نومبر 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

انٹرنیٹ حکومت اور ٹویٹر اپوزیشن ۔۔۔ ارشد وحید چوہدری

اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے ڈیڑھ سال میں روز بروز اجیرن ہوتی عوام کی زندگی سے متعلق پارلیمان کے باہر بھی کوئی احتجاج دیکھنے کو نہیں ملا۔

خانیوال کی تحصیل جہانیاں میں مقیم میرے ایک عزیز کا فون آیا تو اُس نے بتایا کہ اُن کے محلے میں واقع آٹا پیسنے والی چکی پہ چوری ہوگئی، چور دس من آٹا اور پسائی کے لیے پڑی تقریباً سات من گندم چوری کرکے فرار ہو گئے۔

لوگوں نے چکی کے مالک سے کہا کہ مقدمہ درج کرا دو تو اس نے جواب دیا کہ میں کس جرم کا مقدمہ درج کراؤں کہ چوروں نے آٹا اور گندم چوری کر لی ہے۔

جس نے بھی آٹا چوری کیا ہے وہ کوئی عادی مجرم یا پیشہ ور چور نہیں ہوگا بلکہ بھوک اور غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس نے یہ قدم اٹھایا ہوگا اس لیے میں اسے معاف کرتا ہوں۔

ریاستِ مدینہ کے دعویدار شاید بھول چکے ہیں کہ اس کو قائم کرنے والے نبی آخر الزماں حضرت محمدﷺ کا فرمان ہے کہ مفلسی انسان کو کفر تک پہنچا دیتی ہے۔ جن لوگوں نے بڑے چاؤ اور لاڈ سے تبدیلی کی خواہش کی تھی وہ موجودہ حکومت کے صرف سترہ ماہ میں دہائیاں دینے لگے ہیں۔

کراچی سے خیبر تک مہنگائی نے عوام کو خون کے آنسو رلا دئیے ہیں جبکہ رہی سہی کسر اب آٹے کے بحران نے پوری کر دی جو محض حکومت کی بدانتظامی اور نا اہلی کے باعث پیدا ہوا۔ خیبر پختونخوا سے حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے وزیر دور کی کوڑی لاتے عوام کو نصیحت فرماتے ہیں کہ فائن آٹا کھانے سے کینسر کا مرض لاحق ہو جاتا ہے۔

اپنی گندم سستے داموں برآمد کر کے اب مہنگے داموں درآمد کرنے کا فن کوئی ان تبدیلی کے معماروں سے سیکھے لیکن خیر یہ اتنا سادہ معاملہ بھی نہیں کیونکہ وفاقی وزارتِ نیشنل فوڈ سیکورٹی کی مخالفت کے باوجود افغانستان کے بارڈر کھلوا کر کس نے گندم بھجوائی اور کون اب درآمد کرنے کی تجویز پیش کر کے قوم کو بیوقوف بنا رہا ہے، یہ کسی سے پوشیدہ نہیں رہا۔

چند دنوں کی بات ہے عوام بیچارے تو بھول جائیں گے کہ آٹے کے اس بحران اور چینی کی مصنوعی قلت پیدا کر کے کس نے اربوں روپے کی دیہاڑیاں لگائیں لیکن وہ اگر نہیں بھولیں گے تو وہ بیانات جو ان کی غربت اور بےبسی کا مذاق اڑانے کے لیے دئیے گئے ہیں اور وہ وقت آنے پہ اس کا حساب بھی ضرور چکتا کریں گے۔

اس میں اگر کسی کو شک ہے تو وہ پرویز مشرف کی آمریت کی چھتری تلے قائم کی جانے والی مخلوط ’’جمہوری‘‘ حکومت کے انجام کو یاد کر لے۔ جس حکومت کے سربراہ خود فرمائیں کہ انہیں بطور وزیراعظم جتنی تنخواہ ملتی ہے اس میں وہ اپنے گھر کا خرچہ نہیں چلا سکتے وہاں خطِ غربت سے نیچے شمار ہونے والے چالیس فیصد عوام کیسے سانس کی ڈوری برقرار رکھتے ہیں، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔

غریب افراد کی یہ شرح گزشتہ ایک سال میں تقریباً آٹھ سے نو فیصد تک بڑھ چکی ہے۔ وفاقی وزارت خزانہ نے قومی اسمبلی کے آخری اجلاس میں جو اعدادو شمار پیش کئے ان کے مطابق مہنگائی کی شرح 15فیصد تک پہنچ چکی ہے جبکہ اسٹیٹ بینک کے مطابق دیہی علاقوں میں یہ شرح 19فیصد تک بھی ریکارڈ کی گئی ہے۔

دوسری طرف اقوام متحدہ نے پاکستانی معیشت کی مستقبل کی جو تصویر پیش کی ہے اس کے مطابق آئندہ سال ترقی کی شرح تین اعشاریہ ایک فیصد سے کم ہو کر دو اعشاریہ ایک فیصد ہو جائے گی جو خطے میں سب سے کم ہوگی۔

اسی طرح آئی ایم ایف کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی ترقی کی شرح رواں مالی سال میں دو اعشاریہ چار فیصد تک رہنے کا امکان ہے، یاد رہے ترقی کی شرح مسلم لیگ(ن) کے دور حکومت میں پانچ اعشاریہ آٹھ فیصد تھی، آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان میں مہنگائی کی شرح جو تین اعشاریہ نو فیصد تھی وہ رواں سال تیرہ اعشاریہ پانچ فیصد رہے گی۔

حکومتی وزرا عوام کی اس حالتِ زار پہ ٹھٹھے اڑا رہے ہیں جبکہ وزیراعظم پاکستان عوام کو ناقابلِ برداشت مہنگائی کا یہ تحفہ دینے پر قبر میں سکون نصیب ہونے کا وعظ دے کر بری الذمہ ہو چکے ہیں لیکن دوسری طرف اپوزیشن کا کردار بھی تکلیف دہ حد تک لاپروائی کا ہے۔ اپوزیشن لیڈر عوام کو حکومت کے رحم و کرم پہ چھوڑ کر بیرونِ ملک قیام فرما ہیں اور وہیں سے ٹویٹر پہ بیان داغ کر اپنے فرض سے سبکدوش ہو جاتے ہیں۔

اسی طرح اپوزیشن کے دیگر رہنما بھی ٹویٹر پہ حکومت کو نا اہلی اور بدانتظامی کے طعنے دے کر لمبی تان کے سو جاتے ہیں، اپوزیشن کے کچھ رہنما تو آف دی ریکارڈ گفتگو میں برملا کہتے ہیں کہ عوام کے مسائل جتنا بڑھیں گے اتنا پی ٹی آئی کی حکومت بدنام ہوگی اور ان کے لیے اقتدار کی منزل تک پہنچنا آسان ہو جائے گا۔

یہی وہ سوچ ہے جس کے باعث حکومت کے ساتھ اپوزیشن بھی عوام کو خون کے آنسو رلانے میں برابر کی ذمہ دار ہے، اپوزیشن کی طرف سے ابھی تک عوامی مسائل بالخصوص ہو شربا مہنگائی پہ پارلیمان میں کوئی خاطر خواہ احتجاج دیکھنے کو نہیں ملا۔

اگر کبھی قومی اسمبلی یا سینیٹ کے اجلاس کے لیے ریکوزیشن جمع بھی کرائی گئی تو اس میں ذاتی مفادات کو مقدم رکھا گیا اور برائے نام اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافے کے نکات شامل کئے گئے جن پہ کسی اجلاس میں بحث نہیں کرائی گئی۔

اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے ڈیڑھ سال میں روز بروز اجیرن ہوتی عوام کی زندگی سے متعلق پارلیمان کے باہر بھی کوئی احتجاج دیکھنے کو نہیں ملا۔ کسی بھی جمہوری ملک میں اپوزیشن عوامی مسائل کے حل کے لیے شیڈو حکومت کا کردار ادا کرتی ہے لیکن موجودہ اپوزیشن صرف بیان بازی اور ٹویٹر پہ حاضری لگوانے تک محدود ہو چکی ہے۔

اس صورتحال میں جب حکومت بالکل بے حس ہو چکی ہو اور اپوزیشن ٹویٹر تک محدود ہوجائے تو عوام کو اپنی حالت زار کی تبدیلی کیلئے ان سے کوئی توقع نہیں کرنا چاہئے کیونکہ ان کا پیغام بہت واضح ہے کہ جاگدے رہنا ساڈے تے نہ رہنا۔

About The Author