ایک ماہ گزرنے کے بعد بھی کالا خیل مائن نمبر 41 میں پھنسی نیک محمد کی لاش ریکور نہ ہوسکی جو کہ محکمہ معدنیات اور انسپکٹریٹ آف مائن کی کارگردگی پر سوالیہ نشان ہے کیا شانگلہ کی مائیں کوئلہ کانوں میں مرنے کیلئے بچے جنتی ہے؟
شانگلہ کے مکین ملک کے مختلف حصوں میں رزق حلال کمانے کیلئے ہزاروں فٹ گہری موت کی کالی کانوں میں مشقت کرکے بچوں کے پیٹ پالنے پر مجبور ہیں
ایک سروے کے مطابق ہر ہفتے میں کان کنی سے وابستہ افراد حادثے کے بھینٹ چڑھ رہے ہیں اور ان کی نعشیں بے یار و مدد گار شانگلہ پہنچائی جاتی ہے
انھوں نے کہا کہ چند سیاسی افراد سیاسی رسہ کشی اور سیاسی دکانیں چمکانیں کیلئے ایک دو دن وہاں پر ماتم ضرور مناتے ہیں
لیکن بعد میں اس کا سارا معاملہ سرد خانے کے نذر ہو جاتا ہے شانگلہ میں اس وقت ہزاروں بچے یتیم اور عورتیں بیواہ بن چکی ہے کوئلہ کی کان میں کام کرنے والے سینکڑوں افراد ایسے بھی ہے جو دوران کام ڈاٹ گرنے سے اپنی ریڑھ کی ہڈی کھو بیٹھتے ہیں
پھر نہ زندہ کہلایا جاسکتا ہے اور نہ مردہ کان کنی کے دوران مزدور پھیپھڑوں اور دوسرے مہلک بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں
اے وی پڑھو
خیبرپختونخوا کی بارہ سرکاری جامعات کو انتظامی اور مالی بحرانوں کا سامنا
75غیرقانونی قرضہ دینےوالی ایپس کاایک لاکھ لوگوں کیساتھ ایک ارب روپےکافراڈ
چوکیل بانڈہ: فطرت کے دلفریب رنگوں کی جادونگری||اکمل خان