ڈیرہ اسماعیل خان میں ریڈیو پاکستان کی نشریات کا افتتاح 15 جنوری 1981ء کو ہوا تھا جب ریڈیو اپنے سنہری دور سے گزر رہا تھا۔ اس وقت اکثر براڈکاسٹنگ ہاوس کی عمارتیں شھر کے اندر اور ٹرانسمیٹرز شھر کے باہر لگاۓ جاتے جس کے لیے سیکڑوں کنال زمین درکار ہوتی تھی لیکن چونکہ حکومت کو ریڈیو کی اہمیت کا پتہ تھا اس لیے اربوں روپے خرچ کر کے ملک کے طول و عرض میں ریڈیو سٹیشن کھولے گیے جو عوام میں ترقی خوشحالی تعلیم اور صحت کا شعور اجاگر کرتے اور مقامی ادب و ثقافت کو فروغ دیتے رہے۔
ریڈیو سٹیشن تو پاکستان بننے سے پہلے بھی کام کر رہے تھے البتہ ریڈیو پاکستان ہمارے ملک کے قیام کے ساتھ ہی 1947ء میں وجود میں آیا۔ریڈیو پاکستان ڈیرہ نے اب 39 سال مکمل کر لیے ہیں تو اپنی سالگرہ بدھ کے روز نہایت پروقار اور سادگی سے منائی۔
ریڈیو سے محبت کرنے والے سامعین سٹیشن پر پہنچ گیے اور عملے کے ساتھ مل کر کیک کاٹا اور خوشی کا اظہار کیا گیا۔شروع شروع میں جب ریڈیو کی سالگرہ منائی جاتی تھی تو تین ماہ پہلے اس کی تیاری شروع ہوتی ۔
ہیڈکوارٹر سے کافی رقم مختص ہو کے دی جاتی پورے ملک سے سرائیکی اور پشتو کے مشہور سنگر بلائے جاتے تمام آرٹسٹوں اور شھریوں کو دعوت دی جاتی اور سالگرہ کے دن ایک دھوم دھام اور میلے کا سماں ہوتا تھا۔
مگر اب ملک میں پرائیویٹ ٹی وی اور سوشل میڈیا کا دور شروع ہوا تو حکومت کی توجہ ادھر چلی گئی اور ریڈیو سے ایسے بے اعتنائی شروع ہوئی جیسے کوئی شخص نئی عورت سے شادی کر کے پرانی بیوی سے توجہ ہٹا لیتا ہے۔
حالانکہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں ریڈیو اب بھی خبروں اور معلومات کا صفحہ اول کا ذریعہ ہے کیونکہ دوسرے تمام میڈیا کے کل ملا کے کوریج دور دراز کے علاقوں میں نہیں جبکہ ریڈیو پاکستان ملک کے سو فیصد علاقے کو کور کرتا ہے اور پوری دنیا میں سنا جاتا ہے۔
بہر حال ریڈیو پاکستان سے محبت کرنے والے لوگوں کی بھی کمی نہیں۔ ہمارے پیارے دوست سلیم شھزاد جو ڈیرہ ریڈیو سے گذشتہ بیس سالو ں سے سپورٹس پروگرام کرتے رہے ہیں نے حالات کو جانتے ہوۓ اپنے بیٹے ۔۔سانول جس کا اصل نام محمد عمیر سلیم ہے کی شادی کے ولیمے کا پروگرام ٹھیک ریڈیو پاکستان کی سالگرہ کے دن مقرر کر ڈالا۔
سانول خود ریڈیو پاکستان ڈیرہ اسماعیل خان میں سروس کرتا ہے اور سماجی کاموں میں والنٹیر کے طور پر سرگرمی سے حصہ لیتا ہے۔
میں نے خود اس کو احساس تنظیم میں بہترین سماجی خدمات سرانجام دیتے دیکھا ہے۔ چنانچہ سلیم شھزاد نے اس پروگرام میں ریڈیو پاکستان کے تمام سٹاف اور بہت سے آرٹسٹوں کو بلا کر ریڈیو پاکستان سے متعلق لوگوں کی یادگار تقریب بنا ڈالا۔
سٹیشن ڈائیرکٹر ریڈیو پاکستان نجم الحسن صاحب بمع تمام پروڈیوسرز ۔ نیوز ایڈیٹر۔انجینیرز اور جملہ سٹاف کے ساتھ تقریب میں موجود تھے ۔
سرائیکی پروگرام وسدیاں جھوکاں کے سینیر پروڈیوسر اسد مختیار کمپیر اعجاز قریشی۔ سرائیکی شاعر مخمور قلندری اور جمشید ناصر۔ ممتاز ادیب حفیظ گیلانی۔ارشاد حسین شاہ ۔احسان بلوچ ۔ریٹائرڈ کنٹرولرز فیاض بلوچ۔عطالاکبر۔ ممتاز معالج ڈاکٹر شاہ جہان بلوچ سب حاضر تھے۔
چونکہ سلیم شھزاد صاحب ایک سرائیکی تنظیم سپت سندھو سلھاڑ چلاتے ہیں اس لیے تقریب میں ہر طرف نیلی اجرک کے رنگ بکھرے ہوے تھے اور دعوت نامہ بھی سرائیکی زبان میں بہت عمدہ طریقے سے چھپوایا گیا تھا جس نے سرائیکی کلچر کو اجاگر کرنے میں کافی کردار ادا کیا۔
اس کے ساتھ ساتھ سرائیکی وسیب کی کمزور ہوتی ہوئی رسمیں اور رواج جن میں آگا ۔مہندی۔مائیوں ۔گھڑی گھڑولا ۔اور ابٹن یا جسے سرائیکی میں باٹنڑ کہتے ہیں تمام رِیتوں اور رسموں کو زندہ کر ڈالا۔
سلیم شھزاد ہمیشہ سرائیکی کلچر کے فروغ کے لیے کام کرتا رہا اور اس کو عملی طور پر کر کے دکھا دیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سانول کی دلھن کا تعلق ممتاز ادیب اور کالم نگار ہمارے دوست وجاہت علی عمرانی کے خاندان سے ہے۔
وجاہت علی عمرانی بہت عرصے سے ڈیرہ کی تہزیب و ثقافت ۔ادب۔شاعری کو روزنامہ اعتدال میں کالم لکھ کر اجاگر کرتے رہتے ہیں۔
تقریب میں کثیر تعداد میں تمام دوستوں نے ریڈیو پاکستان ڈیرہ کی سالگرہ اور سانول کی شادی کی مبارک باد پیش کی۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر