بلوچستان کے علاقے کچلاک کے تیس سالہ نوجوان سلیمان خان نے پچھلے ہفتے برفانی طوفان میں پھنسے ایک سو لوگوں کو نکال کر محفوظ مقام پر پہنچانے کی ایک سنہری داستان رقم کی ہے جس سے ہر پاکستانی کا سر فخر سے بلند ہو گیا۔
یہاں پہنچنے والی اطلاعات کے مطابق پچھلے ہفتے کویٹہ ژوپ شاھراہ برفانی طوفان کی وجہ سے مختلف مقامات پر بند ہو گئی اور مسافر اس طرح پھنس گیے کہ نہ آگے جا سکتے تھے نہ پیچھے مڑ سکتے تھے۔اس طوفان سے کچلاک زیارت کراس خانوزئی اور خان مہتر زئی ایریا سب سے زیادہ متاثر ہوا جہاں درجنوں گاڑیاں طوفان میں پھنس کے کھڑی ہو گئیں۔
ان گاڑیوں میں چھوٹے بچے۔عورتیں ۔بوڑھے۔بیمار اور دوسری مسافر شامل تھے جو سردی کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے اور جان جانے کا خطرہ تھا۔سلیمان جو قریب کے گاوں میں رہتا ہے نے اپنی سپورٹس لینڈ کروزر نکالی اور چونکہ وہ راستوں سے واقف تھا پھنسے ہوے مسافروں کے پاس پہنچ گیا اور انہیں نکال کے اپنے گھر پہنچا دیتا۔
اس طرح اس نے کئی پھیرے لگا کے سو سے زیادہ مسافر اپنے گھر پہنچا دیے ان کی خوراک اور بستروں کا بندوبست کیا۔ کچھ مسافروں کی گاڑیوں کا پٹرول ختم ہو چکا تھا اور ان کے پاس رقم نہیں تھی سلیمان نے ان کی گاڑیوں میں اپنی جیب سے پٹرول ڈلوا دیا۔
سلیمان کا کہنا ہے کہ میں نے مسافروں کی امداد اللہ پاک کی خوشنودی کی خاطر کی کیونکہ مجھے پتہ چل گیا تھا کہ ان مسافروں کی جان خطرے میں ہے اور برف کے طوفان کی وجہ سے سڑک بند تھی اس لیے سرکاری امداد کا پہنچنا جلدی ممکن نہیں تھا۔
اسلام میں بھی یہی ہے ۔۔ خَیْرُ النَّاسِِ مَنْ یَّنْفَعُ النَّاس ۔۔۔لوگوں میں بہتر و ہ ہے جو لوگوں کو نفع پہنچائے۔قانون فطرت یہی ہے کہ ہر چیز نفع بخشی کے اصول پر قایم ہے۔
سورج کروڑوں سال سے ہماری دنیا کو مفت حرارت پہنچا رہا ہے چاند کی روشنی فری ہے۔ ہوا دن رات پوری دنیا کو گھیرا ڈال کر آکسیجن دے رہی ہے ۔دریا ۔سمندر لوگوں کو زندگی بخش پانی مہیا کر رہے مچھلیاں دے رہے ہیں باربرداری ہو رہی ہے۔
یہ تمام نعمتیں لوگوں کو بغیر معاوضے کے مل رہی ہیں اور دنیا والوں سے قیمت وصول نہیں کرتیں۔اسی طرح انسان سے بھی توقع کی جاتی ہے کہ وہ نفع بخشی کے اصول پر اپنی زندگی تعمیر کرے اور کائینات کے اس عظیم قافلے میں شریک ہو جاے۔
درخت کی پتیاں جب تک ہری رہتی ہیں وہ اس شاخ کا حسن بنی رہتی ہیں جونہی وہ پیلی ہوتی ہیں درخت انکو قبول کرنے سے انکار کر دیتا ہے اور وہ ٹوٹ کر زمین میں مٹی میں مل جاتی ہیں کیونکہ پتے جب تک ہرے رہتے ہیں وہ سورج سے توانائی لے کر درخت کو پہنچاتے رہتے ہیں اور جب ان میں یہ صلاحیت ختم ہوتی ہے وہ درخت کے لیے غیر مطلوب ہو جاتے ہیں اور درخت ان کو اپنے سے جدا کر کے گرا دیتا ہے۔
ایک دفعہ امریکہ کے صدر ریگن نے بہت عمدہ بات کہی تھی۔اس نے کہا
There is no limit to the amount of good you can do if you dont care who gets the credit.
جس کا ترجمہ ہے کہ ”اگر آپ بھلائی کرنے میں اس بات کی پرواہ نہیں کرتے کہ اس بھلائی کا کریڈٹ کون لے گا تو دنیا میں بھلائی کرنے کے بے شمار مواقع موجود ہوتے ہیں “ تو میرے بھائیو یاد رکھو دُنیا کا خُوبصورت ترین انسان وہ ھے جو دوسروں کے لئے بے ضرر اور سماج کے لئے سود مند ہواگر آپ اپنی استطاعت کے مُطابق سوسائٹی کو ڈیلیور نہیں کررہے، فائدہ نہیں پہنچارہے تو آپ "بے مقصد” جی رہے ہیں اور آپ کا ہونا "نہ ہونے” کے برابر ھے.اللہ رب العزت نے "دینے” میں آسانیاں رکھی ہیں
برکت، سکون اور اطمینان "بانٹنے” میں ھے مگر ہم اسے مال و اسباب جمع کرنے میں تلاش کرتے ہیں…. جھک مارتے ہیں!!
دُنیا کے بیشتر مسائل، مصائب ومُشکلات کی وجہ "ارتکازِ زر” ھے..اور دولت جمع کرنے میں اخلاقی قدروں کو پامال کیا جاتا ہے۔ لیکن اس بھری دنیا میں اب بھی کچھ لوگ باقی ہیں جو سلیقے سے ہواوں میں خوشبو گھول دیتے ہیں اور جن سے ملکر جی بہت خوش ہوتا ہے۔
گلزار احمد
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر