سید مزمل حسین بخاری
بھونگ مسجد کی منظر کشی کرتے ہوۓ ڈیڑھ گھنٹہ گزر چکا تھا, سخت گرمی و حبس کے باعث ہم تھکن سے ہلکان ہوگۓ تھے. مسجد کی مکمل کوریج کے بعد سردار رئیس محبوب احمد صاحب کے محل کا دورہ کرنے کا ارادہ تھا لیکن تھکاوٹ اور وقت کی کمی کے پیش نظر واپسی کا رخ کیا. بھونگ مسجد کی تصاویر ہم جمعہ یکم ستمبر کو اپنے پیج "وسیب ایکسپلورر” پر پیش کر چکے ہیں.
بھونگ سے صادق آباد واپسی پر پیاس مٹانے اور تازہ دم ہونے کیلیۓ احمد پور لمہ کے بازار میں ٹھنڈے پانی اور سوفٹ ڈرنکس کے لیۓ ایک ملٹی سٹور پر رکے. اس دوران سٹور کے مالک جناب توقیر احمد صاحب سے احمد پور لمہ میں تاریخی عمارات کے بارے استفسار کیا.
توقیر صاحب نے ہمارا ذوق سیاحت دیکھتے ہوۓ کمال شفقت کا مظاہرہ کیا اور اپنی سربراہی میں احمد پور لمہ کے پرانے شہر کا مکمل دورہ کرا دیا. اس طرح کم وقت میں احمد پور لمہ کے تاریخی مقامات کی عکاسی بخوبی و با آسانی ممکن ہو سکی.
پرانے قلعہ کی شکستہ حال دیوار, کچہری اور تھانہ کے کھنڈرات دیکھتے ہوۓ شہری آبادی کا رخ کیا, محلوں گلیوں سے گزرتے ہوۓ حویلیوں, مکانات, مساجد, مندر اور گردواروں کی خوب عکاسی کی.
اس دوران احمد پور لمہ کی مشہور شخصیت حکیم حافظ محمد بشیر اویسی صاحب نے ہمیں اپنے مطب کے سامنے تاریخی عمارت کی عکاسی کرتے ہوۓ دیکھا تو مسرت کا اظہار کیا اور احمد پور لمہ کی تاریخی اہمیت کے بارے تفصیلا آگاہ کیا, مزید اپنے مطب کی بالائ منزل سے شہر کے قدیم مکانات کے مناظر عکسبند کرنے کا موقع بھی فراہم کیا.
احمد پور لمہ کا تاریخی شہر ضلع رحیم یار خان کی تحصیل صادق آباد کے شمال مغرب میں تقریبا 8 کلو میٹر کے فاصلہ پر ہے جبکہ قومی شاہراہ N5 پر تاج چوک سے صرف 4 کلومیٹر کی دوری پر ہے.
پہلے یہ ضلع بہاولپور کا حصہ تھا, اب ضلع رحیم یار خان میں شامل ہے. اسکی وجہ تسمیہ کچھ ہوں ہے, "احمد پور” ایک نواب سردار احمد خان سے منسوب اور "لمہ” سرائیکی زبان میں جنوبی سمت کو کہتے ہیں لہذا غالب گمان یہی ہے کہ اسکا محل وقوع جنوبی سمت میں ہونے کی وجہ سے "احمد پور لمہ” کہا جاتا ہے.
حکیم محمد بشیر اویسی صاحب نے ملاقات کے دوران احمد پور لمہ کے تاریخی اہمیت بیان کرتے ہوۓ بتایا کہ یہ خطہ قدیم تاریخی یادگاروں کا گہوارا ہے,
محمد بن قاسم کے دور میں اس جگہ کا نام ٹوبہ کڈھن واہن تھا اور یہ سنھ کے راجہ داہر کے زیر اثر تھا. یہاں کاروباری مرکز بھی قائم تھا جہاں قرب و جوار کے علاقوں سے نقد و اجناس وغیرہ اکٹھا ہو کر بھٹہ واہن کے راجہ آدم کے دربار میں جاتا تھا, بھٹہ واہن میں لوک داستان سسی پنوں کی ہیرئن سسی کی پیدائش ہوئ.
شہر کے دفاع کے لیۓ ایک قلعہ بھی تھا جسکی دیواریں اتنی چوڑی تھیں کہ چار گھوڑے بیک وقت ایک رو میں دوڑ سکتے تھے,
وقت کیساتھ ساتھ قلعہ کا نشان مٹ چکا ہے البتہ کہیں کہیں دیواریں خستہ حالت میں باقی ہیں اور زبوں حالی پر ماتم کناں ہیں.
عباسیہ خاندان کے ایک نواب سردار احمد خان نے 1775ء میں اسکا نام اپنے نام پر رکھا اور شہر کے چاروں طرف تقریبا تیس فٹ اونچی دیوار تعمیر کرائ.
1806ء میں سردار احمد خان کے بیٹے قادر بخش خان نے نواب بہاول خان دوم سے جنگ چھیڑ لی اور شکست کھا کر قید ہوا. اسطرح احمد پور بشمول ساٹھ دیہات ریاست بہاولپور میں شامل کرلیا گیا.
1940ء تک احمد پور لمہ تحصیل صدر مقام رہا بعد ازاں نواب سر صادق خامس نے صادق آباد کو تحصیل اور احمد پور لمہ کو ٹاؤن کمیٹی کا درجہ دے دیا. اس عمل سے کاروباری لوگ صادق آباد منتقل ہوگۓ, تجارتی اہمیت کم ہوگئ اور احمد پور لمہ قصبہ کی حیثیت میں محدود ہوگیا. 2000ء میں یونین کونسل کا درجہ ملا.
برطانوی دور حکومت میں قلعہ کے اندر تھانہ قائم ہوا جو مخدوش حالت میں اب بھی موجود ہے, قلعہ کی دیواریں 1868ء میں گر کر تباہ ہوگئیں. جامع مسجد رمضان خان, ترکھان والی مسجد, مدینہ مسجد, دربار حضرت بشارت علی و خاکی شاہ, دھرم شالہ بابا نانک, مڑھی کلاں, پرانی عدالت, رنگ محل, سکھ دیوی محل اورکینال ریسٹ ہاؤس مشہور تاریخی عمارات ہیں.
احمد پور لمہ کی قدیم و تاریخی عمارات دیکھنے کے بعد ہم صادق آباد شہر پہنچے اور ریلوے اسٹیشن کی عکاسی کے بعد براستہ سردار گڑھ, چاچڑاں شریف, کوٹ مٹھن, راجن پور واپس ڈیرہ غازی خان کی راہ لی.
دورہ احمد پور لمہ, اتوار 6 اگست 2017
تحریر و تحقیق:
سید مزمل حسین
تصاویر:
شعیب رضا و سید مزمل حسین
معاون:
توقیر احمد صاحب, احمد پور لمہ.
اے وی پڑھو
چوکیل بانڈہ: فطرت کے دلفریب رنگوں کی جادونگری||اکمل خان
ڈیرہ کی گمشدہ نیلی کوٹھی !!||رمیض حبیب
سوات میں سیلاب متاثرین کے مسائل کی درست عکاسی ہو رہی ہے؟||اکمل خان