نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

یہ اشتہاری کالم نہیں ہے۔۔۔|| وجاہت مسعود

کسے دماغ کہ مہینہ گزرنے کے بعد چھان بین کرتا پھرے۔ کیوں نہ آج ہم بھی ایسی ہی ایک کوشش کر دیکھیں۔ خبر یہ ہے کہ آپ کا خطاکار آئندہ کئی ہفتے تک لاہور ہی میں عزلت نشین ہے۔

وجاہت مسعود

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دلی کے خواجہ حسن نظامی عمر میں علامہ اقبال سے دو چار برس ہی خورد تھے لیکن مزاج میں کئی نوری سال کا فاصلہ تھا۔ علمی زاویے سے دیکھنا ہو تو اقبال اور خواجہ حسن نظامی میں وہی فرق تھا جو پروفیسر ڈاکٹر حمید اللہ اور پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری کے حصے میں آیا۔ حالیہ سیاسی تناظر میں سمجھنا ہو تو رضا ربانی اور راولپنڈی کے شیخ رشید کو آمنے سامنے بٹھا لیجیے۔ اقبال ایک فلسفی کا استغراق، صوفی کا طمع سے خالی دل اور شاعر کی سوز دروں سے عبارت افتاد لیے پیدا ہوئے تھے۔ ادھر حسن نظامی کی شخصیت اردو کے عہد ساز صحافی نصراللہ خان نے اپنی تصنیف ’کیا قافلہ جاتا ہے‘ میں یوں بیان کی۔ ’کوئی کہتا خواجہ صاحب حکومت برطانیہ کے جاسوس ہیں اور کوئی یہ سناتا کہ خواجہ صاحب ولی کامل ہیں‘۔ ولایت کی تحکیم آپ کا نیازمند بوجوہ نہیں کر سکتا۔ جادہ سلوک کے کسی مسافر سے دریافت کیجئے۔ ولی را ولی می شناسد۔ انگریز راج کی مخبری کی گواہی پاکستان کے سابق کمپٹرولر جنرل مشتاق احمد وجدی نے اپنی خود نوشت ’ہنگاموں میں زندگی‘ میں درج کر رکھی ہے۔ لکھا کہ پاکستان بننے کے بعد خواجہ حسن نظامی کراچی تشریف لائے۔ مجھ سے فرمائش کی کہ امریکی سفیر سے ملنا ہے۔ میں انگریزی نہیں جانتا، میرے ہمراہ چلو۔ میں ساتھ ہو لیا۔ امریکی سفیر کو بتانے لگے کہ انگریز سرکار کی پچاس برس خدمت کی ہے۔ اب امریکا بہادر کی نگہ عنایت چاہتا ہوں۔ امریکی سفیر نے روکھا جواب دیا کہ ہمیں ایسی خدمات کی ضرورت نہیں۔ ان دنوں امریکی مارشل پلان میں الجھے تھے۔ روس میں امریکی سفیر جارج کینن کے ’لانگ ٹیلی گرام‘ نے سرد جنگ کی گھنٹی بجا رکھی تھی۔ پاکستان تو کولمبو پلان نیز سیٹو اور سینٹو کے منصوبوں میں تب نمودار ہوا جب قوم غلام محمد، سکندر مرزا اور ایوب خان کی ریشہ دوانیوں کے ہاتھ رہن رکھی گئی۔

 

خواجہ حسن نظامی نے درگاہ نظام الدین اولیا کے علاوہ کچھ اور کاروبار بھی کھول رکھے تھے۔ ایک دکان پر اردو زبان فروخت ہوتی تھی۔ ایک ٹھیلے پر ہندوستانی طب کے صدری نسخے سجا رکھے تھے۔ خطہ پنجاب کی اردو دانی پر ناوک اندازی کا شغل الگ تھا۔ علامہ اقبال کو التزاماً شاعر پنجاب لکھتے تھے۔ گویا اپنے تئیں ہجو ملیح کی صنعت دکھاتے تھے۔ اقبال کی طبیعت ایک خاص مقام سے نیچے اترنے پر مائل نہیں تھی۔ علم کا انکسار تھا لیکن روزگار زمانہ سے بے خبر نہیں تھے۔ اگر چوہدری شہاب الدین جیسے زمانہ ساز یونینسٹ سیاست دان کو چٹکیوں میں اڑا سکتے تھے تو حسن نظامی کیا بیچتے تھے۔ ایک روز خواجہ حسن نظامی کو خط لکھ بھیجا کہ ’میرے گھٹنے میں درد ہے۔ فاسفورس کے تیل کی ایک شیشی میرے نام وی پی پی کر دیجئے‘۔ خواجہ صاحب نے شیشی بھجوا دی۔ ہفتے بھر کا وقفہ دے کر علامہ اقبال نے پھر لکھا ’میرے گھٹنے کا درد فاسفورس کے تیل سے دور ہو گیا، آپ کی دوا نے جادو کا اثر کیا ہے۔ ‘ خواجہ صاحب بھرے میں آ گئے۔ اپنے اخبار ’منادی‘ میں علامہ اقبال کا یہ خط شائع کر دیا اور اس پر سرخی جمائی۔ ’شاعر مشرق کو فاسفورس کے تیل سے فائدہ ہوا۔‘ نیاز مندان لاہور تو حضرت اقبال کی پتنگ بازی کے داﺅ پیچ سمجھتے تھے۔ روزنامہ انقلاب میں عبدالمجید سالک نے ’افکار و حوادث‘ میں گڈا باندھ دیا کہ ’خواجہ حسن نظامی کا فاسفورس کا تیل استعمال کرتے ہی شاعر پنجاب علامہ اقبال شاعر مشرق بن گئے‘۔

بہت دن ہوئے آپ کا نیاز مند پنجاب کے ایک بنجر قدیم ناممکن قصبے میں انگریزی زبان کی تحصیل میں مبتلا تھا۔ طریقہ واردات یہ تھا کہ ایسی کتابوں کی جستجو کی جائے جن کا ٹوٹا پھوٹا اردو ترجمہ بھی دستیاب ہو۔ ایک طرف انگریزی کتاب کھولی، دوسری طرف ترجمہ دیکھتا گیا۔ کچھ پلے پڑا، کچھ نہیں۔ اسی شوق میں ایک روز انگریزی کا ایک ٹکڑا اٹک گیا۔ Those who prostitute their newspaper columns۔ اب یار لوگ تو prostitution کا ایک ہی مطلب سمجھتے تھے اور وہ معنی جملے کے مفہوم میں ٹھیک نہیں بیٹھ رہا تھا۔ ادھر ادھر سے پوچھا، مشکل حل نہیں ہوئی۔ کچھ برس بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں استاذی آر اے خان مرحوم نے شفقت سے فرمایا کہ to prostitute کا اصل مفہوم کسی شے کا غلط استعمال ہے۔ یہاں نثر نگار کا اشارہ ان لوگوں کی طرف ہے جو اخباری کالم کو غیر صحافتی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ نوجوانی کے ارادے کچھ اور ہوتے ہیں۔ زندگی کے سفر میں راہ سے راہ نکلتی ہے، کیا خبر تھی کہ ادب کے اس ناچیز جویا کو اخبار نویسی سے دال روٹی کمانا پڑے گی۔ اس دشت میں تین دہائیاں گزار کر معلوم ہوا کہ اخباری کالم تو بڑے کام کی چیز ہے۔ اس میں افسر لوگوں کے تبادلے اور ترقی کی خبروں سے دعائیں مستجاب ہو جاتی ہیں۔ ریاض خیر آبادی کے لفظوں میں، ’ان گیسوﺅں کی لی ہیں بلائیں تمام رات‘۔ کالم میں خبر دی جا سکتی ہے کہ کالم نویس فلاں فلاں تاریخ کو فیصل آباد میں قدم رنجہ فرمائے گا۔ مدعا یہ کہ شائقین کار لائقہ سے یاد فرمائیں۔ ایک نجومی ثم صحافی نے کالم کا عجب ڈھنگ نکالا تھا۔ ظالم آخری سطروں میں لکھ دیتا تھا کہ رواں ماہ کی 7، 15 اور 21 تاریخوں میں اہم واقعات رونما ہوں گے۔ صبح کے اخبار میں شام تک پکوڑے لپٹ کر بک جاتے ہیں۔ کسے دماغ کہ مہینہ گزرنے کے بعد چھان بین کرتا پھرے۔ کیوں نہ آج ہم بھی ایسی ہی ایک کوشش کر دیکھیں۔ خبر یہ ہے کہ آپ کا خطاکار آئندہ کئی ہفتے تک لاہور ہی میں عزلت نشین ہے۔ بہاولپور، کوئٹہ یا مردان جانے کا کوئی ارادہ نہیں۔ مشتری ہوشیار باش۔ دوسری خبر یہ کہ ہمارا کوئی سیاحتی ٹور دسمبر کے آخری عشرے میں یوکرائن یا قبرص روانہ نہیں ہو رہا۔ سفر و حضر نیز طعام و خمار کا بندوبست عازمین سفر کے ذمہ ہے۔ اپنی جیبوں سے رہیں سارے نمازی ہوشیار۔ آخری خبر یہ کہ ہم پنڈلی میں درد جگر کے مایوس مریضوں کے لیے کوئی دوا متعارف نہیں کرا رہے۔ نیز یہ کہ ہماری کوئی اور برانچ نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود

ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود

وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود

اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود

وجاہت مسعود کی مزید تحریریں پڑھیں

About The Author