رؤف کلاسرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج کل سوشل میڈیا پر نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ اور لمز کے طالب علموں کے درمیان ہونیوالے زبانی کلامی دنگل پر زور و شور سے بحث جاری ہے کہ یہ دنگل کون جیتا۔ کس نے کس کو چاروں شانے چت کیا۔ طالب علموں کے سوالات نے نگران وزیراعظم کو بے بس کر دیا یا پھر کاکڑ صاحب نے ایسے ٹھوک بجا کر جوابات دیے کہ بچوں کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ اب کیا کریں۔ کاکڑ صاحب سے میری وزیراعظم بننے سے پہلے کئی ملاقاتیں ہیں۔ نگران وزیراعظم بننے کے بعد بھی دیگر اینکرز کے ہمراہ ان سے ایک طویل نشست ہو چکی ہے۔ صحافیوں کے سوالات ختم ہو گئے لیکن ان کے جوابات جاری تھے۔ وہ تین گھنٹے تک نہیں تھکے۔
یہ میرے لیے ان کا نیا روپ تھا۔ سینیٹ کی کمیٹیوں میں اکثر انہیں سنا تھا۔ ٹھوک بجا کر بات کرنے کے عادی ہیں۔ ان کے نزدیک کوئی چیز سفید ہے یا سیاہ‘ وہ درمیانی بات نہیں کرتے۔ ڈپلومیسی ان کی سرشت میں نہیں۔ وہ جیسے ہیں ویسے ہی نظر آتے ہیں اور وہی بات کرتے ہیں جو ان کا خیال ہے کہ کرنی چاہیے۔ اس لیے کمیٹی اجلاسوں میں ان کے کئی دفعہ سینیٹرز کیساتھ شاؤٹنگ میچ تک ہوتے رہے ہیں بلکہ جب ہم اینکرز سے ان کی گفتگو ہو رہی تھی تو انہوں نے سعدیہ عباسی صاحبہ کیساتھ کچھ ماہ قبل سینیٹ کی فنانس کمیٹی میں ہونے والی تکرار کا ذکر کیا تو میری طرف دیکھ کر کہا رؤف کلاسرا گواہ ہیں‘ یہ بھی وہاں موجود تھے۔ آپ یہ سمجھ لیں جو بات ان کے دل میں ہے‘ وہی زبان پر ہے۔ ان میں منافقت نظر نہیں آتی کہ سوچو کچھ اور‘ کہو کچھ اور۔ دوسرے میں نے اس ملاقات میں نوٹ کیا تھا کہ ان کے پاس نالج بہت ہے۔ میں نے میاں نواز شریف‘ ظفراللہ جمالی‘ شوکت عزیز‘ شجاعت حسین‘ یوسف رضا گیلانی‘ راجہ پرویز اشرف‘ شہباز شریف‘ شاہد خاقان عباسی اور عمران خان تک‘ سب وزرائے اعظم کیساتھ ایسی ملاقاتیں دیگر صحافیوں کیساتھ اٹینڈ کی ہیں لیکن ایسا کوئی وزیراعظم نہ تھا جس نے مسلسل تین گھنٹوں تک صحافیوں کے تابڑ توڑ سوالات کے جواباب دلائل کیساتھ دیے ہوں۔ کاکڑ صاحب کی عالمی اور پاکستانی موضوعات پر گرفت سابقہ تمام وزرائے اعظم سے بہت بہتر ہے۔ ان سے بات کر کے لگتا ہے کہ ایک پڑھا لکھا شخص آپ سے بات کررہا ہے جس کے پاس تقریباً ہر بات کا جواب موجود ہے۔ ان سے آپ کو یہ خطرہ بھی نہیں کہ مشکل سوالات کرنے کے بعد آپ کے میڈیا مالکان کو فون جائے گا کہ اس گستاخ رپورٹر کو نوکری سے نکال دو‘ جیسے ہمارے مرحوم دوست مسعود ملک کیساتھ ہوا تھا جب انہوں نے پرویز مشرف سے سوال پوچھ لیا تھا یا پھر نواز شریف صاحب‘ جنہوں نے ایک بڑے اخباری گروپ کے مالک کو پندرہ‘ بیس صحافیوں کی فہرست دی تھی کہ انہیں نکال دو۔ یہ بھی خطرہ نہیں ہے کہ وزیراعظم سے مشکل سوال پر سوشل میڈیا پر آپ سمیت آپ کے بیوی بچوں اور ماں باپ کی خیر نہیں‘ جیسے عمران خان کے دور میں ہوتا تھا کہ کوئی سوال پسند نہ آتا تو ساتھ ہی سوشل میڈیا آپ پر چھوڑ دیا جاتا تھا۔
کاکڑ صاحب میں مگر مجھے ایک بات نظر آئی جو میں نے ان کے خیر خواہ‘ جو میرے بھی دوست ہیں‘ کو کہی بھی تھی کہ کاکڑ صاحب کو بولنے کا بہت شوق ہے۔ مان لیا‘ وہ بہت اچھا بولتے ہیں لیکن بولتے تو عمران خان بھی بہت اچھا تھے۔ آپ جتنا زیادہ بولیں گے‘ آپ کیلئے سلپ آف ٹنگ کے خطرات بڑھتے جائیں گے۔ میں نے اس مشترکہ دوست سے کہا کہ کسی دن کاکڑ صاحب کچھ ایسا بول دیں گے جس کو سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔ ہر بڑے عہدے پر بیٹھا انسان ایک سٹیج پر پہنچ کر ”اپن ہی بھگوان ہے‘‘ کا امیج اختیار کر لیتا ہے۔بھٹو صاحب کا ایک بہت پرانا کلپ نظر سے گزرا جس میں ان پر بھی یہی کیفیت طاری تھی کہ اپن ہی بھگوان ہے۔ فرما رہے تھے کہ سب کہتے ہیں تم ہیرو بنو۔ میں نے نہیں بننا ہیرو۔ میں کب تک ہیرو بنتا رہوں۔ 1965ء کی جنگ میں مَیں ہیرو تھا۔ تاشقند میں بھی میں ہیرو تھا۔ بس کافی ہوگیا‘ میں نے مزید ہیرو نہیں بننا۔ جب وہ یہ بات کر رہے تھے تو ان کے لہجے کا تفاخر دیکھنے لائق تھا۔ وہ خود کو ناگزیر سمجھ کر بات کر رہے تھے کہ میرے علاوہ اس ملک میں کون ہیرو ہے۔ اس طرح میاں نواز شریف کا تفاخر ہو یا پھر عمران خان کا غرور‘ ان سب کو قریب سے دیکھا ہے۔ جب خان صاحب قمر جاوید باجوہ کو وزیراعظم ہاؤس میں یہ کہہ رہے تھے کہ اگر میرے علاوہ آپ کے پاس کوئی بندہ ہے تو لے آئیں۔ ان کا بھٹو صاحب کی طرح مطلب یہ تھا کہ میں ہی اکیلا ہوں جو حکمرانی کے لائق ہے۔ یہی تکبر ان کو لے ڈوبا کہ اپن ہی بھگوان ہے۔
مجھے اس ملک کے جن سابق وزرائے اعظم سے ملنے یا بات چیت کا موقع ملا ان میں عمران خان میں تکبر اور غرور سب سے زیادہ تھا۔ انکساری یوسف رضا گیلانی یا کسی حد تک راجہ پرویز اشرف میں تھی۔ شہباز شریف مشکل سے دو انگلیاں لوگوں سے ملاتے تھے۔ نواز شریف سے لندن میں انکساری تھی۔ وزیراعظم بنے تو ملاقات نہ ہوئی اس لیے کچھ نہیں کہہ سکتا کہ وہ بھی بدلے یا نہیں۔ میں بھٹو صاحب سے نہیں ملا لیکن میرا خیال ہے کہ آپ کو بھٹو صاحب اور عمران خان میں سے تکبر اور غرور کی بنا پر کسی ایک کو ایوارڈ دینا مشکل ہو جائے ۔ اقتدار چیز ہی ایسی ہے جو آپ کا دماغ آسمان پر لے جاتی ہے۔ اسلئے جب لمز میں کاکڑ صاحب لیٹ ہونے پر سوال کرنے والے لڑکے کو کہہ رہے تھے کہ اسے کس نے کہا کہ انکا انتظار کرے‘ وہ ہال کو چھوڑ کر چلا جاتا۔ اس سے اندازہ ہو رہا تھا کہ ان پر بھی دھیرے دھیرے ”اپن ہی بھگوان ہے‘‘ کی کیفیت طاری ہونے لگی ہے۔ وہ اس لڑکے کو ایک جملے سے خوش کر سکتے تھے کہ بیٹا آئی ایم سوری۔ آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں‘ مجھے خیال نہیں رہا‘ اجلاس میں پھنس گیا تھا‘ آئندہ خیال رکھوں گا۔ اس پر ہال میں تالیاں بجتیں لیکن کاکڑ صاحب پر ان کی اَنا حاوی ہوگئی۔
مسئلہ لیکن وہی ہے کہ اگلے کو ہم نے ٹھوک بجا کر جواب دینا ہے۔ ایسے تکبر بھرے جوابات عمران خان دیتے تھے یا ایک دو دفعہ بینظیر بھٹو نے بھی کسی صحافی کو ایسا جواب دیا تھا۔ دوسری طرف ہم نے گھر‘ محلے‘ سکول‘ کالج اور یونیورسٹی سے یہی سیکھا ہے کہ سوال یا تنقید کے نام پر اگلے کو ذلیل کرنا ہے۔ ہمارے ہاں آج بھی سوشل میڈیا پر کسی نے تنقید کرنی ہو تو وہ پہلے گالی دے گا پھر پوسٹ پر ردِعمل دے گا۔ اس کے نزدیک گالی بھی تنقید کا حصہ ہے۔ ہم اپنے بچوں کو اچھی تنقید کرنا نہیں سیکھا سکے۔ یہ بات مجھ پر پہلے صادر ہوتی ہے۔ میں نے بھی عمر بھر یہی کیا کہ تنقید کے نام پر دوسرے کو رگڑ دو۔ وقت کیساتھ کوشش کی ہے کہ کچھ خود کو سنبھال کر بات کی جائے لیکن عوام بھی آپ کو اس وقت تک صحافی یا اینکر یا یوٹیوبر ماننے کو تیار نہیں ہوتے جب تک آپ حکمرانوں یا بڑے عہدوں پر بیٹھے لوگوں کو گالیاں نہ دیں۔ آپ وی لاگ یا ٹی وی شوز کے ویوز کے نام پر ذلیل ہو جائیں لیکن عوام کو خوش رکھنا ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کو دیکھا جائے‘ سنا جائے اور ڈالرز اکاؤنٹ میں آتے رہیں تو عوام کو ہر صورت انٹرٹینمنٹ دینی ہے۔
ایک اور باخبر مہربان سرکاری ریٹائرڈ افسر دوست کی پیش گوئی ہے کہ اگلے الیکشن میں کسی پارٹی کو اکثریت نہیں ملے گی اور ہو سکتا ہے جیسے BAP پارٹی کے صادق سنجرانی چیئرمین سینیٹ بن گئے‘ کاکڑ صاحب کو بھی منتخب وزیراعظم بنا دیا جائے۔ اب آپ کہیں گے کہ سینیٹر تو وزیراعظم نہیں بن سکتا‘ انہیں پہلے ایم این اے بنوانا پڑے گا۔ تو جناب شوکت عزیز کو اگر ایم این اے بنوا کر وزیراعظم بنوایا جا سکتا ہے تو کاکڑ صاحب میں کیا برائی ہے۔ برائی سے یاد آیا۔ میرا لیہ کا دوست شفیق لغاری ایک شعر سناتا تھا:
چائے پیتا ہے‘ شعر کہتا ہے
اور شاعر میں کیا برائی ہے
یہ میرے لیے ان کا نیا روپ تھا۔ سینیٹ کی کمیٹیوں میں اکثر انہیں سنا تھا۔ ٹھوک بجا کر بات کرنے کے عادی ہیں۔ ان کے نزدیک کوئی چیز سفید ہے یا سیاہ‘ وہ درمیانی بات نہیں کرتے۔ ڈپلومیسی ان کی سرشت میں نہیں۔ وہ جیسے ہیں ویسے ہی نظر آتے ہیں اور وہی بات کرتے ہیں جو ان کا خیال ہے کہ کرنی چاہیے۔ اس لیے کمیٹی اجلاسوں میں ان کے کئی دفعہ سینیٹرز کیساتھ شاؤٹنگ میچ تک ہوتے رہے ہیں بلکہ جب ہم اینکرز سے ان کی گفتگو ہو رہی تھی تو انہوں نے سعدیہ عباسی صاحبہ کیساتھ کچھ ماہ قبل سینیٹ کی فنانس کمیٹی میں ہونے والی تکرار کا ذکر کیا تو میری طرف دیکھ کر کہا رؤف کلاسرا گواہ ہیں‘ یہ بھی وہاں موجود تھے۔ آپ یہ سمجھ لیں جو بات ان کے دل میں ہے‘ وہی زبان پر ہے۔ ان میں منافقت نظر نہیں آتی کہ سوچو کچھ اور‘ کہو کچھ اور۔ دوسرے میں نے اس ملاقات میں نوٹ کیا تھا کہ ان کے پاس نالج بہت ہے۔ میں نے میاں نواز شریف‘ ظفراللہ جمالی‘ شوکت عزیز‘ شجاعت حسین‘ یوسف رضا گیلانی‘ راجہ پرویز اشرف‘ شہباز شریف‘ شاہد خاقان عباسی اور عمران خان تک‘ سب وزرائے اعظم کیساتھ ایسی ملاقاتیں دیگر صحافیوں کیساتھ اٹینڈ کی ہیں لیکن ایسا کوئی وزیراعظم نہ تھا جس نے مسلسل تین گھنٹوں تک صحافیوں کے تابڑ توڑ سوالات کے جواباب دلائل کیساتھ دیے ہوں۔ کاکڑ صاحب کی عالمی اور پاکستانی موضوعات پر گرفت سابقہ تمام وزرائے اعظم سے بہت بہتر ہے۔ ان سے بات کر کے لگتا ہے کہ ایک پڑھا لکھا شخص آپ سے بات کررہا ہے جس کے پاس تقریباً ہر بات کا جواب موجود ہے۔ ان سے آپ کو یہ خطرہ بھی نہیں کہ مشکل سوالات کرنے کے بعد آپ کے میڈیا مالکان کو فون جائے گا کہ اس گستاخ رپورٹر کو نوکری سے نکال دو‘ جیسے ہمارے مرحوم دوست مسعود ملک کیساتھ ہوا تھا جب انہوں نے پرویز مشرف سے سوال پوچھ لیا تھا یا پھر نواز شریف صاحب‘ جنہوں نے ایک بڑے اخباری گروپ کے مالک کو پندرہ‘ بیس صحافیوں کی فہرست دی تھی کہ انہیں نکال دو۔ یہ بھی خطرہ نہیں ہے کہ وزیراعظم سے مشکل سوال پر سوشل میڈیا پر آپ سمیت آپ کے بیوی بچوں اور ماں باپ کی خیر نہیں‘ جیسے عمران خان کے دور میں ہوتا تھا کہ کوئی سوال پسند نہ آتا تو ساتھ ہی سوشل میڈیا آپ پر چھوڑ دیا جاتا تھا۔
کاکڑ صاحب میں مگر مجھے ایک بات نظر آئی جو میں نے ان کے خیر خواہ‘ جو میرے بھی دوست ہیں‘ کو کہی بھی تھی کہ کاکڑ صاحب کو بولنے کا بہت شوق ہے۔ مان لیا‘ وہ بہت اچھا بولتے ہیں لیکن بولتے تو عمران خان بھی بہت اچھا تھے۔ آپ جتنا زیادہ بولیں گے‘ آپ کیلئے سلپ آف ٹنگ کے خطرات بڑھتے جائیں گے۔ میں نے اس مشترکہ دوست سے کہا کہ کسی دن کاکڑ صاحب کچھ ایسا بول دیں گے جس کو سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔ ہر بڑے عہدے پر بیٹھا انسان ایک سٹیج پر پہنچ کر ”اپن ہی بھگوان ہے‘‘ کا امیج اختیار کر لیتا ہے۔بھٹو صاحب کا ایک بہت پرانا کلپ نظر سے گزرا جس میں ان پر بھی یہی کیفیت طاری تھی کہ اپن ہی بھگوان ہے۔ فرما رہے تھے کہ سب کہتے ہیں تم ہیرو بنو۔ میں نے نہیں بننا ہیرو۔ میں کب تک ہیرو بنتا رہوں۔ 1965ء کی جنگ میں مَیں ہیرو تھا۔ تاشقند میں بھی میں ہیرو تھا۔ بس کافی ہوگیا‘ میں نے مزید ہیرو نہیں بننا۔ جب وہ یہ بات کر رہے تھے تو ان کے لہجے کا تفاخر دیکھنے لائق تھا۔ وہ خود کو ناگزیر سمجھ کر بات کر رہے تھے کہ میرے علاوہ اس ملک میں کون ہیرو ہے۔ اس طرح میاں نواز شریف کا تفاخر ہو یا پھر عمران خان کا غرور‘ ان سب کو قریب سے دیکھا ہے۔ جب خان صاحب قمر جاوید باجوہ کو وزیراعظم ہاؤس میں یہ کہہ رہے تھے کہ اگر میرے علاوہ آپ کے پاس کوئی بندہ ہے تو لے آئیں۔ ان کا بھٹو صاحب کی طرح مطلب یہ تھا کہ میں ہی اکیلا ہوں جو حکمرانی کے لائق ہے۔ یہی تکبر ان کو لے ڈوبا کہ اپن ہی بھگوان ہے۔
مجھے اس ملک کے جن سابق وزرائے اعظم سے ملنے یا بات چیت کا موقع ملا ان میں عمران خان میں تکبر اور غرور سب سے زیادہ تھا۔ انکساری یوسف رضا گیلانی یا کسی حد تک راجہ پرویز اشرف میں تھی۔ شہباز شریف مشکل سے دو انگلیاں لوگوں سے ملاتے تھے۔ نواز شریف سے لندن میں انکساری تھی۔ وزیراعظم بنے تو ملاقات نہ ہوئی اس لیے کچھ نہیں کہہ سکتا کہ وہ بھی بدلے یا نہیں۔ میں بھٹو صاحب سے نہیں ملا لیکن میرا خیال ہے کہ آپ کو بھٹو صاحب اور عمران خان میں سے تکبر اور غرور کی بنا پر کسی ایک کو ایوارڈ دینا مشکل ہو جائے ۔ اقتدار چیز ہی ایسی ہے جو آپ کا دماغ آسمان پر لے جاتی ہے۔ اسلئے جب لمز میں کاکڑ صاحب لیٹ ہونے پر سوال کرنے والے لڑکے کو کہہ رہے تھے کہ اسے کس نے کہا کہ انکا انتظار کرے‘ وہ ہال کو چھوڑ کر چلا جاتا۔ اس سے اندازہ ہو رہا تھا کہ ان پر بھی دھیرے دھیرے ”اپن ہی بھگوان ہے‘‘ کی کیفیت طاری ہونے لگی ہے۔ وہ اس لڑکے کو ایک جملے سے خوش کر سکتے تھے کہ بیٹا آئی ایم سوری۔ آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں‘ مجھے خیال نہیں رہا‘ اجلاس میں پھنس گیا تھا‘ آئندہ خیال رکھوں گا۔ اس پر ہال میں تالیاں بجتیں لیکن کاکڑ صاحب پر ان کی اَنا حاوی ہوگئی۔
مسئلہ لیکن وہی ہے کہ اگلے کو ہم نے ٹھوک بجا کر جواب دینا ہے۔ ایسے تکبر بھرے جوابات عمران خان دیتے تھے یا ایک دو دفعہ بینظیر بھٹو نے بھی کسی صحافی کو ایسا جواب دیا تھا۔ دوسری طرف ہم نے گھر‘ محلے‘ سکول‘ کالج اور یونیورسٹی سے یہی سیکھا ہے کہ سوال یا تنقید کے نام پر اگلے کو ذلیل کرنا ہے۔ ہمارے ہاں آج بھی سوشل میڈیا پر کسی نے تنقید کرنی ہو تو وہ پہلے گالی دے گا پھر پوسٹ پر ردِعمل دے گا۔ اس کے نزدیک گالی بھی تنقید کا حصہ ہے۔ ہم اپنے بچوں کو اچھی تنقید کرنا نہیں سیکھا سکے۔ یہ بات مجھ پر پہلے صادر ہوتی ہے۔ میں نے بھی عمر بھر یہی کیا کہ تنقید کے نام پر دوسرے کو رگڑ دو۔ وقت کیساتھ کوشش کی ہے کہ کچھ خود کو سنبھال کر بات کی جائے لیکن عوام بھی آپ کو اس وقت تک صحافی یا اینکر یا یوٹیوبر ماننے کو تیار نہیں ہوتے جب تک آپ حکمرانوں یا بڑے عہدوں پر بیٹھے لوگوں کو گالیاں نہ دیں۔ آپ وی لاگ یا ٹی وی شوز کے ویوز کے نام پر ذلیل ہو جائیں لیکن عوام کو خوش رکھنا ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کو دیکھا جائے‘ سنا جائے اور ڈالرز اکاؤنٹ میں آتے رہیں تو عوام کو ہر صورت انٹرٹینمنٹ دینی ہے۔
ایک اور باخبر مہربان سرکاری ریٹائرڈ افسر دوست کی پیش گوئی ہے کہ اگلے الیکشن میں کسی پارٹی کو اکثریت نہیں ملے گی اور ہو سکتا ہے جیسے BAP پارٹی کے صادق سنجرانی چیئرمین سینیٹ بن گئے‘ کاکڑ صاحب کو بھی منتخب وزیراعظم بنا دیا جائے۔ اب آپ کہیں گے کہ سینیٹر تو وزیراعظم نہیں بن سکتا‘ انہیں پہلے ایم این اے بنوانا پڑے گا۔ تو جناب شوکت عزیز کو اگر ایم این اے بنوا کر وزیراعظم بنوایا جا سکتا ہے تو کاکڑ صاحب میں کیا برائی ہے۔ برائی سے یاد آیا۔ میرا لیہ کا دوست شفیق لغاری ایک شعر سناتا تھا:
چائے پیتا ہے‘ شعر کہتا ہے
اور شاعر میں کیا برائی ہے
یہ بھی پڑھیے:
ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا
آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا
پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا
ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر