بابا کو ڈرائیونگ کرنا نہیں آتی تھی۔ نیشنل بینک میں ملازم تھے۔ موٹرسائیکل کا لون ملنے کی شرط تھی کہ کاغذات دکھائیں۔ بابا نے خانیوال میں ایک پرانی ہونڈا موٹرسائیکل خرید لی۔ وہ ہمیشہ سائیکل موٹر کہتے تھے۔
بابا نے محلے کے کسی نوجوان سے کہا کہ انھیں موٹرسائیکل چلانا سکھائے۔ وہ انھیں گھر کے قریب میدان میں لے گیا۔ پتا نہیں کیوں بابا اس میدان کو چکر کہتے تھے۔ نوجوان نے ہرممکن کوشش کرلی، بابا سے موٹرسائیکل نہ چلی۔ پہلے گیئر میں ایک دم کلچ چھوڑ دیتے تھے۔ موٹرسائیکل اچھل کر بند ہوجاتی۔ آخر بابا نے موٹرسائیکل بیچ دی اور لون کھا پی گئے۔
مجھے پانچویں جماعت میں آنے کے بعد محلے کے دوست فرحتی نے سائیکل چلانا سکھائی۔ راؤ فرحت تحریک انصاف کا کارکن ہے اور شاید اب علاقے کا کونسلر بن گیا ہے۔ سائیکل سیکھتے ہوئے سب گرتے ہیں۔ میں بھی بار بار گرا اور گھٹنے بہت چھلے۔ چلانا سیکھ گیا تو آٹھ آنے گھنٹا پر کرائے کی سائیکل لاتا اور سڑک پر دوڑاتا پھرتا۔
چھٹی جماعت میں گورنمنٹ ہائی اسکول میں داخلہ ہوا جو دو کلومیٹر دور تھا۔ بابا نے میرے لیے 20 انچ کی نئی سائیکل خریدی۔ میرا قد چھوٹا تھا۔ وہ سائیکل چلا تو لیتا تھا لیکن اسے روکتے ہوئے پیر زمین پر نہیں پہنچتے تھے۔ میں نے بابا سے کہا کہ مجھے 16 انچ کی سائیکل لے لیں۔ خانیوال میں چھوٹی سائیکلیں نہیں ملتی تھیں۔ ملتان سے منگوانی پڑتی تھیں۔ بابا نے آرڈر دے دیا۔ سائیکل پہنچی تو وہ 14 انچ کی تھی۔ مجھے پسند نہیں آئی لیکن بابا نے کہا کہ اب یہی چلاؤ۔ پورے گورنمنٹ ہائی اسکول میں میری سائیکل سب سے چھوٹی تھی۔ سائیکل اسٹینڈ پر کھڑی کرتا تو سب دیکھ کر ہنستے۔
کراچی آنے کے بعد ہمارے مالک مکان کے بچوں صفدر اور غزنی کی سائیکلیں بہت چلائیں۔ صفدر کے پاس ریسنگ سائیکل تھی اور غزنی کے پاس پیکو۔ میں غزنی کی سائیکل ایک پہیے پر چلاتا اور صفدر کی سائیکل ہاتھ چھوڑ کر۔ عجیب احمقانہ شوق تھے۔
بابا اکثر کہتے تھے کہ بڑے شہر میں اپنی گاڑی ہونا بہت ضروری ہے۔ لیکن ان کے پاس کبھی اتنے پیسے نہیں ہوئے۔ میرے دوست شباہت نے مجھے موٹرسائیکل چلانا سکھائی۔ پھر پہلی ملازمت کی تنخواہ سے پیسے جمع کرکے اور کچھ پیسے بابا سے لے کر میں نے موٹرسائیکل خریدی۔ میں اسے بھی ایک پہیے پر اٹھا لیتا تھا اور ہائی وے پر ہاتھ چھوڑ کر چلاتا۔ آج سوچتا ہوں تو پھریری آجاتی ہے۔
گھر میں گاڑی نہیں تھی اس لیے ڈرائیونگ نہیں آتی تھی۔ سچ یہ ہے کہ جیو نے گاڑی دی تو میں نے ڈرائیونگ کرنا سیکھی۔ نارتھ ناظم آباد بلاک این میں ڈی سی آفس کے سامنے عزیز موٹر ڈرائیونگ اسکول اب بھی قائم ہے۔ عزیز بھائی دلچسپ آدمی ہیں۔ بہت باتیں کرتے ہیں۔ باوا آدم کے زمانے کی گاڑی میں ڈرائیونگ کرنا سکھاتے ہیں۔ ایم کیو ایم کے عاشق ہیں۔ کسی رہنما یا پارٹی سے متعلق کسی واقعے کا ذکر کریں اور کہانیاں سنیں۔
ان سے کلاسیں لینے کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ کرائے کی کار چلاکر ہاتھ صاف کرنا چاہیے۔ بیوی نے ہاں میں ہاں ملائی اور کہا کہ گاڑی دفتر لے جائیں۔ میں ہچکچا رہا تھا لیکن اس نے حوصلہ افزائی کی۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ اگر اس دن ہمت نہ کرتا تو آج بھی ڈر کے گاڑی چلاتا۔
اب دس گیارہ سال سے گاڑی چلا رہا ہوں۔ امریکا میں پہلی کوشش میں لائسنس لے لیا اور کینیڈا اور بوسٹن تک اپنی کار میں جاچکا ہوں۔
یہ سب کہانی اس لیے سنا رہا ہوں کہ میں نے 36 سال کی عمر میں پہلی بار کار چلائی تھی لیکن میرے بیٹے کو کل 16 سال کی عمر میں ڈرائیونگ پرمٹ مل گیا ہے۔
امریکی عجیب لوگ ہیں۔ ہائی اسکول میں بچوں کو اصرار کرکے ڈرائنگ کلاسز دلواتے ہیں۔ ورجینیا میں ساڑھے 15 سال کے بچے کو ڈرائیونگ پرمٹ مل جاتا ہے۔ نو دس مہینے گاڑی چلانے کے بعد مشروط لائسنس دے دیا جاتا ہے۔ یعنی اگر والدین اجازت دیں تو تنہا ڈرائیونگ کرسکتا ہے۔
اس سے پہلے اسکول میں ایک لیکچر ہوتا ہے جس کا سننا والدین کے لیے ضروری ہے۔ چند دن پہلے مجھے وہ لیکچر اٹینڈ کرنا پڑا کیونکہ اس کے بغیر حسین کو پرمٹ نہیں مل سکتا تھا۔
ایک ٹیچر نے بتایا کہ آپ کے بچے بڑے ہورہے ہیں۔ وہ ڈرائیونگ کرنا چاہیں گے۔ یہ لیکچر اس لیے ہے تاکہ بچے اور والدین سمجھ سکیں کہ ٹین ایجرز کی ڈرائیونگ کے کیا فائدے اور نقصانات ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ممکن ہے آج بچہ ڈرائیونگ میں دلچسپی نہ رکھتا ہو۔ لیکن جس دن اسے خیال آئے گا تو پھر 9 ماہ کے لیے لرنرز پرمٹ لینا پڑے گا۔ وہ مدت جتنی جلد شروع ہوجائے، اتنا اچھا ہے۔
لرنرز پرمٹ ملنے سے پہلے ضروری ہے کہ بچہ ایک پورا سیمسٹر ڈرائیونگ تھیوری کی کلاسز لے۔ پھر والدین کے ساتھ اس لیکچر میں شریک ہو۔ پھر ٹریفک نشانات اور معلومات کا ٹیسٹ پاس کرے۔
لرنرز پرمٹ ملنے کے بعد بچے کو آئندہ 9 ماہ کے دوران کم از کم 45 گھنٹے والد، والدہ یا کسی اور بالغ ڈرائیور کی موجودگی میں ڈرائیونگ کرنی پڑتی ہے۔ ان میں 15 گھنٹے رات کی ڈرائیونگ شامل ہونی چاہیے۔
مشروط لائسنس کی شرائط ہر ریاست میں مختلف ہوسکتی ہیں۔ ایک شرط ہے کہ رات بارہ سے صبح چار تک گاڑی نہیں چلائیں گے۔ ایک یہ کہ اکیس سال سے کم عمر کے ایک سے زیادہ مسافر نہیں ہوں گے۔ کیوں؟ اس لیے کہ وہ ضرور آپ کے دوست ہوں گے۔ زیادہ حادثات اس لیے ہوتے ہیں کہ ٹین ایجر دوست ایک گاڑی میں ہوتے ہیں اور غیر محتاط ڈرائیونگ کرتے ہیں۔
مجھے وہ دن یاد ہے جب حسین کو دو پہیوں والی سائیکل دلائی تھی۔ اسے پارک میں لے گیا تو وہ کسی کی مدد کے بغیر توازن قائم کرکے سائیکل چلانے لگا۔ میرا ایک دوست ساتھ تھا۔ اسے یقین نہ آیا کہ اس بچے نے پہلے کبھی سائیکل نہیں چلائی۔ حسین ایسا ہی باکمال بچہ ہے۔
کل ڈی ایم وی کی خاتون انسٹرکٹر نے حسین کو پرمٹ دیتے ہوئے مجھ سے کہا، مبارک ہو! آپ کو شوفر مل گیا۔ اب کہیں بھی جانا ہو، اس سے ڈرائیونگ کرائیں۔ خوشی خوشی گاڑی چلائے گا۔ میں نے ہنس کر کہا، شکریہ۔ حسین نے باہر نکل کر پہلا سوال کیا، اگلی سالگرہ پر آپ مجھے کون سی کار کا تحفہ دیں گے؟
ان سے کلاسیں لینے کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ کرائے کی کار چلاکر ہاتھ صاف کرنا چاہیے۔ بیوی نے ہاں میں ہاں ملائی اور کہا کہ گاڑی دفتر لے جائیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر