پچھلے بیس دنوں سے ڈیرہ اسماعیل خان کے دامان کی زمینوں پر ٹڈی دل حملہ آور ہے مگر آفرین ہے دامان کے لوگوں پر یہ پوری فیملی کو ساتھ لے کر صبح اپنے کھیتوں میں پہنچ جاتے ہیں اور شور شرابا ۔دھواں وغیرہ لگا کر ٹڈی دل کو بھگا دیتے ہیں۔
سخت سردی اور ٹھنڈی ہواوں میں یہ ٹڈی دل کا مقابلہ کرتے کرتے بیمار بھی ہو گیے ۔قریب کے ہسپتالوں میں نہ ڈاکٹر ہوتے ہیں نہ دوائیاں دستیاب ہیں۔ دامان کے غیور عوام صرف اپنی بقا کی نہیں بلکہ ملک کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں کیونکہ فوڈ سیکورٹی کے بغیر کوئی قوم زندہ نہیں رہ سکتی۔
حکومت کو تو پچھلے چھ ماہ سے پتہ تھا کہ ٹڈی دل بلوچستان سے سندھ داخل ہو چکا ہے سندھی کسانوں نے مظاہرے بھی کیے مگر حکومت صرف بیان دیتی رہی جیسے ہمارے سابقہ چیف منسٹر پنجاب بیان دیتے تھے ۔۔۔ کہ ٹڈی دل کو کراچی اور سندھ کی سڑکوں پر نہ گھسیٹا تو میرا نام شھباز شریف نہیں۔اور ٹڈی دل کراچی کی سڑکوں پر بھنگڑا ڈالتا رہا پھر وہ بڑے سکون سے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں ہمارے دامان کے علاقے پہنچ گیا۔
دامان آبپاشی سے محروم علاقہ ہے جس کا انحصار صرف بارش کے پانی اور رودکوہی سسٹم پر ہوتا ہے۔کئی سالوں کی خشک سالی کے بعد اس سال بارشیں ہوئیں تو دامان کے لوگوں نے قرضے لے کر اپنی زمینیں آباد کر ڈالیں اب گندم اور چنے کی فصل لہلہانے لگی تو اوپر سے ٹڈی دل نے دہشت گردوں کی طرح حملہ کر دیا۔
ٹڈی دل کو ختم کرنے کے لیے چیخ و پکار کی گئی تو بڑی مشکل سے ہماری قومی اسمبلی میں آواز اٹھائی گئی اور جمعہ کے دن وزیراعظم عمران خان نے اجلاس بھی کیا اور کچھ اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن ان اقدامات کی عملی شکل دامان کب پہنچتی ہے اور ٹڈی دل کو سڑکوں پر کب گھسیٹا جاتا ہے اس کے ہم انتظار میں ہیں ۔
فی الحال ڈیرہ اسماعیل خان کے محکمہ توسیعی زراعت کی پھٹیچر گاڑیاں اور قدیم سپرے کا سامان سڑکوں پر گھومتا رہتا ہے جگہ جگہ یہ گاڑیاں خراب ہو جاتی ہیں اور کھیتوں سے کسانوں کو بلا کر دھکے دے کر سڑکوں پر واپس لایا جاتا ہے۔
کیمرے سے فوٹو بناے جاتے ہیں اور محکمہ زراعت کی تعریف کی وڈیو بنا کر پشاور بھجوا دی جاتی ہے۔ ٹڈی دل کھوئی بہارا۔کڑی شموزی۔درابن چودھوان۔کلاچی۔ٹانک سے پرواز کرتا درہ پیزو سے گزرتا اب آرام سے لکی مروت پہنچ چکا ہے۔
ہمیں بتایا جاتا ہے ٹڈی دل کے خلاف ایمرجنسی ڈیکلیر کر دی گئی ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ایمرجنسی کا کیا مطلب ہے؟ کیا دس بارہ فیلڈ اسسٹنٹ بھیج کر اس طوفان کا مقابلہ کرنا ایمرجنسی ہے؟
یہ فیلڈ اسٹنٹ سارا دن اپنی گاڑی کو دھکا دیتے رہتے ہیں۔ کتنے زرعی ساینسدانوں نے متاثرہ علاقوں میں کیمپ لگاے اور ٹڈی دل کی پیدایش کا روٹ تلاش کرنے کی کوشش کی؟؟؟
ہمارے پاس سیکڑوں زرعی ساینسدان موجود ہیں جو بیرون ملک سے تعلیم حاصل کر چکے مگر فیلڈ کی بجاے انہیں دفتروں میں بٹھا رکھا ہے اور معمولی تعلیم والے فیلڈ اسٹنٹ کھیتوں میں مکڑی سے مقابلہ کر رہے ہیں۔
ہماری گورنمنٹ کے ہیلی کاپٹرز صرف ان کی سیکورٹی اور جلسے ایٹنڈ کرنے کے لیے ہیں؟کسی بڑے افسر یا وزیر نے ہیلی کاپٹر پر بیٹھ کر دورہ کیا؟
ہمارے منتخب نمایندوں نے بھی نہ آواز بلند کی نہ علاقے کا دورہ کیا دامانیوں کو لاوارث چھوڑ دیا اور وہ سارا دن چیخ چیخ کر گلا خراب کر بیٹھے۔ میڈیا اور حکومت دن رات اس بحث میں الجھی ہوئی ہے کہ کتنے اراکین پارلیمنٹ ناراض ہیں اور ان کو کیسے منایا جاے۔ تُف ہے ایسے میڈیا پر بھی جو قحط کے مسلے سے بے خبر ساری رات کوا حلال ہے یا حرام کی بحث میں قوم کو الجھا کے بیٹھا ہے۔
آج اخبار میں پڑھا کہ ہماری انتظامیہ نے ٹڈی دل کے خلاف ایکشن پلان تیار کیا ہے اور کسانوں سے کہا گیا کہ اگر ٹڈی دل نظر آے تو ڈپٹی کمشنر کے دفتر اطلاع کریں یعنی پچھلے پندرہ روز سے انتظامیہ کو اطلاع ہی نہیں مل سکی کہ ٹڈی دل کا طوفان جاری ہے۔اب اس پر کیا کہا جاے ۔اللہ پاک ہمارے ملک کو اس آفت سے محفوظ رکھے آمین۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر