حافظ صاحب ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ شرارتی بھی بہت تھے۔ انہوں نے ایف ایس سی کے دوران جو شگوفے چھوڑے ملاحظہ کریں۔ہم ایف ایس سی کے دوسرے سال میں تھے۔ پہلے سال کے امتحانات کے نتائج کا دن تھا۔ سر نے تمام سیکشنز کو ایک بڑے سے حال میں رزلٹ سنانے کے لیے جمع کیا۔ وہ رزلٹ بتاتے گئے اور حافظ کا نام ہی نہیں آ رہا تھا۔ آگے آگے بیٹھے ہوئے تھے۔ پیچھے کی طرف رخ کرکے کہتے میں تو فیل ہوں۔ سب کا رزلٹ سنانے کے بعد سر نے پوچھا کہ یہ حافظ زبیر کون ہے نمونہ؟ منہ لٹکا کر کھڑے ہوگئے کہ سر میں ہوں۔ سر نے کہا کہ مبارک ہو بیٹا، تیرے سب سے زیادہ نمبر ہیں یعنی 466 اور سب لڑکوں سے تالیاں بجوائیں۔ اب سارے مبارکباد دینے لگے مگر بجائے خوش ہونے کے کہنے لگے یہ بورڈ والے پاگل ہو گئے ہیں، میرے اتنے نمبر آ ہی نہیں سکتے اور کہتے کہ تالیاں بجانے والوں نے دراصل میری بے عزتی کی ہے۔ جس لڑکے کو فرسٹ آنے کی امید تھی، اسے کہتے کہ ٹینشن نہ لے، میں ری چیکنگ کی درخواست دیتا ہوں میرے نمبر کم ہو جائیں گے۔
ایک مرتبہ یوں ہوا کہ ہماری کلاس میں ایک بہت چھوٹے قد والا لڑکا بھی تھا۔ کیمسٹری والے سر نے اس کی کسی غلطی کی وجہ سے اسے سٹیج پر بلا کر مرغا بننے کو کہا۔ وہ بنا تو پیچھے سے حافظ صاحب آوازیں دینے لگے کہ یہ مرغی ہے، یہ مرغی ہے۔ سر نے کہا آ جا پھر تو ہی مرغا بن جا۔ یوں 10 منٹ تک حافظ صاحب کو بھی مرغی کے ساتھ مرغا بن کر کھڑا ہونا پڑا۔
اسی طرح ایک مرتبہ اردو والے سر، نظم "برسات” پڑھا رہے تھے۔ سر نے ایک شعر کی تشریح کی کہ برسات کی وجہ سے ہر طرف پانی ہی پانی تھا اور جل تھل تھا۔ دوسرے شعر کی تشریح ہوئی کہ برسات میں پھول اور پودے کِھلے ہوئے تھے۔ حافظ صاحب کو ہضم نہ ہوا۔ ہاتھ کھڑا کیا اور کھڑے ہو کر سر سے پوچھا کہ سر یہ سمجھا دیں کہ جل تھل میں پھول اور پودے کیسے کِھلتے ہیں؟ سر غصے میں آگئے۔ بولے اُلّو کے پٹھے تم سیلاب میں پیدا ہوئے تھے کیا؟ اور دو چھڑیاں لگا دیں۔ چھڑیاں کھانے کے بعد بھی باز نہ آئے اور پھر پوچھنے لگے کہ سر اب تو بتا دیں کہ جل تھل میں پھول اور پودے کیسے کِھلتے ہیں؟ سر خاموشی سے اس کا منہ کی طرف دیکھتے رہے۔
غرضیکہ اس طرح کی سینکڑوں شرارتیں کیا کرتے تھے۔
چونکہ بورڈنگ سکول تھا اسے لیے ایف ایس سی کے دوران پورے مہینے بعد تین یا چار چھٹیاں ملتی تھیں۔ جب جب چھٹیاں ہوئیں، حافظ صاحب اپنا سارا سامان پیک کرکے سیدھا میرے پاس اللہ حافظ کرنے کے لیے آتے تھے۔ پھر میں اکٹھے سامان اٹھوا کر بس تک ساتھ جاتا۔ بس چلنے تک ہم بس میں بیٹھ کر گپ شپ کرتے رہتے۔ جب چلنے لگتی تو میں نیچے اُتر آتا اور یہ بھی پھر مجھے چھوڑنے کے لیے نیچے آجاتے۔ بس چل پڑتی اور یوں بھاگ بھاگ کر بس پر سوار ہوتے تھے اور میں ہنس رہا ہوتا تھا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر