محمد عامر خاکوانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی میں خواہشات تو بہت سی ہوتی ہیں۔ ایسی بھی جن کے بارے میں اچھی طرح علم ہوتا ہے کہ وہ شائد کبھی پوری نہ ہوسکیں۔ انہیں فہرست سے نکالنے کا دل ہی نہیں چاہتا۔گھر کی لائبریری میں رکھی ان کتابوں کی طرح جنہیں شائد اب پھر سے پڑھنے کا کبھی وقت نہ مل سکے، اس کے باوجود وہ کتب کسی کو دینے، خود سے جدا کرنے کی ہمت نہیں پڑتی۔ خواہشات اور تمنائوں کا معاملہ بھی ایسے ہی ہے۔ آدمی بعض خواہشیں اپنے دل کے نہاں خانوں میں چھپا کر رکھتاہے۔ اس امید پر کہ شائد وہ کبھی پوری ہوجائیں۔ کہتے ہیں خواتین کی وش لسٹ (Wish List)بڑی طویل ہوتی ہے۔خواہشیں مگر مردوں کی بھی ہوتی ہیں۔ فہرست مختصر سہی، ان کے دل میں بھی تمنائوں کے جگنو دمکتے ہیں۔ نوعیت، سطح اور صورت مختلف ہوسکتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ تین چار عشرے قبل سب رنگ ڈائجسٹ کے ایک شمارے کو پڑھ رہا تھا۔سب رنگ کے مدیر شکیل عادل زادہ کا ذاتی صفحہ مشہورہے، جس میں وہ اپنی سحرانگیر نثر میں پرچے کی تیاری اور تکمیل کا کچھ احوال بیان کرتے۔پوری طرح یاد تو نہیں کہ بہت پرانی بات ہے، مگر شکیل بھائی نے اس ذاتی صفحے میں کسی بزرگ سے ملاقات کا احوال لکھا یا کسی مزار پر حاضری کا بتایا، بہرحال انہوں نے یہ لکھا کہ ان بزرگ سے درخواست کی کہ وہ رب کریم سے دعا کریں کہ ان کی تحریر میں تاثر پیدا ہو۔ میں نے سکول کے زمانے میں وہ ڈائجسٹ پڑھا تھا ، تب حیرت سے سوچا کہ یہ کیا دعا مانگی گئی؟ شائد تیرہ چودہ سالہ لڑکے کے خیال میں زرومال یا شہرت یا کچھ اور بڑا مانگنا چاہیے تھا۔ برسوں بعد میں سوچا کہ شکیل عادل زادہ نے کمال دعا مانگی اور لگتا ہے قبولیت کا وقت تھا، قبول ہوئی اور کیا غضب کی تاثیر ان کی تحریر میں آئی۔ میرے جیسے ہزاروں لاکھوں لوگ ایسے ہیں جنہوں نے تیس چالیس پنتالیس سال قبل سب رنگ کا کوئی پرچہ پڑھا، اس میں کہانیوں پر لکھے تعارفی نوٹ یا شکیل عادل زادہ کے شاہکار ناول بازی گر کی قسط یا پھرایک اور ناول امربیل کی آخری قسطوں میں سے کچھ پڑھا اور وہ آج تک دل میں ترازو ہے۔ ہم وہ فسوں ساز تحریریں کبھی بھلا ہی نہیں سکے۔ شائد زندگی بھر ان کا نقش دل ودماغ پر ثبت رہے گا۔ ہمارے پیارے دوست رئوف کلاسرا اکثر یہ بات لکھتے ہیں کہ ان کی بڑی خواہش ہے کہ کتابوں میں زندگی بسر ہو اورکیا ہی خوب روزگار ہے کہ آدمی کتابوں کی دکان کھول لے، دن بھر ان میں بیٹھا رہے اور باذوق لوگوں کو کتابیں دیں، رزق کا ذریعہ بھی یہی ہو۔ سچی بات ہے کہ میرے جیسے لوگوں کی بھی یہی خواہش رہی کہ زندگی کا محور کتابیں ہوں۔ انہیں میں گھرے رہیں، انہیں میں سانس لیں اور ان کی خوبصورتی اپنے اندر اتار لیں۔ میں ایک زمانے میں لائبریرین حضرات کو رشک کی نظر سے دیکھا کرتا تھا۔جب کبھی لاہور کی قائداعظم لائبریری جانا ہوتا تو وہاں ریسرچر حضرات کو دیکھ کر بہت اچھا لگتا۔اب تو جانا نہیں ہوتا، مگر ایک زمانے میں قائداعظم لائبریری میںجا کر گھنٹوں بیٹھا کرتا۔ وہ گزرے حسین لمحات آج بھی یاد آتے ہیں۔ چند دن پہلے جہلم شہر کے ایک حسین ہال میں ہم لوگ ایک ایسے ہی شخص کی یادوں کا تذکرہ کرتے رہے جو زندگی بھر کتابوں میں گِھرا رہا۔ جس نے اسے اپنا روزگار بنایا۔ اچھی، معیاری اور خوبصورت کتابیں چھاپیں اور پڑھنے والوں کی تسکین کا بے بہا ساماں پیدا کیا۔ یہ بک کارنر جہلم کے بانی شاہد حمید تھے، تین سال پہلے وہ دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ان کے سعادت مند اوربلند اقبال بیٹوں گگن شاہد، امر شاہد نے اپنے والد کی یاد میں لکھی تحریروں کو اکھٹا کر کے ایک بہت ہی حسین کتاب ’’شاہد حمید ۔اے عشق ِجنوں پیشہ‘‘شائع کی۔ یہ شاہد حمید کے اشاعتی ادارے کی گولڈن جوبلی بھی تھی جسے جشن طلائی کا نام دیا گیا۔گولڈن جوبلی کی جگہ’’ جشن طلائی‘‘ کی اصطلاح مجھے تو اچھی لگی ۔ جہلم میں لاہور، اسلام آباد اور دیگر شہروں کے کئی ممتاز اہل قلم اکھٹے ہوئے، افتخار عارف، ہارون الرشید،انور مسعود، اظہار الحق ، ڈاکٹر شاہد صدیقی، راجہ انور، سلمیٰ اعوان،طاہرہ اقبال ،اسامہ صدیق،لینا حاشر، ڈاکٹر حنا جمشید،اشرف شریف اور کئی دیگر اصحاب۔ ہمارے پیارے دوست سرمد خان اس تقریب کے لئے دوبئی سے آئے ۔میں سرمد خان، اشرف شریف اور صابر بخاری کے ساتھ لاہور سے جہلم گیا۔ واپسی پر اگرچہ ڈاکٹر اظہارہاشمی اوریاردیرینہ کرامت بھٹی کے ساتھ سفر کا لطف اٹھایا۔ تقریب میں چند منٹ کی گفتگو خاکسار نے بھی کی۔ جہلم میں مقیم روحانی سکالر بابا عرفان الحق بھی اپنی علالت کے باوجود تشریف لائے، چیئرمین پیمرا سلیم بیگ بھی اچھا بولے۔ تقریب کی نظامت اخوت کے ڈائریکٹر اور پنجاب ٹرسٹ فار ڈس ایبل کے سربراہ ڈاکٹر اظہار ہاشمی نے کی۔ڈاکٹر اظہار ہاشمی بھی دیو ہزار دست سے کم نہیں، شب وروزبے شمار فلاحی کاموں میں جتے رہتے ہیں۔اخوت کے لئے بہت سا وقت صرف کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ لکھنے پڑھنے سے بھی شغف ہے، ان کا افسانوی مجموعہ’’ نیش ِعشق ‘‘دو سال قبل شائع ہوا اور اس میں کیا عمدہ افسانے لکھے ۔ اللہ اپنے پیارے بندوں کی صلاحیتوں کے ساتھ ان کے وقت میں بھی برکت ڈال دیتا ہے۔ ڈاکٹر اظہار نے تقریب کی نظامت بہت عمدہ کی۔اتنے بہت سے مقررین کو اتنے کم وقت میںسلیقے سے نمٹانا اور بروقت تقریب کا اختتام ڈاکٹر اظہار ہی کا کرشمہ ہوسکتا تھا۔ اس تقریب میں کتابوں کا تذکرہ ہوا،پبلشرز کی چیرہ دستی بھی زیربحث آئی اور شاہد حمید صاحب کی قائم کردہ مثبت اور روشن مثالیں بھی دی جاتی رہیں۔ شاہد حمید پر شائع ہونے والی کتاب میں نے پڑھی اور سچی بات ہے دل سے ان کے لئے دعائیں نکلیں۔ لاہور، اسلام آباد ، کراچی جیسے بڑے مراکز کی نسبت جہلم ایک چھوٹا شہر ہے۔ یہاں اس شہر کے پرانے بازار میں ایک چھوٹی سی دکان سے آغاز کرنے والے شاہد حمید نے جیسی بے پناہ محنت، لگن ، لگائو اور خلوص سے کتاب کو پھیلانے کے لئے کام کیا، وہ حیران کن ہے۔ایک نہیں ، کئی مقامی لوگوں نے گواہی دی کہ ان کا مقصد پیسوںکے حصول سے زیادہ کتاب کو پھیلانا اور فروغ دینا تھا۔ ڈاکٹر اظہار ہاشمی نے ایک عجب واقعہ سنایا۔ وہ ایف ایس سی پری میڈیکل کے طالب علم تھے، پڑھنے کا شوق تھا، شاہد حمید صاحب کی دکان پر بھٹو کی تصویر والے عید کارڈ لینے چلے گئے۔ ضیا دور تھا ، ایسے کارڈز پر پابندی تھی، ترقی پسند لٹریچر بھی نہیں ملتا تھا۔ ڈاکٹر اظہار کے دل میں تمنا تھی کہ کہیں سے کمیونزم کی مشہور کتاب کمیونسٹ مینی فیسٹو مل جائے ۔ شاہد حمید بھانپ گئے ، معلوم ہوا کہ لڑکا پری میڈیکل کا طالب علم ہے، انہوں نے صاف انکار کر دیا کہ کتاب میرے پاس ہے، مگر ابھی تمہیں نہیں دے سکتا۔ اظہار ہاشمی مایوس ہو کر واپس لوٹ گئے۔ امتحانات دینے کے بعد ایک بار پھر جانا ہوا۔ شاہد حمید پہچان گئے، پیپرز کا پوچھا، جب اندازہ ہوا کہ بہت اچھے ہوئے اور میڈیکل کالج جانے کے قوی امکانات ہیں توخوشی سے کھل اٹھے ۔ چپکے سے اٹھے اور ایک خاکی لفافے میں لپٹی کتاب لا کر اظہارہاشمی کے ہاتھ میں پکڑا دی۔ وہ مارکس اور اینگلز کی کتاب کمیونسٹ مینی فیسٹو ہی تھی۔ کہنے لگے اب آپ کے پاس وقت ہے، آرام سے پڑھیں۔ اسی طرح ایک بار حضرت علی ہجویری (داتا گنج بخش)کی شہرہ آفاق کتاب کشف المحجوب کا ایک نایاب ایڈیشن دیا۔ اظہار ہاشمی نے پیسے نہ ہونے کا عذر کیا تو مسکرا کر بولے، کتاب آپ کے لئے ہی تھی، آپ تک پہنچ گئی۔ پیسے بھی آ ہی جائیں گے۔ ’’شاہد حمید، اے عشق جنوں پیشہ ‘‘ کے بیک فلیپ پر شکیل عادل زادہ کی تحریر شامل ہے۔ شکیل بھائی لکھتے ہیں:’’جسمی وجود ایک بڑی حقیقت ہے ، لیکن بہت بے ثبات، ناپائیدار اور عارضی۔ اصل تو وہی کچھ ہے جو جسمی وجود کی نابودی کے بعد بھی برقرار رہے۔ مستقل پردہ کر لینے اور کبھی نہ واپس آنے والے آدمی کے نقوش، اس کا سایہ ، اس کے ثمرات۔ شاہد حمید کا شمار بھی ان نادر ونایاب لوگوں میں ہوتا ہے ۔مختصر دکان سے ایک قابل رشک، مثال آفریں اشاعتی مرکز ، نصف صدی کی ریاضت کا حاصل ہے ۔ اس ریاضت میں ہمت واستقامت ، محنت ومشقت ہی نہیں دیانت، جذبہ وجنوں ، جودت طبع اور ندرت فکر بھی شامل ہے۔ جو شخص ان سارے اوصاف سے متصف وممیز تھا ، اس کانام شاہد حمید تھا۔ نادرہ کار شاہد حمید کی روح پرفتوح یقینا طمانیت اور آسودگی سے سرشار ہوگی کہ اس کے ہم نفس، ہما شعار بیٹوں گگن اور امر نے ادارے کو مزید وسعت دی ہے، ان دونوں کے روز وشب کا وظیفہ اپنے گرامی قدر والد کے نقوش قدم کی عمل پیرائی ہے۔ ‘‘ میں تقریب میں بیٹھا سوچتا رہا کہ جناب شکیل عادل زادہ کی طرح خوش بخت شاہد حمید نے بھی کسی قبولیت کے لمحے میں کتابوںمیں گھری زندگی بسر کرنے اور کتابوں کے ذریعے ہی ممتاز ، منفرد اور ممیز ہونے کی تمنا کی ہوگی۔ قبولیت کی گھڑی ہوگی۔قدرت نے وہ دعا قبول کر لی۔
(روزنامہ نائنٹی ٹو نیوز )
یہ بھی پڑھیے:
عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر