جب ہم میٹرک میں تھے تب ہماری کلاس کے دولڑکوں میں جھگڑاہوگیااوربڑھااتناکہ ایک کواستادصاحب نے تھپڑمارااسے غصہ اایااورباہرسے غنڈے ٹائپ لوفرلے کے آگیااوراستادصاحب کوکہاکہ آج سکول سے باہرنکلوکسی طریقے سے استادکوباعزت وخیریت گھرپہنچایاگیامگرآج بھی وہ لڑکالوفرگھوم رہاہے اورآج تک وہ میٹرک نہیں کرسکا۔
شایداستادکے دل سے آہ نکلی ہوگی اگلے روز استادصاحب سکول آئے تومانیٹرصاحب نے استادسے اس کے متعلق بات کرناچاہی تواستادصاحب نے اتناکہا کہ پڑھے لکھے جاہل بہت زیادہ خطرناک ہوتے ہیں کئی بچے ہنسنے لگے کہ سرپڑھے لکھے بھلاکبھی جاہل ہوسکتے ہیں؟
مگرجب میں نے وکلاء اورڈاکٹرز کی لڑائی دیکھی تومیرے دل سے یہی بات نکلی کہ واقعی پڑھے لکھے جاہل بہت زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔
اگرڈاکٹرکی بات کریں تویہ پیشہ ذمہ دارانہ ایثاروالاپیشہ ہے جس کی وجہ سے 100فیصدچوکنارہناپڑتاہے مشکل حالات میں فیصلے کرناپریشانیوں الجھنوں کودوررکھ کے مریض پرتوجہ مرکوز کرنااپنی ڈیوٹی کواحسن طریقے سے سرانجام دینااوریکسوئی سے اپنے فرائض نبھاناچاہے۔ سرکاری ہسپتال ہے یا پرائیویٹ کلینک اس بات کوذہن میں رکھنا چاہیے کہ علاج کی سہولت ایک غریب آدمی کی پہنچ سے دورنہ ہواس کے ساتھ ہی اتائی ڈاکٹروں سے کئی سودوری بنائی رکھنی چاہیے علاج اورسیاسی وذاتی رنجش بازی کودوررکھناچاہیے جس سے یقیناًڈ سے ڈاکواورڈسے ڈاکٹرمیں فرق ہوگا۔
وکیل جس نے انصاف دلانے کی خاطرلڑناہے بچھڑوں کوملاناہے مگرقانون بنانے والے قانون شکن ہوگئے اور46سلاخوں میں ہیں اور250پرمقدمہ درج کیاگیاہے۔وکلاء اورڈاکٹرزگردی نے ہرپاکستانی کے سرشرم سے جھکادیے کہ قانون کی پاسداری کرنے والے قانون کی دھجیاں اڑارہے ہیں۔
اگرہم اس معاملے کی تہہ میں جائیں تووہی بات ہوگی”کھوداپہاڑنکلاچوہا“۔گزشتہ ماہ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں وکلاء گئے اورلائن میں لگناخودکی توہین سمجھاتویہ معاملہ توتومیں میں سے ہاتھاپائی پرآیا بس پھرکیاتھاوکلاء نے احتجاج کی کال دے دی جس کے بعدڈاکٹرزبھی ہڑتال کرکے باہرنکل آئے جس کی وجہ سے کئی روز مریض اورعدالتی پیشے کی عوام خوارہوتی رہی ۔
آخرکارمعاملہ ختم کرنے کیلئے ٹیمیوں نے اپناکام کیااورڈاکٹرز سے معذرت کرادی مگرایک ویڈیوسوشل میڈیاپرہنگامہ آرائی کیلئے آئی اوراس میں کچھ ڈاکٹرز ایک دوسرے وکلاء کی نقل کرتے نظرآتے ہیں جس کے بعدوکلاء نے سمجھاہماری عزت خراب ہورہی ہے توانہوں نے نہ آؤدیکھانہ تاؤہسپتال پرہلہ بول دیااورمریضوں کے لواحقین سے ہاتھاپائی کی اورتوڑپھوڑ شروع کردی معاملہ اتنابڑھاکہ کچھ میڈیاوالے زخمی ہوئے تووزیراعلیٰ کی ہدایت پروزیراطلاعات فیاض الحسن چوہان آئے کہ معاملہ کورفع دفع کیاجائے مگروکلاء نے ان کی بھی اچھی خاصی عزت افزائی کی اوروہ بھی چلتے بنے۔
ذرائع کے مطابق 20کے قریب ڈاکٹرزاور40کے قریب وکلاء زخمی ہوئے اور6مریض اس انا کی جنگ میں اپنی زندگی کی بازی ہارگئے مگروزیراعظم نے صرف نوٹس لے لیاجس کے بعدوزیراعلیٰ نے کمیٹی بنادی اورمعاملات جوں کے توں اگررینجرصرف تعینات کے بجائے اسے حکم دیاجائے کہ ان کالے کوٹ میں چھپے ناسوروں کوملیامیٹ کریں تومیرے خیال سے 5منٹ میں شہرکلین اپ ہوجائے گامگرحکومت ایساکیوں کرے اس کی و جہ یہی ہے کہ وکلاء نے عام جج کومارا،چیف جسٹس کومارا،مریض کومارا،میڈیاکومارا، ڈاکٹرزکومارا،وزیراطلاعات کومارا،ہسپتال پرحملہ کیا، ایمرجنسی پرحملہ کیا،آئی سی یوپرحملہ کیامگروکیل کل بھی آزادتھے۔
آج بھی آزادہیں اوررہی مقدمے کی بات تووہ انہو ں نے خودلڑناہے قانون انہی کاعدالت انہی کی جج انہی کاوکیل بھی انہیں کے مگران کی جگہ استاد،کسان،مزدور،طلباء ہوتے تواب تک ان کے خلاف کریک ڈاؤن ہوچکاہوتااوروہ سلاخوں میں ہوتے۔اگرہم 2016کادن 22اگست یادکریں توہمیں یادہوگاجب ایم کیوں ایم نے ایک میڈیابلڈنگ پرتوڑپھوڑکی تھی تواسی رو کئی سو چھاپے مارکرہزاروں کی تعداد میں ایم کیوایم کوسمیٹ کے رکھ دیاتھامگریہ توچندوکلاء ہیں اگرقانون حرکت میں آئے توان دہشتگردوں کی حرکت قلب ہی بندہوجائے۔
حکومت کوچاہیے تویہ کہ وکلاء اورڈاکٹرزکی یونینزپرپابندی لگائی جائے کیونکہ یہ ادارے ملک کیلئے جتنافائدہ مندہیں اس سے کہیں زیادہ انکی یونینز ملک کیلئے بدنامی کاباعث بن رہی ہیں اس لیے انصاف حکومت کوایک مفت مشورہ ہے کہ انہیں ہمیشہ سنہرے لفظوں میں یادرکھاجائے تووکلاء اورڈاکٹرزکے خلاف کریک ڈاؤن کرکے ان کی یونینز پرمکمل پابندی لگائی جائے ورنہ آئے روز کے احتجاج سے عام عوام توپریشان ہوگی اس کے ساتھ کئی مریض اپنی موت کو گلے سے لگائیں گے اورملک دھرنوں کی لسٹ میں اول پوزیشن اپنے نام کرلے گا۔
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی