اکتوبر 30, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ماں کی زندگی بچائیں یا بچے کی؟!||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

’شاباش، ہیلپ سنڈروم میں ہمیشہ ماں کی زندگی کے بارے میں سوچا جاتا ہے۔ اگر ماں زندہ رہے گی تو بچے بہت۔ لیکن اگر ماں ہی چل بسے تو ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا‘ ، ہم نے کچھ اداس ہو کر کہا۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فائنل ائر کے طلبہ ہمارے لیکچر کے انتظار میں تھے لیکن لیکچر دینا ہمیں پسند نہیں تو ہم نے اپنے پسندیدہ انداز سے ٹیچنگ شروع کی۔

’ 28 سالہ ایک مریضہ اسپتال آتی ہے جو کہ 32 ہفتے کی حاملہ ہے۔ پچھلے تین دن سے اسے سر میں شدید درد ہے اور چکر بھی آ رہے ہیں۔ ڈیوٹی ڈاکٹر آپ ہیں، بتائیے آپ کیا کریں گے؟‘

لیجیے جناب، ہمارا یہ پوچھنا تھا کہ آنے لگے دھڑا دھڑ جواب میں چھپے سوالات۔
’سر درد پورے سر کا ہے یا آدھے سر کا؟‘
’کیا پہلے بھی ایسا درد ہوا؟‘
’خاندان میں ایسے سر درد کی ہسٹری موجود ہے کیا؟‘
’کیا دوا لی ہے اب تک؟‘
’سر کا ایم آر آئی کروایا کہ نہیں؟‘
’کیا جسم میں کوئی حصہ ایسا ہے جو نم ہو گیا ہو؟‘
’درد آنکھوں میں بھی ہے یا نہیں؟‘
’تین دن سے مسلسل؟ یعنی کوئی وقفہ نہیں؟‘
اگر 32 ہفتے کی حاملہ خاتون سردرد کی شکایت لے کر اسپتال جائے تو ڈاکٹر کو کیا کرنا چاہیے؟

ہم سب سوالات کے نفی میں جواب دیتے رہے اور جب سب کی زنبیل میں سوال ختم ہو گئے تب ہم نے پوچھا کہ کیا سر درد کا حمل سے کوئی تعلق ہو سکتا ہے؟ جس پر جواب آیا ’جی، مائیگرین تو عام ہے حمل کے دوران‘ ، اور اس سے ملی جلی آوازیں آئیں۔

’پھر؟‘ ہم نے پوچھا۔ سب خاموش رہے۔ ’کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کی جگہ میں ہوتی تو کیا کرتی؟ میں مریض کا بلڈپریشر چیک کرتی‘ ۔

’اوہ۔ یس۔ جی۔ جی۔‘
’اب آپ پوچھیں کہ کتنا بلڈ پریشر تھا مریض کا؟‘ ہم نے کہا۔
’جی بتائیے‘ ۔
’ 170 / 100۔ اب بتائیے، کون سا ٹیسٹ کریں گے فوراً؟‘ ہم نے پوچھا۔
’پیشاب میں پروٹین نکل رہا ہے کہ نہیں؟‘ سب بیک زبان ہو کر بولے۔
یہ سن کر ہم مسکرا دیے کیونکہ اب وہ سب تشخیص کے قریب پہنچ چکے تھے۔
’اچھا چلو فرض کرو کہ پیشاب میں چربی تھری پلس ہے۔ اب کیا کرو گے؟‘
’بلڈ پریشر کی دوا دیں گے اور مزید ٹیسٹ کروائیں گے‘ ، جواب ملا۔
’اس سے پہلے ایک نہایت ضروری کام‘ ، ہم نے پھر امتحان لیا۔ سب چپ ہو کر سوچ میں پڑ گئے۔
’ارے بھئی، مریض کو اسپتال میں داخل نہیں کرو گے کیا؟‘ ہم نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’جی۔ جی۔‘ ، سب ہنس پڑے۔

’اچھا یہ تو آپ نے بتا دیا کہ بلڈ پریشر کی دوا دو گے اور مزید بلڈ ٹیسٹ بھیجو گے۔ فرض کرو کہ بلڈ ٹیسٹ کا نتیجہ نکل آیا ہے۔ خون میں پائے جانے والے پلیٹلیٹس کم ہیں۔ (جی وہی مشہور عالم پلیٹلیٹس جو نواز شریف کی پراسرار بیماری میں سامنے آئے تھے ) اور جگر میں بننے والا ایک انزائم زیادہ ہے، اب بتاؤ کیا کرو گے؟‘

اشارے اس قدر واضح تھے کہ اب سب چیخ اٹھے۔ ’یہ ہیلپ سنڈروم ہے‘ ۔
اگر حاملہ خاتون کے پلیٹلیٹس کم ہیں تو اسے ہیلپ سینڈروم ہونے کا خدشہ ہوتا ہے
’واہ واہ۔ کتنی جلدی تشخیص کرلی تم لوگوں نے‘ ، ہماری بات سن کر طلبہ ہنس پڑے۔
ایک شوخ نے مسکرا کر کہا، ’آپ باتوں میں لگا کر یہاں تک لے آئی ہیں‘ ۔
’چلو یونہی سہی۔ یہ میرا پڑھانے کا اسٹائل ہے مگر سمجھ تو آ گیا نا؟‘
’جی بالکل، بہت اچھی طرح۔‘ بیک وقت سب بولے۔
’اچھا اب بتاؤ، حمل 32 ہفتے کا ہے یعنی 8 ویں مہینے کی ابتدا ہوئی ہے۔ بتاؤ کیا کرو گے؟‘
سب گہری سوچ میں ڈوب گئے کیونکہ ایک طرف ہیلپ سنڈروم تھا تو دوسری طرف ساڑھے سات ماہ کا بچہ۔ کیا کریں؟
’بلڈ بینک سے پلیٹلیٹس منگوائیں اور لگائیں‘ ، ایک آواز آئی۔
’اس سے کیا ہو گا؟‘ ہم نے پوچھا۔ ’پلیٹلیٹس زیادہ ہو جائیں گے‘ ، جواب آیا۔

’مگر جو عمل جسم کے اندر ان پلیٹلیٹس کو تباہ کر رہا ہے وہ تو موجود رہے گا۔ وہ نئے پلیٹلیٹس کو بھی تباہ کردے گا‘ ، ہم نے جواب دیا۔ ہمارا اعتراض درست تھا تو سب پھر سے سوچنے لگے۔

’ہم مریض کو داخل رکھیں گے اور بلڈ پریشر کم کرنے کی دوائیں دیں گے‘ ، ایک طرف سے آواز آئی۔
’کتنا عرصہ؟‘ ہم نے پوچھا۔ ’ایک مہینہ اور۔‘ جواب آیا۔
’اس ایک مہینے میں ہیلپ سنڈروم کیا چپ کر کے بیٹھا رہے گا‘ ، ہم نے پوچھا۔
اگر حاملہ کو برین ہیمرج ہونے کا خدشہ ہو تو ایسے میں ڈیلیوری کروا لینی چاہیے
’اچھا یہ بتاؤ کہ جگر جو انزائم زیادہ بنا رہا ہے، اس کا کیا کریں؟‘ ہم نے پوچھا۔
ہمارے اس سوال پر پھر خاموشی چھا گئی۔
’اور وہ جو گردوں سے تھری پلس پروٹین نکل رہا ہے۔ اس کا کیا کرنا ہے؟‘
خاموشی۔

’چلو یہ بتاؤ کہ اگر پلیٹلیٹس کم ہوں اور بلڈ پریشر زیادہ ہو تو کس بات کا خطرہ ہوتا ہے‘ ، ہم نے پوچھا۔

’برین ہیمرج کا۔‘ سب اونچی آواز میں بولے۔

’اب سوچو کہ ایک حاملہ عورت ہے جس کو ایسی بیماری ہو گئی ہے کہ برین ہیمرج کا خطرہ ہے تو ایسے میں کیا کرو گے؟‘ ہم نے بات آسان کر کے پوچھا۔

’ڈلیوری کروائیں گے‘ ، سب چیخے۔

’شاباش، ہیلپ سنڈروم میں ہمیشہ ماں کی زندگی کے بارے میں سوچا جاتا ہے۔ اگر ماں زندہ رہے گی تو بچے بہت۔ لیکن اگر ماں ہی چل بسے تو ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا‘ ، ہم نے کچھ اداس ہو کر کہا۔

’اگلا سوال یہ ہے کہ بچہ کیسے ڈیلیور کروانا ہے؟ ویجائنل یا سیزیرین؟‘
کچھ لوگوں نے ویجائنل کے حق میں ووٹ ڈالا اور کچھ نے سیزیرین کے لیے اور اب سب ہماری طرف دیکھ رہے تھے۔

’دیکھو اس میں وقت قیمتی ہے۔ ماں کے جسم کے اندر خطرناک بیماری ہے جس کا واحد حل یہی ہے کہ بچے کو اس کے جسم سے نکال لیا جائے۔ بچے کے نکلتے ہی ہیلپ سنڈروم اپنے آپ ہی ختم ہونا شروع ہو جائے گا اور ماں صحت یابی کی طرف گامزن ہو جائے گی۔ سو کرنا یہ ہے کہ حساب لگاؤ جلد از جلد کیسے بچہ ڈیلیور کروا سکتے ہو؟ اگر درد نہیں تو مصنوعی درد شروع کروانے میں بہت دیر لگ سکتی ہے۔ سو ماں کی زندگی بچانے کے لیے ضروری ہے کہ بچہ پیدا کروا لیا جائے‘ ۔

’کیا بچہ زندہ رہے گا؟‘ ہماری بات سن کر ایک طالبہ نے سوال کیا۔

’ 32 ہفتے بعد بچے کا وزن پونے دو کلو تک ہونا چاہیے۔ ترقی یافتہ ممالک میں ایک کلو بلکہ پونے کلو کا بچہ بھی بچایا جاتا ہے۔ البتہ ترقی پذیر ممالک کی کہانی مختلف ہے‘ ، ہم نے کہا۔

ماں بچائیں یا بچہ؟ یہ سوال ڈراموں میں پوچھے جاتے ہیں حقیقی زندگی میں نہیں

قارئین دیکھا آپ نے کہ ہم نے بات سر درد اور حمل سے شروع کی لیکن زیادہ تر طلبہ نے حمل کی طرف دھیان دینے کی بجائے سر درد کی وجوہات ڈھونڈنی شروع کر دیں جبکہ ہمیں اس مسئلے کا سراغ لگانا تھا جس میں سر درد کے ساتھ حمل ہو اور پھر بات بلڈ پریشر کی طرف چلے۔

عنوان سوچتے ہوئے ہمیں وہ سب ڈرامے یاد آ گئے جن میں پوچھا جاتا ہے ماں بچائیں یا بچہ؟ ایسا کہیں نہیں ہوتا۔ نہ یہ سوال پوچھا جاتا ہے اور نہ ہی رشتے داروں کی طرف سے ملنے والی ایسی کسی ہدایت پر عمل کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹری کی سائنس کے مطابق ماں کی زندگی کو ہمیشہ فوقیت دی جاتی ہے، بچے کو نہیں۔

مگر یہ وہ کیا جانیں جو سائنس کو ہی نہیں مانتے۔ سوچیے کہ ان کے گھر کی عورت کیا کسی اسپتال تک پہنچتی ہوگی جن کا خیال ہی یہ ہے کہ زچگی سے گزرنا کوئی بڑی بات نہیں۔

ہیلپ سنڈروم کے بارے میں باقی آئندہ۔

بشکریہ ڈان

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

About The Author