ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہانی اور کرداروں کے بعد ضروری ہے کہ مصنفہ کے تھیسس پر بات کی جائے اور یہ تھیسس ایک نہیں کئی ہیں۔
حلال و حرام، سماجی طبقات، وفا اور بے وفائی، جنس اور کردار، آزادیِ نسواں کی خرابیاں، گدھ کی مردار کھانے کی خصلت، حرام و حلال اور پاگل پن کا فلسفہ، جینی ٹیکس، ماڈرن تعلیم یافتہ عورت کی بے چارگی، اپّر کلاس کی ناکامی، مڈل کلاس عورت کی وفا، طوائف کا حرام رزق، شادی، روحانیت، وغیرہ وغیرہ۔
اگرچہ ہمارا بنیادی موضوع ناول میں تانیثیت یا ان معنوں میں ناول کا تانیثی مطالعہ ہے کہ ناول نگار نسوانی کرداروں کو کس کس تناظر میں اور کیسے کیسے دکھاتے، انہیں کیسی کیسی آزادی دیتے ہیں اور وہ کردار خود کتنی اور کیسی کیسی اور کیسے کیسے آزادی لیتے ہیں؟
لیکن ناول کے دوسرے پہلوؤں کو سامنے رکھے بغیر شاید اس کے تانیثی پہلو کو سمجھنے کی منصفانہ کوشش نہیں کی جا سکتی۔ راجہ گدھ میں مصنفہ کے تخلیق کردہ ڈھیروں نسوانی کرداروں کا جائزہ اور ان کو سمجھنے کی کوشش ہی کسی نہ کسی حد تک معاشرتی تفہیم میں مدد گار ہو سکتی ہے۔
کوئی بھی کردار تخلیق کرتے ہوئے ناول نگار ان کا گاڈ فادر تو ہوتا ہی ہے اور اپنے تھیسس کو پیش کرنے کے لئے وہ ان کرداروں سے کٹھ پتلی جیسا کام بھی لیتا ہے۔ لے پاتا ہے یا نہیں لیکن کوشش پوری کرتا ہے۔ لیکن ایک بات وہ بھول جاتا ہے کہ کردار ایک مقام پر پہنچ کر کٹھ پتلی نہیں رہتے بلکہ کنٹرول اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے قاری کو وہ معنی سمجھا دیتے ہیں جو شاید مصنف پہ بھی منکشف نہیں ہوتے۔
راجہ گدھ کے نسوانی کرداروں کو دیکھنے کی کوشش جس تناظر میں ہم کر رہے ہیں ہمیں یقین ہے کہ بانو قدسیہ موجود ہوتیں تو انہیں پہچاننے سے ہی انکار کر دیتیں۔
چلیے ملتے ہیں ان سے :
سیمی؛
سیمی کا کردار بنایا گیا ہے ایک اعلی طبقے سے تعلق رکھنے والی ناخوش اور بگڑی ہوئی لڑکی کا جسے محبت میں ہارنے کے بعد مایوسی کی حالت میں خود کشی کرنا پڑی۔ بیچ کے عرصے میں قیوم سے اس کا جنسی تعلق بنا اور وہ گدھ بننے کی پہلی سیڑھی پر چڑھا۔ ایسا لگتا ہے کہ سیمی کے ہاتھ میں وکٹم کارڈ پکڑا کر جو تانا بانا بُنا گیا وہ قیوم کو راجہ گدھ کے مرتبے پر فائز کرنے کے لئے ضروری تھا۔
لیکن سیمی کا کردار کچھ اور بھی کہتا ہے ؛
سیمی ایک آزاد خیال گھرانے سے تعلق رکھنے کی بنا پر اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کی عادی ہے۔ ماڈرن ملبوسات پہنتی ہے۔ صنفی برابری پر یقین رکھتے ہوئے سب طلبا و طالبات سے برابر کی دوستی کرتی ہے۔ با اعتماد، اپنی بات علی الاعلان کہہ دینے کی عادی، سوشل نارمز یا مڈل کلاس نارمز کو کسی خاطر میں نہ لانے والی۔ سوشل ٹیبوز اور کنٹرو ورشل اشوز پر بڑھ چڑھ کر بات کرنے والی سیمی کو آفتاب اچھا لگا تو اس نے کسی سے بھی اپنی پسندیدگی کو چھپانے کی کوشش نہیں کی۔
”ہر زبان پر سیمی اور آفتاب کا سکینڈل تھا اتنی جلدی اس قدر دیدہ دلیری اور اپنائیت سے کوئی طالب علم کسی لڑکی کی طرف بڑھنے کی جرات نہیں کر سکتا۔“
جملہ ہم مکمل کر دیتے ہیں جب تک کہ لڑکی کی رضا شامل نہ ہو۔
سیمی آفتاب کے ساتھ وقت گزارتی، اکٹھے کھاتی پیتی اور اس کی موٹر سائیکل پر گھومتی۔ اس عرصے میں وہ کہیں بھی معاشرے سے خوفزدہ اور گھبرائی ہوئی نظر نہیں آتی۔ ماں باپ کی سرزنش یا ناراضگی کا کوئی بھی خیال اس کے پاس نہیں پھٹکتا۔ یہ ایک ایسی لڑکی کا کردار نظر آتا ہے جو با اعتماد، ذہین اور اپنے فیصلے خود کرنے کی عادی ہے۔
دوسری طرف آفتاب ؛
”اسے ایک ٹاپک پر عبور حاصل تھا اور اس پر بھی وہ صرف امجد سے ہی باتیں کرتا تھا۔ لڑکیوں کی باتیں شروع کرتا تو کرتا ہی چلا جاتا اور کبھی نہ تھکتا۔ وہ ہر ڈے سکالر لڑکی کے گھر کا اتا پتہ اور خاندان جانتا تھا، بل کہ لڑکیوں کا مکمل انسائیکلو پیڈیا تھا۔ حالانکہ نہ تو کلاس میں، نہ ہی کبھی کلاس سے باہر کسی نے اسے کسی لڑکی سے بات کرتے دیکھا تھا۔ وہ ہمیشہ کچھ فاصلے سے رہتا لیکن اس کے باوجود ساری انفرمیشن اس تک پہنچ جاتی تھی۔“
قاری کے لئے سمجھنا مشکل نہیں کہ کہ آفتاب کی فطرت کا جھکاؤ لڑکیوں کی طرف ہے۔ دوسرے الفاظ میں اسے فلرٹ کہا جا سکتا ہے۔ سیمی سے محبت کا دعوی تو کرتا ہے لیکن شادی کے لئے اسے اپنی ماں اور خاندان کی اجازت چاہیے۔ وہ سیمی کو ان سے ملوانے لے جاتا ہے لیکن ماں سیمی کو رد کر دیتی ہے۔ امجد قیوم کو اطلاع دیتا ہے۔
”یار آفتاب تو سیمی کو اپنی ماں سے ملوانے لے گیا تھا لیکن ”بڈھی کشمیرن“ نے پسند نہیں کیا سیمی کو“
آفتاب چونکہ فلرٹ ہے سو اپنی ماں کے سامنے مزاحمت نہیں کرتا اور قیوم کے سامنے سیمی کی محبت سے دستبردار ہوتے ہوئے کہتا ہے۔
”عجیب بات ہے کچھ لوگوں کو پائیدار محبت کا بہت شوق ہوتا ہے خاص طور پر لڑکیوں کو۔“ وہ سر کھجلا کر بولا، وہ شاید سیمی کا نام لینا چاہتا تھا۔
”ایسے لوگوں کو وہم ہوتا ہے کہ وہ ہمیشہ جوان رہیں گے ہمیشہ محبت کر سکیں گے۔ ان لڑکیوں کے دماغ میں اس قدر بھوسہ کیوں بھرا ہوتا ہے؟“
دیکھیے کس قدر بے حسی سے آفتاب سیمی کے جذبات کو اپنے تجزیے کی چھلنی سے گزار کر ارزاں کرتا ہے۔ یہاں قاری سمجھنے سے قاصر ہے کہ آفتاب کے نزدیک پائیدار محبت کس چڑیا کا نام ہے؟
یہ بھی پڑھیے
ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر