نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

قومی مفاد ۔۔۔گلزار احمد

چاچا خیردین کی اس خبر سے میرے پسینے چھوٹ گیے کیونکہ اب بات واپڈا کے ناجائیز جرمانوں اور بنوں سرکل کے ظلم وستم پر پہنچے گی

آجکل ٹی وی اخبارات پر جو خبریں نشر ہوتی اور چھپتی ہیں ہمارے گاٶں کی چونک پر بیٹھے ان پڑھ لوگ بالکل ان پر اعتبار نہیں کرتے ۔ان کو لاکھ سمجھاٶ کہ خبر دینے والا سچا اور کھرا اینکر ہے مگر ان کے دماغ کی سوئی الٹی چلتی ہے۔ آج ہمارے پاپولر اینکر صابر شاکر صاحب نے اپنے چینل پر خبر بریک کی کہ پاکستان میں اربوں ڈالر کے تیل اور گیس کے ذخائیر دریافت ہوے ہیں اور پاکستان جلد دولت سے مالا مال ہو جاے گا۔

میں نے یہ خوشخبری ماچے پر بریک کی تو یہ ان پڑھ میرا مذاق اڑا کر ہسنے لگے۔ کہنے لگے یار تم تو نرے بدھو ہو دو چار کلاسیں کیا پڑھ لیں تمھاری عقل ہی ماری گئی۔ میں نے ان کلیوالوں پر اپنی پروفیسری کا رعب جما کر کہا تم سب لوگ بے خبر ہو میری بات صحیح ہے۔پھر جیسے ملتان والے پروفیسر کو ہمارے معاشرے کے بگڑے امیرزادے طالب علم لڑکے چھڑی سے زور زور سے مار رہے ہیں اور وہ دہائی دے رہا ہے کہ میں کالج کا پروفیسر ہوں مگر طلبا اس کو یہ سن کر مزید مارنے لگے ۔

میرے گاوں والوں نے بھی میری پروفیسری کا سن کر مذید مذاق اڑایا۔ چاچا جمعہ خان کہنے لگا یہ صابر شاکر وہی نہیں جس نے کہا تھا نواز شریف اپنی رہائی کے بدلے پندرہ ارب ڈالر اور زرداری دس ارب ڈالر قومی خزانے میں جمع کرا رہے ہیں؟ ۔میں نے کہا بالکل وہی ہے۔

چاچا جمعہ نے کہا وہ رقم خزانے میں آ گئی؟ میں نے کہا نہیں ؟ اب چاچا جمعہ گرج کر بولا پھر تم اس کی بات پر کیوں اعتبار کرتے ہو؟ میں نے کہا صابر شاکر نے کہا کچھ دیر سویر تو ہو ہی جاتی ہے تو سارے ماچے کے لوگوں نے زوردار قہقہ لگا کر میری بات کی تردید اور چاچے جمعے کی تائید کر دی۔

اب چاچا اللہ ڈتہ نے چڑھائی کر دی وہ مجھے کہنے لگا وزیراعظم عمران خان نے خود سمندر سے تیل نکلنے کی خوشخبری نہیں سنائی تھی؟ میں نے کہا ہاں سنائی تھی ۔۔کہنے لگا وہ تیل نکلا ؟ میں نے کہا نہیں نکلا تو چاچا اللہ ڈتہ نے کہا پھر تم بدھو ہو کے نہیں؟

میں نے کہا یار وہ تیل ایک دن نکلے گا ضرور ۔۔تو انہوں نے کہا ہاں عوام پر مہنگائی اور۔ٹیکسوں کا بوجھ ڈال کر ہمارا تیل نکال دیا دراصل وزیراعظم کی خوشخبری کا یہ مطلب تھا۔

اب IMF کے حکم کے تحت بجلی کے ریٹ تین دفعہ اور گیس کے دو دفعہ بڑھا کر عوام کے خون کا پٹرول نکالا جا رہا ہے اور یہی صابر شاکر بتا رہا ہے یہ اربوں ڈالر کا تیل نکال کر IMF اور ورلڈ بنک کو دینا ہے۔

مجھے بڑا غصہ آیا میں نے ماچے والوں کو کہا تم لوگ کچھ نہیں جانتے ہماری معیشت بڑی ترقی کر رہی ورلڈ بنک اور IMF ہماری مضبوط معیشت کی تعریف کر رہے ہیں۔ چاچا فیضو مجھ پر گرجا ارے بھائی وہ تعریف کیوں نہ کر یں آپ نے راتوں رات ڈالر 120 سے 160 روپے کر دیا کبھی تاریخ میں ڈالر ایک دم 40 روپے بڑھا ؟

ان اداروں کے قرضے راتوں رات تین ھزار ارب روپے بڑھ گیے۔میں نے کیکولیٹر پر 100ارب ڈالر کو 40 روپے سے ضرب دی تو جواب چار ھزار ارب روپے آیا میں نے چپ سادھ لی کیونکہ تین ھزار ارب روپے والا فگر غلط تھا۔ پھر منشی خیردین نے سب کو اخبار سے ایک خبر پڑھ کر سنائی جس میں لکھا تھا کہ بجلی قیمتوں میں اضافے، لوڈ شیڈنگ اور کم وولٹیج کے خلاف خیبر پختونخوا اسمبلی میں تحریک التواء جمع کرادی گئی ہے ۔

صوبائی اسمبلی میں اے این پی کے پارلیمانی لیڈر سردار حسین بابک کی جانب سے جمع کرائی گئے تحریک التوامیں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ آئے روز بجلی کی قیمتوں میں اضافے نے صوبے کے عوام کو ذہنی مریض بنا دیا ہے دوسرے صوبوں میں پانی کے علاوہ دیگر ذرائع سے زیادہ پیداواری لاگت کے بجلی منصوبوں کا بوجھ بھی صوبے کے عوام پر ڈالا جا رہا ہے ۔

خیبرپختونخوا میں پانی سے 6ہزار میگاواٹ بجلی ایک یا ڈیڑھ روپے فی یونٹ کی پیداواری لاگت سے پیدا ہورہی ہے جبکہ ہمارے صوبے کی ضرورت تین ہزار میگاواٹ ہے لیکن ہمیں اپنی ضرورت سے بھی کم بجلی دی جارہی یہاں کے عوام کو ریلیف کی بجائے بار بار اور مسلسل سزا دی جارہی ہے ۔

چاچا خیردین کی اس خبر سے میرے پسینے چھوٹ گیے کیونکہ اب بات واپڈا کے ناجائیز جرمانوں اور بنوں سرکل کے ظلم وستم پر پہنچے گی ۔ میں نے کھسیانی بلی کی طرح کھمبہ نوچنے کی بجاۓ ہنسی ہنستے ہو ۓ کہا یار ملکی مفاد میں یہ سب کچھ ہو رہا ہے اتنے میں صوبت کا تھال ہمارے سامنے رکھ دیا گیا اور ہم صوبت کھانے لگے۔

About The Author