نومبر 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ہائے تبدیلی، ” نامراد آ،اے کیا کیتی؟۔۔۔ رقیہ اکبر چوہدری

پہلے دل چاہا ان صاحب کی آڈیو ریکارڈنگ آپ کو لائیو سنواوں مگر پھر سوچا ریکارڈنگ کا پتہ چل گیا تو کہیں میرا ہی ریکارڈ نہ لگ جائے

اس وقت اپنے بچوں کے ساتھ لاہور سے تونسہ جانے والی ایک ایسی بس میں سوار ہوں جہاں شاید ستر فیصد مسافر میرے ہم زبان و "ہم علاقہ” ہیں۔

باہر دھند کا راج ہے اس لئے پردے ہٹا لینے کے باوجود باہر کا نظارہ ممکن نہیں رہا (جو کہ دوران سفر میری پہلی اور آخری ترجیح ہوتا ہے ) تو سوچا کتاب رخ کا رخ کیا جائے اور کیوں نا آپ کو بھی شریک سفر کر لیا جائے۔۔
سفر بہت آسان ہو جاتا ہے ناں اگر ہمسفر اچھے ہوں، باذوق اور محبت کرنے والے ہوں۔۔آپ سب کے جیسے۔

سب ہی مسافر میٹھی سرائیکی زبان میں گپ شپ میں مصروف ہیں۔کوئی ہوائی لہروں کے ذریعے اپنے لاہوری میزبانوں کی مہمان نوازی کے قصے اپنے پیاروں کو سنا رہا ہے تو کوئی اپنی آمد کا وقت اور جگہ بیان کرنے میں مصروف ہے۔۔
چند جوان سیٹ پہ اپنے سامنے لگی سکرین پہ بدلتے نظاروں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں اور کچھ میری طرح اپنے اپنے موبائل کی سکرین پہ نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔۔
مگر جن صاحب کی گفتگو نے میری مکمل توجہ اپنی طرف مبذول کرائی اور سچ پوچھیں تو خوشگوار سفر کی ساری خوبصورتی غارت کر دی وہ آپ سے شیئر کرنے لائق ہے۔۔
پہلے دل چاہا ان صاحب کی آڈیو ریکارڈنگ آپ کو لائیو سنواوں مگر پھر سوچا ریکارڈنگ کا پتہ چل گیا تو کہیں میرا ہی ریکارڈ نہ لگ جائے۔ ایسا نہ ہو کہ مشرف کی طرح مجھے بھی "تونسہ” کی زمین پر "لینڈ” ہی نہ کرنے دیا جائے۔۔

یہ صاحب اپنے کسی رکے ہوئے کام کو انجام تک پہنچانے کیلئے شاید ملتان سے لاہور سیکریٹریٹ تشریف لائے تھے۔ اپنے ساتھی کو فون پر بتا رہے ہیں کہ۔
"اس نے کہا تمہارا کام ہو چکا ہے کیونکہ تمہاری "سفارش” بہت بڑی ہے۔۔ہم نے سمری بنا کے رکھ دی ہے مگر سیکرٹری صاحب سائن اس وقت تک نہیں کریں گے جب تک تم پیسے نہیں دو گے”
اس کے بعد اس بندے نے فون کرنے والے کو بےبسی سے کچھ برا بھلا کہا سرائیکی زبان میں (ساتھ والی سیٹ پہ مجھ نمانڑی خاتون کو دیکھ کر شاید زبان کو قابو میں رکھا ہوگا) اور بولا

” کیا فائدہ ہوا تمہاری سفارش کا جب وہ مجھ سے میرے کام کا ایک لاکھ مانگ رہے ہیں۔۔کہتے ہیں
"سی ایم صاحب”
تو تین لاکھ سے کم پہ
"سائن”
ہی نہیں کرتے مگر ہم صرف سفارش کی وجہ سے ایک لاکھ لے رہے ہیں۔
میں غریب تو مشکل سے لاہور سفر تک کا کرایہ پورا کر رہا ہوں اور وہ مجھ سے لاکھ روپیہ کی ڈیمانڈ کر رہے ہیں ”

پھر بولا۔۔۔

"نامراد آ میڈے کرائے دے پیسے وی دھوڑ کیتے نیں ، تیں کم تاں میڈا تھیا وی نئیں” ( میرے کرایہ بھی ضائع کرا دیا اور کام بھی نہیں ہوا) ”

وہ شودا(معصوم) تو یہ کہنے کے بعد سے تادم تحریر نم آنکھوں کے ساتھ سیٹ کی پشت پہ سر ٹکائے ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر بنا بیٹھا ہے اور میں زیر لب گنگنا رہی ہوں۔۔۔
تبدیلی آئی ہے تبدیلی آئی ہے۔۔


رقیہ اکبر چوہدری سرائیکی وسیب کے ضلع ڈیرہ غازیخان کی تحصیل  تونسہ کی بیٹی ہیں اور لاہور میں مقیم ہیں

About The Author