سرائیکی وسیب کے ضلع رحیم یار خان سےلاپتہ احمد مصطفیٰ کانجو کی والدہ وفات پا گئی ہیں۔
اہل علاقہ کا کہناہے کہ احمد مصطفیٰ کانجو اپنی بیوہ ماں کی اکلوتی اولاد اور واحد سہارا تھا۔ احمد مصطفے کانجو کو جنوری ٢٠١٩ میں اس کے گھر سے سادہ اور یونیفارم میں ملبوس اہل کاروں نے اٹھا لیا تھا۔
احمدمصطفے کانجو سوشل میڈیا پر اسٹیبلشمنٹ خاص طور پر کا سخت ناقد تھا. اور یہی اس کا قصور بنا.
احمد کی بیمار والدہ نے عدالت سے لے کر ہر فورم پر اپنے بیٹے کی بازیابی کے لئے کوشش کی لیکن کوئی بھی ادارہ ماننے کو تیار نہیں تھا کہ احمد ان کی تحویل میں ہے. بیچاری ماں دُہائیاں دیتے دیتے تھک گئی کہ کم از کم میرے بیٹے کا جرم تو بتا دو. اگر وہ مجرم ہے تو اسے عدالت میں پیش کر دو. بس ایک دفعہ مجھے بتا دو کہ میرا بیٹا کہاں ہے. لیکن بد قسمتی سے اسلامی جہموریہ پاکستان میں اس کی شنوائی نہ ہو سکی. اور نہ ہی اسے اپنا بیٹا واپس مل سکا۔
اہل خاندان کے مطابق احمد مصطفیٰ کانجو کی والدہ اپنے بیٹے کی جبری گمشدگی کے دکھ میں کچھ عرصہ سے شدید علیل تھیں. اور علالت میں زبان پر بس یہ ہی الفاظ تھے کہ احمد کا کچھ پتہ چلا. ماں بیٹے کی راہ تکتی اس کی جدائی کے دکھ میں اس جہان فانی سے رخصت ہو گئی. لیکن اس ماں کے دکھ ابھی مرنے کے بعد بھی ختم نہیں ہوئے.
اہل علاقہ نے مزید کہا کہ اس ماں کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا دکھ تو مرنے کے بعد پہنچے گا. جب اس کے جنازے کو اس کا اکلوتا بیٹا کندھا نہیں دے سکے گا.ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے. لیکن یہ کیسی ریاست ہے جس نے ایک بیمار بیوہ ماں سے اس کا جوان بیٹا اور واحد سہارا چھین لیا اور ایک بیٹے سے اس کی ماں چھین لی.
اے وی پڑھو
سیت پور کا دیوان اور کرکشیترا کا آشرم||ڈاکٹر سید عظیم شاہ بخاری
موہری سرائیکی تحریک دی کہاݨی…||ڈاکٹر احسن واگھا
محبوب تابش دے پرنے تے موہن بھگت دا گاون