نومبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ابہام کا راج ۔۔۔ محمود جان بابر

ہمیں کہا جاتا تھا کہ نوازشریف اورزرداری کے ضامن حکومت کو ان کی جگہ ادائیگی کے معاملے پرمطمئن کرچکے ہیں

نوازشریف عدالت اورحکومت  کی جانب سے ملنے والی اجازت کے بعد علاج کے لئے لندن پہنچ چکے ہیں اوراب خبرگرم ہے کہ وہاں کے ہسپتالوں میں بھی اس بیماری کا خاطرخواہ علاج نہیں جو انہیں لاحق ہے اوراب انہیں امریکہ لے جانا پڑے گا اس سے یہ بات تو ثابت ہوگئی ہے کہ صرف ہمارے حکمرانوں نے ہی اپنے ہاں وہ ہسپتال نہیں بنائے جہاں وہ بوقت ضرورت اپنا علاج کراسکیں بلکہ برطانوی حکومتیں بھی ایسے ہسپتال بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکیں جہاں پرہربیماری کا علاج ہوسکے ۔

خبر ہے تو منفی لیکن اس سے میاں نوازشریف جیسے لوگوں کے خلاف اس بیانیے کی پوزیشن کمزورہوئی ہے جس کے تحت انہیں ملک میں علاج کے لئے اچھے ہسپتال نہ بنانے کا ذمے دارٹھہرایا جاتا رہا ہے ۔

نوازشریف ملک سے جاچکے ہیں اورسابق صدر زرداری کے بارے میں بھی علاج کے لئے باہر جانے کی خبریں گرم ہیں نہ صرف خبریں گرم ہیں بلکہ وفاقی وزرا کی جانب سے اس معاملے پررضامندی کی خبریں بھی روزانہ میڈیا کی زینت بن رہی ہیں ، مریم نوازبھی بیرون ملک جانے کے لئے درخواست دینے کا فیصلہ کرچکی ہے ۔

یہاں پہنچ کر تو وہ سفر پورا ہوا جس کے بارے میں باربارکہا گیا تھا کہ یہ لوگ باہرجائیں گے اوراس کے بعد ملک ترقی کی پٹڑی پرچڑھ جائے گا یہ بھی کہا گیا تھا کہ یہ دونوں سابق حکمران خاندان لوٹی ہوئی رقوم کی واپسی کے لئے باضابطہ ضامن دے کر باہر جائیں گے اوراس کے بعدان کا واپس وطن لوٹنا شاید ممکن نہ ہو ۔

ابھی بات چیت ان دوخاندانوں کی چل رہی تھی کہ ایسے میں سب کے دوست ملک ریاض سے ایک بڑی رقم برآمد ہونے کی خبریں منظر عام پر آئیں تو حکومتی بیانیے کو تقویت ملی کہ یہ انہی ادائیگیوں کی کڑی ہے جن کے بارے میں حکومت کئی کئی بار اعلان کرچکی ہے ۔

ملک ریاض سے لندن میں وصولی سے ہ میں توقع تھی کہ حکومت اوربرسراقتدار تحریک انصاف سڑکوں پربھنگڑے ڈال کرلوگوں کو بتائے گی کہ لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کے حوالے سے ان کالوگوں سے کیا ہوا ایک وعدہ تو پورا ہوا لیکن قوم کو اس وقت جھٹکا لگا جب لوٹی ہوئی رقم کو واپس لانے کے ممکنہ دعویداراس رقم کا کریڈٹ لینے کی بجائے اس سے کنی کترا کرگذرنے لگے اورایسا لگا جیسے پوری حکومت کو سانپ سونگھ گیا ہے کابینہ اراکین کو اتنی بڑی رقم کا کریڈٹ لینے اورکوئی بیان دینے سے روک دیا گیا اس رقم کے پاکستان آنے کے آثارپیدا ہوئے تو ہ میں یہ امید ہوچلی کہ حکومت لوگوں کو اعتماد میں لے کر ابہام کو دور کرے گی لیکن حکومت کے ساتھ ساتھ ملک میں وہ تمام ادارے جو احتساب کے معاملے پرحکومت کا ساتھ دے رہے ہیں سب اس پرخاموش رہے.

انہوں نے بالکل ایسا ہی رویہ اختیار کیا جیسا کہ مسئلہ کشمیر کے معاملے پر حکومت کے مخالفین اسے مورد الزام ٹھہراتے ہیں کہ نہ ہماری حکومت آگے بڑھ رہی ہے نہ ہی پیچھے جارہی ہے ۔ وہ دوسری بات ہے کہ حکومت کشمیر کے معاملے کو اپنے بڑے مفاد اورفائدے کو نظر میں رکھتے ہوئے اس پر یہ رویہ اختیار کئے ہوئے ہے ۔

حکومت کہہ رہی ہے کہ اس کے فیصلوں ا ورپالیسیوں کی بدولت استحکام آچکا ہے اور ملکی معیشت سنبھل چکی ہے اوراب بس خوشخبریوں کا دورشروع ہونے والا ہے لیکن سمجھ نہیں آرہی کہ یہ بجلی کی قیمتوں میں بار بار اضافہ کیوں کیا جارہا ہے ، پچھلی حکومتوں پرپٹرولیم مصنوعات پربلاجوازٹیکسز لگانے کے الزامات لگانے والی موجودہ حکومت معیشت بہتر ہونے کے باوجود بھی خود ہرلیٹرپٹرول اورڈیزل پربھاری ٹیکسز کیوں وصول کررہی ہے ، سٹاک ایکسچیج کا گراف اوپر جارہا ہے لیکن ہم کو فوری ضروریات کے لئے ایشیائی ترقیاتی بنک سے ایمرجنسی کرائسز لون میں ایک ارب ڈالرقرضہ لینا پڑرہا ہے جس کی شرح سود کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دیگر قرضوں کے مقابلے میں زیادہ یعنی دوگنی ہوگی ۔

صورتحال کچھ سمجھ نہیں آرہی کہ ایک طرف زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوچکا ہے اوردوسری طرف حکومت پیسوں کے لئے پریشان بھی ہے ۔

ہمیں کہا جاتا تھا کہ نوازشریف اورزرداری کے ضامن حکومت کو ان کی جگہ ادائیگی کے معاملے پرمطمئن کرچکے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ خود عمران خان کے قریب تر سمجھنے والے شیخ رشید اس کی نفی کرکے کہتے ہیں کہ نواز شریف میں تو اتنی انسانیت بھی نہیں تھی کہ وہ جاتے جاتے کم ازکم کچھ توواپس کرکے جاتے ہاں انہوں نے حکومت کو کچھ دینے کے معاملے پرسابق صدرآصف زرداری کو زیادہ بہترانسان قراردیا اورتاثردیا کہ وہ کچھ دے کر ہی ملک سے جائیں گے ۔ جو بھی ہوحالات اورواقعات کی کڑیاں آپس میں نہیں مل رہیں اورنہ ہی معیشت کی بہتری کے حکومت کے نئے بیانیوں کو کسی جانب سے سپورٹ مل رہی ہے ۔

ہرطرف ابہام کا راج ہے حکومت ہی نہیں اپوزیشن کی جماعتوں کے رویے میں بھی کوئی دھماکہ خیز شفافیت نہیں بلکہ وہاں بھی بہت سارا ابہا م پایا جاتا ہے کسی بھی معاملے پرکوئی بھی اپنے موقف پرڈٹ کر نہیں کھڑا بلکہ جہاں بھی اپنا مفاد پورا ہوتا نظرآتا ہے وہاں پرپوری جماعت کا بیانیہ ہی فوراڈھے جاتاہے ۔

اسلام آباد کے حالیہ دھرنے میں اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو لانے والی جمعیت علما اسلام ف بھی خود کو کامیاب قراردیتے دیتے واپس گھروں کو سدھار چکی ہے اورکسی کو وجہ بھی سمجھ میں نہیں آرہی کہ اس نے آخر ایسا کیوں کیااس کے ناقد اوراپنے سب حیران ہیں اوراپنی محفلوں میں اس کے بارے میں کھل کر بات کرتے ہیں لیکن کسی کے پاس واضح کوئی لائحہ عمل یا جواب نہیں جو سارے معاملے سے دھول کو ہٹاسکے ۔

About The Author