نومبر 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مقبوضہ کشمیر:میڈیا سنٹر میں ملیشین خواتین سیاح رو پڑیں

انٹرنیٹ بند ہونے کی وجہ سے ان خواتین کا اپنے اہل خانہ سے واٹس ایپ کے ذریعے کئی دنوں بعد رابطہ ہو پایا ہے

سرینگر،

محکمہ اطلاعات عامہ کی نگرانی میں صحافیوں کے لیے قائم کردہ میڈیا سنٹر میں ملیشیا سے تعلق رکھنے والی تین خواتین روتی بلکتی آئیں۔جو کشمیر کی سیر کے لیے یہاں مقیم تھیں۔

ذرائع  کے مطابق انٹرنیٹ بند ہونے کی وجہ سے ان خواتین کا اپنے اہل خانہ سے واٹس ایپ کے ذریعے کئی دنوں بعد رابطہ ہو پایا ہے، کیونکہ یہ سیاح اپنے گھر والوں سے فون پر رابطہ نہیں کرپا رہی تھیں۔

دراصل ان سیاحوں کی وادی کشمیر کی سیر و تفریح کے بعد 11جنوری کی تاریخ کو سرینگر سے واپسی کی پرواز تھی، تاہم گزشتہ چند دنوں کی مسلسل برفباری کی وجہ سے سرینگر کے بین الاقوامی ہوائی اڈے سے کوئی بھی پرواز نہیں جاسکی۔

جس کے سبب رائنا، اِدا اور یوس ڈیلس نامی یہ تینوں سیاح سرینگر میں جبکہ ان کے گھر والے ملیشیا میں ایک دوسرے سے رابطہ منقطع ہونے کے سبب کافی پریشان اور بے چین تھے۔

اب یہ سیاح اپنے ٹور آپرٹر کے ہمراہ کشمیرکے میڈیا سینڑ میں انٹرنیٹ کے ذریعے اپنے اہل خانہ سے رابطہ کر پائے تو ان کی جان میں جان آئی۔

ان کی اس پریشانی کو دیکھ کر یہاں پر کام کرنے افراد ان کی مدد کے لیے آگے آئے۔ کسی نے ویڈیو کال کروانے کی پیشکش کی تو کسی نے اسکائپ کے ذریعے رابطے کی پیشکش کی اور کسی نے ہاٹ اسپاٹ دے کر ان کا اپنوں سے رابطہ کروایا۔

ذرائع  کے مطابق یہ سیاح روتے بلکتے اپنے گھر والوں سے واٹس ایپ پیغامات میں لکھ رہی ہیں کہ یہ یہاں بالکل ٹھیک ٹھاک ہیں پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں ہے۔

اگرچہ ان سیاحوں نے وادی کشمیر کے کئی مقامات کی سیر کی ہے تاہم پہاڑی علاقوں میں بھاری برفباری کے باعث یہ گلمرگ اور پہلگام نہیں جا پائیں۔

ذرائع  کے مطابق ملیشیا کی ان سیاحوں کے ہمراہ مقامی ٹور آپریٹر کا کہنا ہے کہ کئی دنوں سے اپنے گھر والوں سے رابطے میں نہ ہونے کی وجہ سے یہ کافی مایوس اور پریشان تھیں،

اب یہاں واٹس ایپ کے ذریعے سے رابطہ ہوگیا تو یہ ان کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔
وادی کشمیر میں طویل انٹرنیٹ کی معطلی سے اس طرح کے کئی واقعات ابھی تک سامنے آئے ہیں۔

جن کے اپنے بیرون ممالک میں یا تو تعلیم حاصل کر رہے یا ملازمت کر رہے ہیں وہ وادی میں رہنے والے اپنے اہل خانہ کی ایک جھلک کے لیے ترس رہے ہیں۔

About The Author