نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سرائیکی لوک سانجھ

متوازن وفاق اور وسائل پر اختیار کےلئے سرائیکی سرگرم کارکنوں اور طلبہ تنظیموں کی’ سرائیکی صوبہ ریلی کا انعقاد

مقررین نے کہا کہ سیاست اور معیشت میں پنجاب کا غلبہ نہ صرف سرائیکی لوگوں کے استحصال اور محرُومیوں کو بڑھا رہا ھے بلکہ پاکستان کے وفاق ِق کو بھی کمزور سے کمزور تر کررھا ھے

اسلام آباد: ملک میں ھونے والے حالیہ عام انتخابات سے تین ھفتے قبل سرائیکی کارکنوں اور طلباء نے سرائیکی قومی شناخت تسلیم کرنے اور سرائیکی صُوبہ کے قیام کے لئے اج یہاں ایک ریلی منعقد کی۔ ریلی کے شرکاء نے سرائیکی بولنے والے لوگوں کے ساتھ گذشتہ چھہتر سالوں سے ھونے والے استحصال اور زیادتیوں کے خاتمہ اورپاکستانی وفاق کو مضبُوط بنانے لئے سرائیکی صُوبہ کو ناگزیر قرار دیا۔ میلوڈی مارکیٹ )جی ِسکس مرکز( سے شروع اور ڈی چوک پر اختتام پانے والی سرائیکی صُوبہ ریلی کا انعقاد سرائیکی سٹُوڈینٹ االائینس اور سرائیکی صُوبہ سنگ کمیٹی کی طرف سے کیا گیا تھا۔ ریلی کے شرکاء نے ھاتھ میں کتبے اٹھا رکھے تھے جن پر سرائیکی صُوبہ اور سرائیکی قومی شناخت کے حوالے سے نعرے درج تھے۔ سرائیکی صُوبہ سنگ کمیٹی کے نمائیندہ صفدر کلاسرا نے کہا کہ تخت لہور گذشتہ کئی دہائیوں سے سرائیکی لوگوں کو ان کی اراضی، آبی اور دیگر وسائل سے محرُوم کر رہا ھے۔ ” ھماری ھزاروں ایکڑ رکھُوک )چراگاھیں( غیر مقامی لوگوں کو االٹ کی جارہی ھیں، نیشنل فنانس کمیشن میں سرائیکی وسیب کا سالانہ پانچ سو ارب روپے وسطی پنجاب کی ترقی پر خرچ کئے جارہے ھیں، اور سرائیکی وسیب کا نہری پانی وسطی پنجاب منتقل کیا جارہا ھے۔” قائد اعظم یُونیورسٹی کے طالب علم ارسلان نیازی نے کہا کہ: ” تخت پنجاب روزگار کی فراھمی میں سرائیکی نوجوانوں کے ساتھ زیادتیاں کررہا ھے، سرائیکی بچوں کوں ان کی مادری زبان میں پرائمری تعلیم سے محرُوم رکھا ھوا ھے، اور سرائیکی وسیب کو میڈیکل، انجنئیرنگ اور اعلی تعلیم کے دیگر اداروں سے محرُوم رکھا ھ ُوا ھے۔ لیہ سے تعلق رکھنے والے مزدور چاچا شفیع نے مزدوروں کی نمائندگی کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا اپنا صوبہ اپنے عالقے میں مقامی سطح پر روزگار کے مواقع پیدا کرے گا اور سرائیکی مزدوروں کو بھوک اور غربت کی وجہ سے ہزاروں کلومیٹر دور پردیس میں مزدوری اور جان جانے کے خطرے کا سامنا نہیں کرناپڑے گا۔ بارانی زرعی یُونیورسٹی کے طالبعلم ارسلا ن  منور نے کہا کہ اگرچہ سرائیکی وسیب زرعی پیداوار اور دیگر قدرتی وسائل میں ماال مال ھے تاھم وسطی پنجاب کی نسبت یہاں غربت، بے روزگاری اور پسماندگی کہیں زیادہ ھے، صحت اور تعلیم جیسی بنیادی سہُولیات نہ ھونے کے برابر ھیں، سڑکوں اور ذرائع امدورفت کی صُورتحال مخدوش ھے۔ قائد اعظم یونیورسٹی کی طالبہ، عدیسہ نیازی کا کہنا تھا کہ تاریخی وادی سندھ کا مرکز ہونے کے ناطے ہماری شناخت اور وسائل پر ہمارے اختیار کو تسلیم کیا جانا چاہیے۔ ہمیں ہمہ جہتی کی پالیسی سے نکل کر ملک کو ورثے میں ملنے والے تنوع کو تسلیم کرتے ہوئے آبڑچاہئے۔ ریلی کے دیگر مقررین میں مہر عاقب،  گرمانی، اسد جوتہ اور ملک اصغر شامل تھے۔ مقررین نے کہا کہ سیاست اور معیشت میں پنجاب کا غلبہ نہ صرف سرائیکی لوگوں کے استحصال اور محرُومیوں کو بڑھا رہا ھے بلکہ پاکستان کے وفاق ِق کو بھی کمزور سے کمزور تر کررھا ھے۔ لہذا سرائیکی صُوبہ کا قیام سرائیکی عوام کو انصاف کی فراھمی اور وفا پاکستان کی مضبُوطی کا ضامن ھوگا۔ انہوں نے مذید کہا کہ ائیندہ انتخابات میں سرائیکی عوام صرف سرائیکی صُوبہ کی حامی سیاسی پارٹیوں کو ووٹ دیں اور ان تمام سیاسی پارٹیوں کو مسترد کریں جو سرائیکی صُوبہ کی مخالف رہی ھیں۔ ریلی میں سرائیکی طلباء کے عالوہ، جڑواں شہر میں رھنے والی خواتین، صحافیوں، وکیلوں، شعراء، لکھاریوں، فنکاروں اور سیاسی کارکنوں کی ایک کثیر تعداد نے شرکت کی۔ واضح رھے کہ سرائیکی سٹوڈینٹ االائینس ملک کی مختلف یونیورسٹیوں میں قائم سرائیکی سٹوڈینٹ کونسلز کا مشترکہ پلیٹ فارم ھے جبکہ سرائیکی صُوبہ سنگ کمیٹی سرائیکی کارکنان کی ایک نمائیندہ تنظیم ھے۔

About The Author