امریکہ کی معروف سینئر ڈپلو میٹ ایلس ویلز نے پاکستانی دورے پر ۔۔۔ اپنےایک "عام خطاب” میں سی پیک کی مخالفت کرتے ہوئے، پاکستان کو سی پیک کے نقصانات سے اگاہ کیا ۔۔۔۔ ایلس ویلز کا یہ عام خطاب ہماری سول سوسائٹی، اور پاکستانی نژاد ” امریکہ زادوں” سے تھا اور سنا ہے کہ حاضرین نے امریکی خاتون کے فرمودات کو دل و جان سے خراج عقیدت پیش کیا ۔
اکثر اردو اخبارات نے ایلس ویلز کی تقریر شائع ہی نہیں کی ۔ کیونکہ جس نے جس کو میسج دینا تھا وہ سر عام دے دیا عوام جو سی پیک کو پاکستانی معیشت کی شہہ رگ سمجھتے ہیں، کو سی پیک کے معاملے سے لا علم رکھا جا رہا ہے تا کہ اس اہم منصوبے کو عوامی طاقت کی حمائت سے محروم رکھا جائے ۔
اور امریکہ کی عام لوگوں میں نفرت نہ بڑھ پائے۔ ہماری ایک نئی مخلوق جسے سول سوسائٹی کہتے ہیں ، سے ایلس ویلز کے خطاب نے ، کم از کم یہ تو سمجھا دیا کہ "سول سوسائٹی ” نامی مخلوق کس کی تخلیق ہے ۔ ہماری حکومت کے کسی وزیر یا مشیر نے امریکی خاتون کے فرمودات کا کوئی جواب نہیں دیا ،
یہاں تک کہ ایلس ویلز نے کراچی سے پشاور تک ڈبل ریلوے ٹریک پر بھی دل کھول کر گولہ باری کی ۔ دوسری طرف صدر ٹرنمپ کا فرمان ہے کہ آجکل انکی پاکستان کیساتھ ایسی دوستی ہے جو پہلے کبھی نہ تھی ۔۔۔۔ امریکہ کیساتھ آجکل کے حالات میں مثالی دوستی کی 3 ہی وجوہات ہو سکتی ہیں
1۔ افغانستان پر امریکی قبضے کے استحکام میں معاونت ۔۔۔۔۔۔اور جو امریکہ زادے یہ کہتے ہیں کہ امریکہ افغانستان سے نکلنا چاہتا ہے وہ عمران اور ضیاء الحق سے بھی بڑے جھوٹے ہیں ۔
2۔ سی پیک کے منصوبوں میں امریکی خواہش کیمطابق تاخیر
3۔ بھارت کیلیے ممکنہ آسانیاں، کیونکہ بھارت اب امریکی اتحادی ہے
ان 3 خدمات کے علاوہ چوتھی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی ۔۔۔۔ سوال یہ ہے کہ امریکہ ان خدمات کے عوض پاکستان کو کیا دے رہا ہے یا کیا دیگا ۔ اسکا جواب عمران اور جنرل باجوہ کے علاوہ کسی کو معلوم نہیں اور وہ دونوں اس پر خاموش ہیں ۔
ہم اپنی قوم کو پھر یاد دلا دیں کہ پیداوار کے زریعے آمدن کے علاوہ معیشت ٹھیک نہیں ہو سکتی ۔ سی پیک ہماری آمدن کا سب سے بڑا زریعہ بن سکتا ہے ۔ اسکے علاوہ تا حال نہ تو امریکہ کی طرف سے اور نہ ہی حکمرانوں کیجانب سے کوئی متبادل زریعہ آمدن سامنے آیا ہے ۔
امریکہ اور سعودی عرب سے ڈالرز اور ریال کی بھیک سے ہم مزید بھیک مانگنے کیلیے زندہ رہ سکتے ہیں مگر قومی معیشت میں ترقی اور خود مختاری نہیں آ سکتی ۔
ہمارے اقتدار پرست اور ملازمانہ سوچ کے حامل حکمرانوں کواپنی 70 سالہ تاریخ سے کم از کم یہ سبق تو سیکھنا چاہیے ۔۔۔ مگر ورائے قسمت کہ ہمارے حکمران اپنا عرصہ ملازمت پورا کرنے کے بعد امریکہ اور اسکے اتحادیوں کے وظیفے پر پاکستان چھوڑ جاتے ہیں ۔
ہم پھر کہتے ہیں کہ جو کوئی بھی سی پیک کے ضمن میں سازش کریگا وہ ملک و قوم کا غدار ہو گا ۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ