ایک سردار جی گاڑی لے کے مکینک کے یہاں پہنچے ، گاڑی کے ہر حصے کو اچھی طرح کسی شے سے توڑا گیا تھا، لائٹیں ٹوٹی ہوئی، دروازے دھنسے ہوئے، ونڈ سکرین اور دروازے کے شیشے بھی ٹوٹے ہوئے تھے، ڈینٹر پینٹر کو بولے کہ پوری گاڑی مرمت کر دو۔
اتنے میں سردار جی کا دوست آیا اور بولا سردار جی۔۔ یہ کیسے ہوا؟۔ سردار جی نے کہا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا۔
وہ دوست بولا ماننے والی بات نہیں کیونکہ ساری گاڑی جس طرح ٹوٹی ہوئی ہے لگتا ہے جیسے کسی نے خود توڑی ہو۔سردار کچھ دیر سوچنے کے بعد بولے ویرا، پہلے ایکسیڈنٹ ہوا تھا پھر جس بندے کی گاڑی سے ایکسیڈنٹ ہوا اس نے مجھے بھی توڑا اور گاڑی کو بھی۔۔
دوست بولا تم نے اسے روکا نہیں؟۔۔ سردار جی نے کہا اس نے ایک لکیر کھینچ دی تھی اور کہا تھا اس لکیر کو پار کیا تو بہت ماروں گا۔۔ دوست نے حیرت سے کہا تو کیا تم بس اسے گاڑی توڑتے ہوئے دیکھتے رہے۔
سردار جی نے ہنستے ہوئے کہا۔۔ میں نے چار بار لکیر پار بھی کی اس پاگل کو پتا ہی نہیں چلا۔۔
اگر اس لطیفے کو قومی سیاست میں فٹ کیا جائے تو پی ٹی آئی، پیپلز پارٹی اور ن لیگ بھی سردار جی جیسے ہی دکھائی دیتے ہیں جو ایک دوسرے پہ ہنستے ہیں کہ اس نے ہم نے چار بار لکیر پار بھی کر لی مگر مخالفین کو پتا بھی نہیں چلا۔۔
پی ٹی آئی سے جب کوئی کہتا ہے کہ تم تو کہتے تھے ان چوروں کو این آر او نہیں دوں گا۔۔ نواز شریف کو باہر نہیں جانے دوں گا۔۔ زرداری بھی ضمانت پہ باہر ہے تو پھر کیا احتساب ہو رہا ہے اس ملک میں؟۔
حکومت کا جواب ہو گا کہ ہم نے تو دیکھیں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر پہ الزام ثابت کر دیا تھا اب انہیں عدالتوں سے ضمانت مل رہی ہے لیکن دیکھ لیں ہم ثابت قدمی سے اپنی جگہ پہ کھڑے ہیں۔ زرداری پہ بھی کرپشن ثابت کر ہی دیں گے بس چار پانچ سال کا وقت دیں
ن لیگ سے اگر پوچھا جائے کہ جناب آپ نے تو ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ اپنایا تھا، اچانک آپ کو ضمانتیں بھی مل گئیں، حنیف عباسی بھی باہر آ گیا، رانا ثنا اللہ بھی ضمانت پا گئے۔۔
آپ نے جواب میں خاموشی اپنا لی۔۔ جس کے بدلے میں نواز شریف کو علاج کے لیے لندن بھیج دیا گیا اور آپ نے مشرف کو سزا ملنے پہ رد عمل دیانہ ہی خصوصی عدالت کے خاتمہ پہ آپ کی ترجمان نے ایک لفظ بھی ادا کیا۔
آرمی ایکٹ میں ترمیم کا فیصلہ بھی چپ چاپ ہو گیا اور تمام لیگی ارکان اب یہ بھی کہنا شروع ہو گئے کہ جناب ہم نے خلائی مخلوق کی اصطلاح اپنے قومی ادارہ کے حوالہ سے استعمال نہیں کی تھی، بندہ پوچھے کہ جناب پھر کیا مریخ کے رہنے والوں کے لیے یہ اصطلاح استعمال کی گئی؟۔۔
پیپلز پارٹی نے بھی پہلے اینٹ سے اینٹ بجانے کا نعرہ لگایا پھر جیلوں سے ہسپتال کا سفر طے ہوا اور ہسپتال سے گھر پہنچ گئے۔۔ آرمی ایکٹ میں ترمیم کے دوران گونگلوﺅں سے مٹی جھاڑنے کے لیے ترامیم پیش کیں پھر اچھے بچے کی طرح واپس بھی لے لیں۔
فیصل واوڈا ایک ٹی وی پروگرام میں آئے تو میز پہ فوجی بوٹ رکھ دیا میزبان کاشف عباسی اس بوٹ کو دیکھ کے کھل اٹھے۔۔ جاوید عباسی اور قمر زمان کائرہ دونوں اس پہ ناراض ہو گئے حالانکہ فیصل واوڈا بھی بنیادی طور پہ سردار جی کا کردار ادا کر رہے تھے۔
وہ یہ بتانا چاہتے تھے کہ وہ کسی کو اپنا تھوک شریک بھائی بنانے کو تیار نہیں۔ انہوں نے کہا ان کی پارٹی کی تو شروع سے پالیسی رہی ہے لیکن یہ دونوں اپوزیشن جماعتیں آج بوٹ کو چاٹ رہی ہیں جو انہیں کسی صورت قبول نہیں۔
پیمرا نے بہرحال اچھا کیا کہ پروگرام کے میزبان کاشف عباسی کے پروگرام پہ ساٹھ روز کے لیے پابندی عائد کر دی اس طرح شائد وہ کچھ عرصہ کے لیے کوئی غیر ملکی ٹور ہی کر لیں لیکن بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پہ فیصل واوڈا پہ پیمرا نے کوئی پابندی عائد نہیں کی۔
بعد ازاں اس شکوہ کے ازالہ کے لیے وزیر اعظم عمران خان نے دو ہفتہ کے لیے فیصل واوڈا کو کسی بھی ٹی وی پروگرام میں شرکت سے روک دیا۔ یہ اچھا ہے شائد اسے کہتے ہیں غصہ کمہار تے، کڈھیا کھوتے اتے۔۔ یعنی غصہ کمہار پہ تھا نکال کھوتے پہ۔
جس نے جرم کیا اسے سزا کم ملی اور جس کے سامنے جرم ہوا اسے زیادہ سزا مل گئی۔۔ میرے خیال میں تو قمر زمان کائرہ اور سینیٹر جاوید عباسی کو اس بات پہ بھی شکر ادا کرنا چاہئے کہ پیمرا نے ان دونوں پر دو دو سال کے لیے کسی بھی ٹی وی پروگرام میں شرکت پہ پابندی نہیں لگائی۔
یعنی ہر جگہ سردار جی ہی سردار جی دکھائی دے رہے ہیں تو اس بات پہ خوش ہیں کہ انہوں نے لکیر بار بار پار کی لیکن دوسرے کو پتا ہی نہیں چلا۔۔ کیا وزیر اعظم، کیا پیمرا، کیا عدالتیں اور کیا ہمارے سیاستدان۔۔ سب کے سب ایک دوسرے پہ ہنس رہے ہیں۔
ویسے ہم کیا کہہ سکتے ہیں۔۔ بطور میڈیا ہم بھی تو چپ چاپ کھڑے اپنے لٹنے کا تماشا دیکھتے ہیں اور جب کوئی کہتا ہے کہ تم خاموش کیوں رہے؟۔۔ تو ہنستے ہوئے جواب دیتے ہیں کہ آف ائیر، آف سکرین تو ہم نے بھی سب سچ بول دیا کسی کو پتا بھی نہیں چلا۔
اگر اس لطیفے کو قومی سیاست میں فٹ کیا جائے تو پی ٹی آئی، پیپلز پارٹی اور ن لیگ بھی سردار جی جیسے ہی دکھائی دیتے ہیں
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر