مرتضی زاہد
ہم سرائیکیوں نے بھی اپنی حکایت لکھی ہے،اس حکایت میں نئ بتی جلائ ہے، آدمی بنیادی طور پر اساطیر کو جنم دینے والی مخلوق ہے، آدمی بیٹی یا بیٹا نہیں اساطیر کو جنتا ہے آدمی کا سونا جاگنا بولنا اور موت اس کی اساطیر میں سے گزر کر ایک سماجی اور سیاسی ہنر بنتا ہے،
اس کا یہ ہنر چھیننا اس کو غلام بناتا ہے،ہر طاقتور کمزور کی اساطیر چھین لیتا ہے،گھوڑا ہو یا تلوار ،بندوق ہو یا توپ سب لوگوں کی ذاتی اور مشترکہ اساطیر چھیننے کے ہتھیار ہیں،پرانی حملہ آوری سے نئے کالونیل ازم تک یہی دھوکہ چلا آتا ہے،
طاقت ور کے تمام ضابطے اساطیر سے ڈرتے ہیں،مدرسے سکول کے نصاب پاگل خانہ جیل گھنٹہ گھر سب اسی جبر کا حصہ ہیں،آدمی کی بنت خود اساطیری ہے، وہ اساطیر کو جنم دے کر جیتا ہے،
آدمی سے یہ بحث کہ اساطیری وقت گزر گیا ہے اس کے تخلیقی وفور اور اس کے ہونے کا انکار ہے،اساطیر کو بار بار جنم دینا پڑتا ہے،
ورنہ تو پچھلی کہانی اور اساطیر ریاست کے ہتھے چڑھ جاتی ہے جیسے کسی صوفی کو ریاست اپنے نظام کا حصہ بنا لے ،لوگوں کے ساتھ کھڑے ہونے والے آدمی کے مزار کے باہر سونے کا دروازہ تعمیر کروا دے،
حاکم مزار کو غسل دے ،حاکم گلاب کے پھولوں کا ہار چڑھائے ،اس درگاہ سے ریاست اپنے مہرے اور کارندے چنے،وہ آدمی جو ریاست کے سامنے لوگوں کی امید تھا وہی ریاستی لپیٹ میں آ جائے،
یہاں ہمارا موقف یہ نہیں کہ تصوف یا صوفی کو لوگ دشمن کہا جائے بلکہ ہماری منشا صوفی کا بار بار جنم اور عشق کی فروانی ہے، اس ریاست میں رہتے ہوئے جو مقامی آدمی اور قدیم اقوام کے ہونے کی منکر ہو جائے،اساطیر سازی ایک سیاسی کام ہے،
ریاست مقامی آدمی کی اساطیر سازی کے مقابلے میں نظریہ سازی کرتی ہے، وہ مقامی قصے کے مقابلے میں اپنی ہتھیلی پر بنی ہوئ تاریخ اور تہذیب لے آتی ہے،اس کے لئے یہ سب اتنا ضروری ہوتا ہے کہ بندوق اور توپ سے کام لیتی ہے،
مقامی آدمی جنگل میں چھپ جائے یا پہاڑ پر چڑھ جائے وہ اس کی تلاش میں ہوائ جہاز اڑاتی ہے،ہم سرائیکی اس ریاست کے درمیان میں بستے ہیں ،
اسی لیے ہم اپنے اجداد دیو کو بلاتے اور بلائیں اپنے ساتھ رکھتے ہیں،ہمارے مور اور بطخیں دشمن کے گھوڑوں کے پیچھے بھاگ پڑتے ہیں
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر