ستمبر 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پوسٹ ٹرتھ عہد میں سچ، صدر ٹرمپ، عمران خان اور ہم ۔۔۔رانا محبوب اختر

مگر یہ روح عصر کے خلاف تھا!!مسلم دنیا میں امریکی مداخلت کی وجہ یہ جھوٹ تھا کہ مغرب کو اسلامی دہشت گردی سے خطرہ ہے

زندگی، کن کا کرشمہ ہے۔کن فیکون کا قصہ ہے۔ آدمی کے مسجودِملائک ہونے کا اسرار ہے۔ آدمی اک عجب گورکھ دھندا یا کوئی جدلیاتی ہستی ہے جس کے اندر نیکی اور بدی کی کشمکش جاری ہے۔ احسن ِتقویم اور اسفل السافلین کی لڑائی وجود کے پانی پت میں ہمہ وقت برپا ہے۔

انسان فطرت کا محبوب ہو نہ ہو زندگی کو سنوارنے کی آرزو کرتا ہے۔ حسن و زیبائی کو نیکی سمجھ فروغ دیتا ہے اور کبھی تاریخ کے سبق بھلا کر ہمالیہ ایسی حماقتوں کا ارتکاب کرتا ہے۔

ظلم کرتا ہے۔جہالت شعار کرتا ہے۔ ماضی کو دوبارہ جینے کی سزا پاتا ہے۔حیرت ہوتی ہے کہ جس برطانیہ کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا وہ نیجل فراج اور مائیکل گوو جیسے سیاست کاروں کے بریکسٹ بیانیے کی دلدل میں پھنسا ہے اور جو امریکہ، برطانیہ کے ساتھ 1941میں اٹلانٹک چارٹر کے ذریعے دنیا کے غلام ملکوں کو آزادی دلانے کے لئے معاہدہ کرتا تھا وہ ویت نام اور کوریا کے بعد عراق، شام، لیبیا، افغانستان اور صومالیہ جیسے دور دراز ملکوں میں جنگیں لڑتا ہے۔ برطانیہ کے خلاف آزادی کی جنگ لڑنے والا ملک، غریب ملکوں کو غلام بناتا ہے۔

اور جنرل قاسم سلیمانی کو مار کر ایرانی ملا کو پھر سے مقبولیت کے رستے پہ ڈالتا ہے اور ساتھ ہی ایران میں جمہوریت کی فتح کی absurd آرزو بھی کرتا ہے !!

کیا صدر ٹرمپ نہیں سمجھتے کہ دنیا کی بڑی سلطنتوں کی بربادی کی وجوہات ایک سی تھیں !!!کمزور معیشت ، مسلسل جنگیں، اور اخلاقی انحطاط سے تمام بڑی سلطنتیں تباہ ہوئیں۔

سامراجی اونٹ کی کمر پہ آخری تنکا imperial hubris کا ہوتا ہے وہ غرور جو یونانی المیے سمیت تمام بڑے المیوں کی بنیاد ہے۔ کمزور اور بونے بادشاہ اور اندرونی لڑائیوں نے ہندوستان کی ماریہ سلطنت کو برباد کیا اور پھر ماریہ ہاتھیوں کے بدلے یونانیوں سے چھوٹے چھوٹے علاقوں کی بھیک مانگتے تھے۔

رومی سلطانوں کی چیرہ دستیاں اور کوئی 300 یورپی گوتھ قبیلوں سے لڑائیاں، سلطنت_ روم کے زوال کی بنیادی وجوہات تھیں۔ مسلم بغداد کو فقہی عدم برداشت اور اندرونی سازشیں اور لڑائیاں ہلاکو تک لے گئیں۔ برطانیہ کو ایشیا اور افریقہ کو غلام بنانے کا حق نہ تھا۔ وہ سفید آدمی کی ذمہ داری کے پردے میں کاروبارِ زرگری کرتے تھے !! پھر جنگ ِعظیم دوئم کا بپتسمہ ہوا اور جنگ کے بعد کے معاشی اور سیاسی اضمحلال سے افتادگانِ خاک آزاد تو ہوئے مگر ان کا بھلا نہ ہوا۔

سوویت یونین کو امریکی ڈالر اور مجاہدین کی گولی سے پہلے معاشی کمزوریوں نے گھائل کیا تھا ہماری داستان ِعزیمت کا سادہ قصہ، افغانوں کے خون سے رنگین ہے۔ تو کیا اب امریکی سلطنت کا زوال نوشتہ دیوار ہے؟ اور صدر ٹرمپ ایک رو بہ زوال سلطنت کا منطقی اظہار ہیں؟ امید ہے کہ صدر ٹرمپ کے مواخذے کی کاروائی سے امریکی عوام اور جمہوری اداروں کی resilience کا جو امتحان شروع ہو رہا ہے۔ اس سے جمہوریت اور امریکی عوام سرخرو ہوں گے! جس طرح انیسویں صدی برطانیہ کی تھی اس سے کہیں زیادہ بیسویں صدی امریکہ کی تھی۔برگر اور کوک، جاگرز اور جینز، ٹیکنالوجی، انٹرنیٹ، مائکروسافٹ، گوگل، مصنوعی ذہانت، فیس بک، ایمازان، جینیاتی سائنس اور بگ ڈیٹا سے جو دنیا وجود میں آئی وہ امریکہ کی مرہونمنت ہے۔گلوبل ویلج پر امریکہ کی چھاپ سوفٹ پاور اور پیس انڈسٹری کی وجہ سے ہے۔جبکہ فوجی طاقت کے غرور نے کئی بار امریکہ کو دھوکا دیا ہے۔ویت نام، کوریا ، افغانستان اور عراق میں امریکہ نے غلطیاں کی ہیں۔دہشت گردی کی آڑ میں مسلمان ممالک کو بنیاد پرستی کی طرف دھکیل دیا گیا، جہاں کروڑوں لوگ غربت اور خوف کی زندگی گزارتے ہیں!!

امریکہ کی طاقت اس کے شہریوں کی قوت ایجاد اور entrepreneurship سے ہے جس نے دنیا کو ایک گاوں بنا دیا۔۔ فلم، فیشن اور فنانس نہ کہ بارود، بم اور خوف ، امریکہ کی طاقت ہیں ۔ امن اور ایجاد و اختراع سے دنیا کا بہتر مستقبل سے وابستہ ہے ۔ امریکہ کی اخلاقی طاقت کو جنوبی امریکہ، مشرقِ بعید، مسلم ریاستوں اور مشرقی افریقہ کی ریاستوں میں مداخلت نے نقصان پہنچایا ہے۔کہ جمہوریت، ڈرون پر سواری کی عادی نہیں۔اور بارود سے خوشحالی کا دم گھٹتا ہے۔

صدر ٹرمپ امریکہ کو عظیم بنانے کے نعرے پر اقتدار میں آئے تو نیٹو اتحادیوں کی اہمیت سے انکار کیا اور جنرل قاسم کو مارنے کے بعد نیٹو کو مدد کے لیے پکارتے تھے۔وہ افغانستان سے واپسی کا کہتے تھے مگر اس وقت صومالیہ، عراق، یمن اور لیبیا کی دلدل میں پھنستے جا رہے ہیں ۔ ایک زمانے میں چرچل جیسا بڑا لیڈر سامراجی غرور کی وجہ سے گاندھی کو نانگا فقیر کہتا تھا اور مزید دس سال انڈیا پر برطانوی قبضہ جاری رکھنے کا خواہش مند تھا۔

مگر یہ روح عصر کے خلاف تھا!!مسلم دنیا میں امریکی مداخلت کی وجہ یہ جھوٹ تھا کہ مغرب کو اسلامی دہشت گردی سے خطرہ ہے۔جمہوریت کی پرداخت کے لئے امریکہ کو کردار ادا کرنا چاہئے تھا۔ لیکن خون آلود کھیتوں میں بموں کے سپرے اور بارود کی کھاد سے جمہوریت کا پودا نہیں، دہشت گردی کی آکاش بیل پروان چڑھتی ہے۔صدر ٹرمپ کے لئے مشعلِ راہ صدر آئزن ہاور ہیں جن کو سویز کینال پر برطانوی حملے پہ حیرت ہوئی تھی۔ اور تھامس جیفرسن جنھیں ماضی کی تاریخ سے زیادہ مستقبل کے خواب عزیز تھے۔امریکہ کے بانیان میں سے صدر جارج واشنگٹن نے کہا تھا کہ تمام قوموں کے ساتھ انصاف کرو اور سب کے ساتھ امن کو فروغ دو! ڈیجیٹل عہد اور big data کی اکیسویں صدی میں نیکی اور اچھائی کے بغیر انسان کے واحد مسکن زمین کو نہیں بچ پائے گا۔گوگل کی Quantum Machine تین منٹ بیس سیکنڈ میں وہ mathematical calculations کر سکتی ہے جو سپر کمپیوٹر کوئی دس ہزار سال لگا کر کرتا۔جنگ اور لڑائی کے پیراڈائم میں پھنسے پرانے اور عمر رسیدہ لیڈروں کو نئی دنیا کی جدلیات سمجھ نہیں آتیں۔

نریندرا مودی ، ایرانی قیادت، عرب رہنما اور صدر ٹرمپ مسابقت اور جنگ کی قبائلی جدلیات کے اسیر ہیں۔ اور نئی دنیا کو جیسنڈا آرڈرن، جسٹن ٹروڈو اور فن لینڈ کی 34 سالہ وزیر ِاعظم، Sanna Marin، جیسے چھوٹے ملکوں کے بڑے لیڈرز کے وژن کی صرورت ہے وہ نئی صدی کے تقاضوں اور روحِ عصر سے واقف ہیں۔وہ جانتے ہیں کہ جنگ نہیں، امن سے دنیا کا مستقبل وابستہ ہے اور ماحولیاتی آفات، ایٹمی ہتھیاروں اور مصنوعی ذہانت کے ممکنہ خطرات سے زمین اور انسانیت کو بچانے کے لئے دانش، محبت اورcompassionکی ضرورت ہے۔ نہ کہ صدر ٹرمپ اور وزیرِاعظم بورس جانسن کی طرح کے لیڈرز جو اپنے عہد کی جدلیات سے بے خبر مقبولیت اور ووٹ لینے کے لئے جھوٹ بولنا جائز سمجھتے ہیں۔اور رو بہ زوال سلطنتوں کے سلاطین اور بادشاہوں کی طرح حصولِ اقتدار کے لئے جمہوری اور اخلاقی اصولوں کو خاطر میں نہیں لاتے۔امرتا سین ، بھارت کے نوبل انعام یافتہ ماہرِمعاشیات اور” The Argumentative Indian” جیسی کتاب کے مصنف اور دانش و دانائی کا پیکر ہیں۔انھوں نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا کہ ہندوستان میں ہندوتوا کے عروج سے وہ فکر مند ہیں۔

سیکولرازم متنازعہ بننے سے مکالمے اور مباحثے کا معیار گر گیا ہے۔مباحثہ شفاف اور واضح نہیں رہا کہ لوگ خوفزدہ ہیں اور بات کرنے سے گھبراتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ نے امریکہ کی معاشی بدحالی اور بے روزگاری کو اپنی مہم کا حصہ بنا کر انتخاب جیتا جبکہ یہ دونوں باتیں جھوٹی تھیں۔پوسٹ ٹرتھ دنیا میں alternative truths یا متبادل سچائی سے جھوٹا بیانیہ تشکیل پاتا ہے۔ متبادل سچائی جھوٹ کا euphemism ہے۔ بریکسٹ ریفرنڈم میں بھی یہی ہوا تھا۔کہ برطانوی عوام کو جھوٹ بول کر گمراہ کیا گیا۔

ہندوستان میں ہندوتوا کے بیانیے کے پیچھے بہت سے جھوٹ ہیں۔ اور شہریت ایکٹ کے بعد خوف کی فضا میں اضافہ ہوا ہے۔ ظفر اقبال روح ِعصر کی عکاسی کرتے ہیں:

کام آئی نہ کچھ دانش و دانائی ہماری
ہاری ہے ترے جھوٹ سے سچائی ہماری
بہت سے لوگوں کو اچھا نہیں لگا تھا! لیکن عمران خان نے جب پارلیمان میں کھڑے ہو کر کہا تھا،کہ کیا اب میں جنگ کر لوں، تب وہ مجھے بہت اچھا لگا تھا۔ کہ اکیسویں صدی، وار انڈسٹری، جنگ و جدل، ظلم، ناانصافی اور جہالت کی نہیں، پیس انڈسٹری، امن اور خوشحالی کی صدی ہے!تاریخ کی گواہی یہ ہے کہ احسن ِتقویم اسفل لوگوں کو شکست دیتا آیا ہے!آج کل بھکر کے نوجوان شاعر، افکار علوی کی ایک نظم وائرل ہوئی ہے۔

اس نظم کا آخری شعر، کن کے کرشمے کے حوالے سے امید اور التجا سے بھرا ہے:
ہم لوگ تیری کن کا بھرم رکھنے آئے ہیں
پروردگار یار……… ہمارا خیال کر

About The Author