نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

قمیض لاکر شلوار چھوڑ آئے؟ ۔۔۔ محمود جان بابر

معصوم ذہنوں کے ساتھ کتابوں میں نیکی کو اچھی چیز کے طورپرپڑھنے والے ہمارے بچے جارحانہ طرز میں ادا کی گئی گالیوں کا کیا کیا اثرلیں گے۔

مجھے بہت اچھی طرح یاد ہے کہ جب ہم چھوٹے ہوتے تھے تو ہمارے گھر کے بڑے خصوصا اماں مرحومہ ہماری زبان سے کوئی ناشائستہ لفظ نکلنے پرکانوں کو ہاتھ لگا کر ہمیں احساس دلاتیں کہ ہم نے کتنی بری بات کرلی ہے۔ ان جیسی ماوں کے سائے میں پلنے والی وہ نسل تو بڑی ہوگئی لیکن اس نسل یعنی ہمارے بچوں کو "قومی رہنماوں "ہی کے زبانوں سے گمراہ ہونے کا خطرہ لاحق ہے۔ وہ تو بھلا ہو ہمارے بڑوں کا اوراس وقت کی سیاسی قیادتوں کا کہ جیسے تیسے یہاں تک پہنچ ہی گئے لیکن میڈیا پرچلنے والی گالی زدہ تقاریرکو دیکھتے ہوئے میں وثوق سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہمارے بچے بھی ہم جیسے خوش قسمت نکلیں گے، نہیں معلوم کہ اخلاق باختگی کے اس مقابلے میں بچے اورخصوصا وہ نوجوان جو ان تقاریر کا اثرلیتے ہیں وہ اپنے آپ کو کیسے ان تقاریرکے اثرات سے محفوظ رکھ سکیں گے۔

گالیوں کے اس سلسلے کی پہلی قسط ماضی قریب میں علامہ خادم حسین رضوی نے ادا کی جنہوں نے فیض آباد دھرنے کے دوران اپنے کارکنوں کا خون گرم رکھنے کے لئے اپنی تقریروں میں ماں اوربہن سے منسلک گالیوں کا سہارا لیا اس دوران ایسی ایسی گالیاں سننے کو ملیں کہ اچھے خاصے برے اخلاق کے لوگوں نے بھی کانوں کو ہاتھ لگالئے۔

ایاک نعبد وایاک نستعین سے تقریرشروع کرنے والے وزیراعظم عمران خان نے اپنے دھرنے میں جس اندازتخاطب کو فروغ دیا وہ اوئے سے شروع ہوکر غدار، چور، ڈاکو، لٹیرے پر بھی بریک نہیں لگاتا تھا۔ ابھی تین چاردن پہلے ہی وزیراعظم نے میانوالی میں میاں نواز شریف کی بیماری کی رپورٹس پرشک کا اظہارکرتے ہوئے جوزبان استعمال کی اس کو اگر یہاں دہراونگا تو پھراس پر تنقیدکس منہ سے کرونگا۔مسلم لیگ ن کی مریم اورنگزیب اوراحسن اقبال نے گذشتہ تین دنوں میں وزیراعظم عمران خان کو میڈیا پرہی پاگل اورچورکہا ہے، مولانا فضل الرحمن کا دھرنے کے دوران اپنی بات میں زورپیدا کرنے کے لئے وزیراعظم کے لئے کہا گیا لفظ کمبخت یعنی منحوس بھی ایک طعنہ اوربرالفظ دونوں ہیں، یہ سب تو گرم سیاست کے کھلاڑی ہیں لیکن یہ سارے منظرنامے میں خاموشی کو ترجیح دینے والے جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کو کیا ہوگیاہے کہ سیاست میں تو خاموشی اورغیرجانبداری ہی کی پالیسی پرگامزن نظرآتے تھے لیکن خود کو مروجہ سیاست میں داخل کرنے کے لئے ایک مشروط فقرے میں شریف خاندان کے لئے چورٹبرکے الفاظ استعمال کئے حالانکہ وہ چاہتے توکوئی اچھی اورمحفوظ بات لے کر بھی میدان میں کود سکتے تھے۔

ان سارے مردوخواتین کی باتوں کو میڈیا مزے لے لے کر چلاتا ہے اورایک مقام پردی گئی گالی کیمروں کے ذریعے لوگوں کے بیڈرومز تک میں پہنچ جاتی ہے۔

یہ سارے حضرات لوٹی ہوئی ملکی دولت کو برآمد کرنے، اچھی طرز حکمرانی، شائستگی اوردوسروں سے بہتر کام کرنے کے نام پر سیاست کے میدان میں ہیں یہ سب خود کو بہترثابت کرنے کے لئے دوسرے پرتنقید کرتے ہیں اورلوگوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ ان کے مخالف سیاستدان پراعتمادکرنے کی بجائے ان کو اپنے ووٹ اوراقتدارسے نوازیں۔

عمران خان نے ملک سے لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے نام پراوئے، غدار، چوراورایسے دوسرے لفظ استعمال کئے اوریہ استعمال کرکے ہی لوگوں نے ان کو شاید پہلے سے زیادہ ووٹ دیے انہوں نے حکومت بنالی اوریوں اب انہیں ایک قدم آگے بڑھ کران کے نشانے پر میاں نواز شریف اورآصف علی زرداری سے چوری کی مبینہ رقم برآمد کرنی تھی لیکن قریبا ڈیڑھ سال کا عرصہ ہونے کے باوجود وہ کسی سے ریکوری تو کیا کرتے انہوں نے توحالات سے دلبرداشتہ ہوکر ہاتھ پیراورزبان ہی چھوڑدیے ہیں میرانہیں خیال کہ کسی اوروزیراعظم نے کبھی اپنے مخالفین کے خلاف ایسی زبان استعمال کی ہو۔ اس کا تو مطلب وہی ہواکہ جوکام کرنے بھیجا تھا وہ تو آپ سے ہونہ سکا اورجوکرکے آئے وہ بھی خراب کرآئے۔ یہ وہی والی بات ہے کہ قمیض لینے گئے تھے شلواربھی گنواآئے۔ بڑوں کے لئے تو کیا کچھ کما کرلاتے ہم تو بچوں کا اخلاق اورمستقبل تک داوپرلگا آئے۔

کیاکوئی مجھے سمجھا سکتا ہے کہ معصوم ذہنوں کے ساتھ کتابوں میں نیکی کو اچھی چیز کے طورپرپڑھنے والے ہمارے بچے جارحانہ طرز میں ادا کی گئی گالیوں کا کیا کیا اثرلیں گے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ پورے معاشرے پرگالی کلچر کا راج ہوتا نظرآرہا ہے ٹی وی اورمین سٹریم میڈیا سے ذرا سوشل میڈیا پرایک منٹ کے لئے نظرڈال لیں وہاں توراج ہی اپنے مخالفین کے کپڑے اتارنے اورگالیوں کا ہے، آخر یہ ہم کس قسم کامعاشرہ بنارہے ہیں۔معاشرے میں جس طرح عدم برداشت اورغصہ عروج پر ہے اس کا کوئی علاج نظرنہیں آرہا۔لکھ کر رکھ لیں کہ اس معاشرے میں کوئی بھی حزب اقتدار اورحزب مخالف کی جماعت حالات کو اس نہج پرلانے کی ذمے داری سے گلوخلاصی نہیں کرسکیں گی۔ لوگوں کو سطحی باتوں اورگالیوں سے تنگ کرنے والے ان رہنماوں کی حالت یہ ہوگئی ہے کہ ایک خاتون اپنے بچے کے ساتھ بازارمیں شاپنگ کررہی تھی کہ بچے نے کھلونا خریدنے کی ضد شروع کردی جس پرماں نے دکاندارسے کہا کہ وہ بچے کو خاموش کرانے کے لئے اس پرغصہ کرے دکاندارنے ماں اوربہن کے ناموں سے متعلق وہ گالیاں دینا شروع کردیں کہ خاتون نے خود بھی کانوں کو ہاتھ لگالئے اورکہا کہ بس رہنے دیں اب تو میں خود بھی ڈرگئی ہوں، یہی حالت عام آدمی کی بھی ہوتی جارہی ہے جواب حکومتوں اوراپوزیشن کی کارکردگی اوران کی زبانون پر موجود گالیوں سے تنگ آچکی ہے۔

About The Author