ذوالفقار علی
سٹیج سج چکا تھا ، پنڈال میں لوگ جمع ہو چکے تھے کیمرے تن چکے تھے اور صحافی "بھائی” اپنے اپنے مورچے پر تعینات کر دئیے گئے۔
ماحول کو گرمانے کیلئے گرج دار آوازوں کو اکٹھا کیا جا چکا تھا اور وہ پنڈال میں موجود لوگوں کا لہو گرما رہے تھے، ٹی وی سکرینوں پر اس کی آمد کے سٹیکر چلنے لگے ، ہر کوئی اپنے اپنے تئیں اس کے استقبال کی تیاری میں لگا ہوا تھا۔
بالآخر وہ طیارے سے اترا تو اس نے اپنی مخصوص قسم کی مسکراہٹ سے فاتحانہ انداز میں اپنے چاہنے والوں کو دور سے ہاتھ ہلا کر سلام کیا اور ادھر ” بھائی” لوگوں نے اپنے اپنے کیمروں کا رخ اس کی طرف موڑ دیا۔
ہر زاویے سے اس کی معمولی سی معمولی حرکات و سکنات کو کیمرے کی آنکھ سے براہ راست نشر کیا جانے لگا۔
مائیک پر گراج دار آواز والے ایک سینیٹر نے گلا پھاڑ پھاڑ کر کہا ہمارے خان تمہارے خان، وزہراعظم پاکستان جناب عمران خان ۔
وہ آ گیا تھا جس نے اپنے خطاب سے یو این او کے اجلاس میں تباہی مچا دی تھی، جس نے کشمیریوں کے حق میں ایسی سپیچ دے ڈالی تھی جس کا چرچہ جاپان کے ساحلوں سے لیکر صحرا اعظم کے ٹیلوں تک پھیل چکا تھا، جس کی آواز کی گونج نے برمودہ ٹرائی اینگل کی سمندر میں چھپی خوفناک چٹانوں کو ہلا کر رکھ دیا ۔
وہ آیا اس نے مائیک کو تھاما اور پنڈال میں موجود لوگوں نے سر آسمان پر اٹھا لیا پورا پنڈال نعروں سے تھر تھر کانپ رہا تے تھا۔ تھوڑے سے توقف کے بعد اس نے روایتی انداز سے اپنی تقریر کا آغاز کیا اور پھر کہا کہ یہ سب بشری بیگم کی دعا ہے ہم اس کے شکر گزار ہیں کہ اج ہم سرخرو ہوئے، جدو جہد میں اونچ نیچ آتی ہے مگر تم نے گھبرانا نہیں ہے، مشکل سے مشکل حالات میں بھی ڈٹے رہنا ہے، ادھر سے انقلاب انقلاب کی آوازیں گونج رہی تھیں۔ میں نے پہلی بار ایسے انقلاب کے نعرے سنے جو ” نامعلوم” تھا جس کو نامعلوم لوگوں کی طرف سے نامعلوم سمت میں بہایا جا رہا تھا۔
زندہ قوم کے نعرے گونج رہے اور عالمی ضمیر جگانے کے کارناموں کو پھر سے سنہری لفظوں میں یاد کیا جا رہا تھا اور یہ بھی سنائی دیا کہ پوری دنیا میں اگر کوئی بھی کشمیریوں کا ساتھ نہ دے تو ہم اکیلے مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہیں۔
ہوٹل پر دس بارہ لوگ اس تقریر کو انہماک سے سن رہے تھے، ان کے چہروں سے غربت ٹپک رہی تھی، میلے کچیلے کپڑوں سے ڈھکے بدن سے اندازہ ہو رہا تھا کہ دعاؤں سے زندہ ریاستوں میں رہنے والوں کے ساتھ زندگی کیا کرتی ہے، وہ باشندے جن کو جذباتی نعروں کی بھٹی میں دھکیل کر دو وقت کی روٹی کا محتاج کر دیا جاتا ہے ان کی رہاستیں شاید ایسی ہوتی ہیں جیسے اسلامی جمہوریہ پاکستان۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تیور اب کی بار بہت نرالے ہیں وہ دعاؤں, چلوں ، وظائف اور جنات کے بل بوتے پر چلنا چاہتی ہے اسے ضمیر نام کی پڑیا سے اپنے لوگوں کو پھر سے جھوٹے خوابوں کی دنیا میں دھکیل کر دفن کرنا ہے ، اسے اب ایک نئے مقدس غلاف میں لپیٹ کر لوگوں کے سروں پر ٹانکنا ہے تاکہ وہ اسی تقدس کے بوجھ تلے دب کر خاکستر ہو جائیں۔
میں نے تنور سے روٹیاں پکوا لیں اور عجیب سی نا امیدی اور مایوسی کے ساتھ سارو کو لے کر گھر آ گیا ادھر بستر پر میری بیمار ماں کہہ رہی تھی کہ مہنگائی کی وجہ سے اب گھر نہیں چلتے میری میڈیسن پر اتنے پیسے نہ لگاؤ مجھے مر جانے دو ۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر