تھا۔ اس طرح بچے کو جنم دینے والے والدین کے بعد اس کی شروع ہونے والی زندگی میں ایک اہم کردار محلے کی اِس نائی کا ہوتا تھا جس سے حجامتیں بنواتا بنواتا پیدا ہونے والا بچہ شیو کروانے والا مکمل مرد بن جاتا۔

دنیا کا قدیم ترین پیشہ ”حجامت“ (بال تراشنا) حالات کے بدلتے رخ کے باوجود کبھی تنزلی کا شکار نہیں ہوا۔ گزرتے وقت کے ساتھ اس پیشے میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھ گیا اور یہ پیشہ مذید عروج کی طرف گامزن ہے۔ ماضی میں اس پیشے سے وابستہ افرا د کو لوگ نائی کے نام سے پکارتے تھے لیکن جیسے جیسے وقت بدلتا گیا اب یہ نام معدوم ہوتا جارہا ہے اب اس کی جگہ ہیئر ڈریسر نے لے لی ہے۔ اب وقت بدل گیا۔ اب حجامت کی دکان نہیں بلکہ سیلون بن گئی۔ ان سیلونز میں صرف حجامت نہیں ہوتی بلکہ مساج، ہئیر اسٹائلنگ، فیشل، بلو ڈرائے، ہئیر ڈائے، عجیب و غریب قسم کی داڑھیاں اور نجانے کیا کیا وقوع پذیر ہوتا ہے۔ بستر میں ڈھل جانے والی کرسیاں، سینیٹائزنگ مشین، ائیر کنڈیشنر، ایل ای ڈی، وائے فائے، یوٹیوب اور ساؤنڈ کلاؤڈ کا ماڈرن میوزک، اسٹائلنگ مشینیں، واشنگ کنسول، رنگ برنگے بالوں اور حلیوں والے گاریگر۔ اب ہئیر ڈریسروں نے اپنی غربت کو تیز قینچیوں اور اُستروں سے اپنے وجود سے علیحدہ کرنے کی جو جدوجہد شروع کی ہوئی ہے وہ ان کے سنگھار گھروں سے عیاں ہوتی ہے۔ جس حساب سے یہ ترقی کر رہے ہیں اس سے محسوس ہو تا ہے کہ ان کے شیئرز بھی جلد سٹاک ایکسچینج سے جاری ہونا شروع ہو جائیں گے۔

بہرحال جو افسانوی پہلو محلے کے نائی میں تھا وہ اب ان ہیر ڈریسروں میں نظر نہیں آتا۔ ہر محلے میں ایک خاندانی نائی کی چھوٹی سی دکان ضرور ہوتی تھی۔ یا پھر کسی دکان کے تھڑے پہ ایک شیشہ اور بال کاٹنے کے اوزاروں کی ایک صندوق سجائے نائی بادشاہ حقہ پیتے ہوئے براجمان ہوتا۔ اس کے صندوق میں استرہ قینچی ہاتھ سے چلائی جانے والی بال کاٹنے کی مشین کے ساتھ ایک سفید رنگ کا کپڑا، کالے رنگ کا پتھر اور پٹھکری ہوتی۔ پیتل کی کٹوری کے بدلے کنارے ٹوٹی ایک چھوٹی سی چینی کی پیالی۔ صابن اوّل تو کون رکھے اور رکھا بھی تو کپڑا دھونے کے صابن کی کرچ۔ کنگھے میں گنتی کے دانتے۔ محلے کا ہر شخص اور بچہ اپنے اپنے وقت پر ان کے آگے سر جھکا کر بیٹھا ہوتا اور اس نائی کے ہاتھوں کے گھیرے میں حجامت کرانے والے کا سر یوں سج جاتا جیسے پجارن کے برنجی کاسہ میں صندل پوجا کا رکھا ہوا پھول۔ نائی کا پہلا جملہ ہوتا کہ“مولا خوش رکھے! کلماں چھوٹیاں رکھاں کہ وڈیاں؟۔ لوگ بھی حجامت اور شیو کے ساتھ ناک کے بال اور بغلوں کی صفائی جھونگے میں کرواتے اور مٹھی چاپی الگ سے۔ بلکہ دیگر ضروریات کے لئے بھی استرا صرف نائی کے پاس ہی دستیاب ھوتا تھا جسے وہ باقاعدہ محلہ داروں کو مہیا کرتا۔

سارا محلہ اس کے ہاتھوں مسلمان ہوتا تھا۔ جب کوئی محلہ دار اس کے ساتھ جھگڑا کرتا تو وہ سب سے پہلا طعنہ یہی دیتا“جُل اوئے جُل“ میں نے ہی تمہارے باپ اور تم کو مسلمان بنایا تھا، تم مجھ سے کیا بات کرتے ہو؟ مسلمان بنانے کے بعد مسلمان رکھنے کا فریضہ بھی نائی کے نازک کندھوں پر ہوتا تھا۔ باتونی ہونا، نائی اور کوچوان کی گٹھی میں شامل تھی۔ کیوں کہ دونوں انتظار کروانے کے لیے لوگوں کو باتوں میں الجھائے رکھتے۔ یہ انکی کاروباری مجبوری تھی جو رفتہ رفتہ ان کی فطرت ثانیہ بن گئی۔ ماضی میں نائی انسانوں کی حجامت کے ساتھ ساتھ بکروں کی حجامت میں بھی ید طولیٰ رکھتے تھے۔ کئی دفعہ نائی کی دکان میں داخل ہوتے ہی یہی آواز آتی۔ بیٹا تھوڑی دیر بعد آنا ابھی فلاں کے دنبے کے بال کُترنے جا رہا ہوں۔

نائی ایک ایسا شخص ہوتا تھا جس کا قبضہ بنیادی طور پر مردوں اور لڑکوں کے بال کاٹنے کے ساتھ ساتھ شرعی تقاضا پورا کرنے اور مکمل وجہیہ مرد بنانے کے لیئے استرے کے ساتھ کٹ لگانا ہوتا تھا۔ خاندانی طور پر چھوٹی موٹی جراحی کا پرمٹ بھی رکھتے تھے۔ کسی کا بازو چڑھا دیا، کسی کا نکلا ہوا پاؤں چڑھا دینا، کسی کی انگل انگوٹھے کی تکلیف کو بھی دور کرنا انکی مہارت اور پیشہ کا حصہ تھے۔ نائیوں کا ایک اور کام شادی بیاہ کے موقع پر کھانا پکانا ہوتا تھا اکثر نے دیگیں، کرچھے، کفگیریرں اور دوسری پکانے والی اشیا اپنی دکان کے اندر ہی رکھی ہوتیں تھیں۔ گلی محلے میں کوئی وفات پاجاتا تو ختم کا کھانا پکانا بھی انہی کا کام ہوتا تھا۔ شادی بیاہ پر بلاوے کیلئے بھی ان نائیوں کو ہی تکلیف دی جاتی۔ عید اور شب برات پر علیحدہ سے بخشش دی جاتی تھی۔ یعنی علاقے کی خوشی غمی کے دوران نائی کا موجود ہونا اور فرائضِ منصبی بطریقِ احسن نبھانا ایک اہم معاشرتی فریضہ تھا۔

محلوں میں پہلے موبائل نائی بھی دستیاب ہوتے تھے، جو گھر گھر جا کر حجامت کی خدمت پہنچایا کرتے تھے۔ لیکن اب یہ منظر دیکھنے کو نہیں ملتا۔ شاید کہیں اب بھی یہ درویش پائے جاتے ہوں! محلے کے نائی کی دکان تمام ملکی، سیاسی، سماجی، مذہبی اور محلاتی اطلاعات کی نشر کا مرکز ہوتی تھی۔ ہمارے کچھ دوست تو محلے کے نائی کو چاچا ریڈیو بھی کہتے تھے کیونکہ جیسے ہی دکان میں داخل ہوتے تو اس کی گفتگو شروع ہوجاتی۔ جتنے مرضی بندے موجود ہوتے اس کی باتیں اور تجزئیے شروع ہو جاتے۔ نائی کی زبان ایسے چلنا شروع ہو جاتی جیسے دیک میں کفگیر تاہم کم مقصد کے ساتھ ساتھ زیادہ شور کے عنصر کا پوری طرح خیال رکھا جاتا۔ آپ سے مطلوبہ سوالات کرنے کے بعد پورے محلے کی ان چاہی خبریں بھی سنانے لگتا۔ بلکہ کئی نوجوانوں کو جوانی کے مسائل اور انکا علاج بھی بغیرکسی اضافی فیس کے مہیا کرتا تھا۔ اوزاروں سے زیادہ ان کی زبان چلتی تھی۔ بلکہ یوں سمجھ لیں کہ نائی علاقے کی بیورو کریسی کا اہم ترین نام ہوتا تھا۔ بال کاٹتے کاٹتے آئینے کے ساتھ لٹکے ہوئے بٹیرے کی تھیلی سے بٹیرا نکال کر اور کوک مار کے دوبارا لٹکانا بھی دورانَ حجامت اسکے فرائض میں شامل ہوتا۔ چاہے موضوع کوئی بھی ہوتا ہمیں حجامت کے آدھے گھنٹے میں اس پر کم از کم ڈاکٹریٹ جتنا مواد مل جاتا تھا۔ قینچی، کنگھی، استرا، فوارہ، تولیہ، ڈیٹول اور فریم شدہ آئینہ ایک نائی کا کل اثاثہِ حیات! ہمیں پھٹے نماحجامتی کرسی پر بٹھا کر گردن کے گرد چادر باندھ کر نائی قید کر دیتا۔ ایسی صورتحال میں ہم مکمل طور پر نائی کے حوالے، نہ کچھ کہہ سکتے اور نہ ہی کچھ کر سکتے۔ اب اسکی مرضی ہوتی کہ ہمارے گول مٹول سر کو چاند بنا دیتا یا چاند گرہن۔ دوسروں کی طرح ہم بھی خاموشی سے سر جھکائے بیٹھے رہتے۔ اس وجہ سے بھی سرجھکانا پڑتا کہ نائی اپنے فن سے ہمارے بالوں کی کانٹ چھانٹ کرکے ہماری وجاہت کو ”رعنائی“ بخش دے اور شخصیت میں ایک خاص رونق اور ”توانائی“ پیدا کر دے۔

بچپن میں وقتاً فوقتاً خصوصا گرمیوں میں گھر والے ہماری ”ٹینڈ“ کروا ڈالتے تھے۔ ہم اس پوزیشن میں نہ کبھی تھے نہ آج ہی ہیں کہ اس ”جبر“ پر احتجاج کر سکیں یا آگے سے ٹینڈ کرنے اور یہ جبر ہم پر مسلط کرنے والے کو آنکھیں ہی دکھا سکیں۔ اب اللہ کا خصوصی کرم ہے کہ سر آدھے سے زیادہ گنجا ہو چکا ہے اس لیئے اب آخری ٹینڈ پچھلے سال دوران حج کرا کے شرعی فریضہ مکمل کیا۔ ویسے رسم ِ ٹینڈ بھی عجیب رسم ہوتی تھی۔ بچہ سمجھتا تھا کہ جس طرح ”رسمِ ختنہ“ انجام پائی تھی مٹھائی وغیرہ تقسیم کی گئی۔ یہ بھی ”رسمِ ختنہ“ کی طرح کوئی ”اچھا عمل“ ہی ہو گا اور جس طرح ”رسمِ ختنہ“ ایک فرض سمجھ کر ادا کی جاتی ہے ایسے ہی یہ رسم بھی نہایت اچھے ماحول میں ادا ہو رہی ہو گی۔ بچہ یہی سوچ کر نائی اور گھر والوں کی چالبازیوں میں آ جاتا تھا۔ بے چارے بچے کو اس وقت پتہ چلتا کہ کیا ظلم ڈھایا جا چکا ہے جب اُس کے سامنے والے سر کے حصے پر نائی کا اُسترا اپنا کام دکھا چکا ہوتا تھا۔ رونا دھونا اس وقت زیادہ ہو جاتا جب دوست وغیرہ اسکے گنج یا ٹینڈ پہ ٹھونگے مارتے۔ یہ مت بھولیئے کہ ٹینڈ کے فوائد بھی شاید کتابوں میں لکھاریوں نے لکھے ہوں مگر ٹینڈ کروانے کے نقصان کہیں زیادہ ہیں مثلاً آپ ٹینڈ سمیت لڑکیوں کے کالج کے سامنے سے نہیں گزر سکتے؟ کیونکہ اکثر لڑکیوں کے پاس اب ”ٹچ“ والے موبائل ہیں اور اب ایک سیکنڈ میں تصویر اور ویڈیوتیار بھی ہو جاتی ہے اور پھر فیس بک پراپلوڈ بھی۔ نوجوان جو ہر آن موبائل کمپیوٹر سے چپکے بیٹھے ہوتے ہیں، دیکھتے ہی دیکھتے بال کی کھال اتارنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ پتہ اُس وقت چلتا ہے جب کوئی دوست فون کر کے بتاتا ہے ”یار تمہاری تو فیس بک پر دوستوں نے خوب ٹینڈ کی ہے؟

نائی کو بھی ادب میں ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ شیخ سعدی نے گلستان میں ان کی تعریف میں ایک حکایت لکھ ڈالی۔ الف لیلہ میں بوبک حجام کا قصہ بھی اسی پیشے کی بلندی کا ثبوت ہے۔ اور تو اور بالی وڈ نے بھی بلو باربر کے نام سے فلم بنا کہ اس پیشے کو خراج َ عقیدت پیش کیا اور اس کا گانا تو اب بھی زبانِ زدِ عام ہے“چل رہی ہیں، چل رہی ہیں، چل رہی ہیں قینچیاں“۔ اردو ادب کے ایک مشہور شاعر عنایت اللہ حجام عرف کلو بھی قوم کے حجام تھے اور اسی مناسبت سے تخلص بھی حجام رکھا۔ انہیں سودا کی شاگردی پر بہت ناز تھا۔ ان کے سوا کسی شاعر کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ مصحفی نے ان کے کلام کی تعریف میں لکھا ہے۔کہ وہ باوجود کم علمی کے شعر خوب کہتے تھے۔ان کے اشعار سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ باریک بیں تھے اور ندرت مضمون سے کلام کو جلادیتے تھے۔ اسی سبب سے مشاعروں میں انہیں خوب داد ملتی تھی۔ غزلوں کے مقطعوں میں اکثر اپنے پیشے کے رعایت سے مضمون باندھتے تھے۔ جو خوب بامزہ ہوتے تھے۔ مختلف تذکرہ نگاروں کے بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ عنایت اللہ حجام کے مزاج میں شوخی اس قدر تھی کہ وہ اپنے آپ کو بھی نہیں بخشتے تھے۔ اول تو وہ خود قوم کے حجام اس پر مستزاد یہ کہ تخلص بھی حجام۔پھر اس تخلص کی رعایت سے اپنے پیشے کی کارگزاریاں۔یہ کیفیت پوری محفل کو لوٹ پوٹ کرنے کے لیے کافی تھی۔

اس شوخ کے کوچے میں نہ جایا کرو حجام
چھن جائیں گے اک دن کہیں ہتھیار تمہارے

حجام، نائی، زلف تراش، خلیفہ جی، ہئیر ڈریسر نام کوئی بھی دے لیں، لیکن کام کے لحاظ سے یہ وہ کردار ہے جسکے بغیر کسی کی بھی زندگی کی فلم مکمل نہیں ہوتی۔ حجام ہماری زندگی میں اپنی اہمیت کا وہ انوکھا حامل ہے کہ جسکا گزر ہماری زندگیوں میں شاید ہزاروں بار ہوتا ہو، لیکن ہم نے کبھی اس طرف توجہ ہی نہیں کی۔ یقیناً حجام کی تاریخ بھی انسان کی تاریخ کی طرح قدیم ہے۔ ٹھیک ہے ہمیں حجام یا نائی کے رتبے کا صحیح ادراک ہو نہ ہو لیکن اسکی ضرورت اور اہمیت کا اندازہ براعظم افریقہ کے جنگلوں میں جانگلو قبائل کو دیکھ کر لگایا جاسکتا ہے۔ جنھیں ابھی تک بلیڈ اور ریزر مشین دیکھنا نصیب نہیں ہوا یا پھر کینیڈا کے دور اُفتادہ علاقے میں ان کی وقعت دیکھی جاسکتی ہے جہاں باہر کا نائی ایک مہینہ نہیں گزار سکتا اور مقامی شخص کو ایک حجامت کے لیے جہاز میں دو گھنٹے صرف کرکے ہزاروں ڈالر خرچ کرنا پڑتے ہیں۔

میں آج بھی کہیں حجامت کے لیئے جاؤں چاہے وہ کسی نہ کسی محلے میں موجود بزرگ حجام ہوں یا بازاروں مارکیٹوں میں موجود سیلون پر ھئیر ڈریسر۔ وہاں کے ماحول، کام کرنے کے انداز، میوزک، خبریں، اخبارات، کنگھی کی تلاش، قینچی کے چمتکار، فیشل، ٹی وی کے چینل بدلنا، باتوں میں الجھانا، آپکی مرضی کے خلاف اپنے اناڑی پن کا مظاہرہ آپکے چہرے کے ساتھ کرنا اور پھر آپکی ہی جیب پر خوش آمدی ڈاکہ ڈالنا۔۔۔ یہ سب مجھے اپنے اوپر مسلط ہونے والی حکومتوں جیسا طرزِ عمل لگتا ہے۔ ہمارے اناڑی اور لالچی حکمران بھی ہمارے ساتھ خدمت کے عنوان سے وہ وہ زیادتی کرتے ہیں کہ ہماری سانس بند کرنے کا تمام سامان کرکے ہی دم لیتے ہیں۔ آپکو آپکا ملک دنیا کی صفوں کا شہزادہ گلفام بنا کر پیش کیا جاتا ہے، جہاں آسمان سے بارش کی بجائے ہُن برستا ہے، چاندی کے جھرنے اور سونے کے دریا بہتے ہیں۔بس دعا ہی کر سکتے ہیں کہ نائیوں کی طرح ہمارے حکمران بھی اپنی ذمہ داری سنبھال کر ہمارے ملک کی بگڑی ہوئی صورت اور عوام کا اعتماد بحال کرکے دنیا کے سامنے ہمارا اجلا اور حسین چہرہ پیش کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں یا تو حکمران مصروف نظر آتے ہیں یا پھر حجام۔ حجام کی دکان پہ بھی بھیڑ ایسی ہی ہوتی ہے جیسے کسی سیاستدان کے مکان کے باہر۔ یہ بھی یاد رکھیں جیسے سارے نائی و حجام ایک سے نہیں ہوتے بالکل ایسے ہی سارے حکمران ایک جیسے نہیں ہوتے اور یہ بھی ماننا پڑے گا کہ نائی نائی ہوتا ہے اور وزیر وزیر!۔ کیا آپ کو بھی کسی بھی حجام یا نائی کی دکان کے دروازے یا دیوار پر جلی حروف میں لکھا نظر آیا ”سیاسی گفتگو کرنا منع ہے۔‘‘

About The Author