امام بخش
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کا بننا نہایت اہم تاریخی واقعہ ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے سرزمینِ بے آئین کو آئین دینے کے ساتھ ساتھ باکمال کارکردگی سے ’’کن فیکون‘‘ جیسے اختیارات کے حامل تصور کیے جانے والے مُقتَدَرِین کے مکمل اقتدار کو گزند پہنچائی تو ذوالفقار علی بھٹو کو عدالتی قتل کے ذریعے ہٹا دیا گیا اور اُن کی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کو ختم کرنے کے لیے غیر جمہوری اور نالائق ترین لوگوں کو سیاست میں لایا گیا۔ ان کی پروموشن کرنے کے ساتھ ساتھ اُنھیں کرپشن کے وافر راستے مہیا کیے گئے اور پھر بلیک میل کر کے اِن کٹھ پتلیوں کو اپنی پسند کی دُھن اور اٗنگلیوں کے اشاروں پر ہمیشہ کے لیے ناچنے کا پابند بنا دیا۔
عدالتوں میں انصاف کی مسند پر بیٹھے عدل کے اُونچے مینار فقط نمائشی تھے، جو پہلے سے ہی مُقتَدَرِین کے تابع فرمان تھے۔ ایوب خان کی صحافی مُکاؤ چھانٹی پروگرام کے بعد مُقتَدَرِین نے بچے کُھچے پروفیشنل صحافیوں کے میڈیا میں ہمیشہ کے لیے دروازے بند کر کے اپنے پالے ہوئے میڈیائی طبلچیوں کے ذریعے نواز شریف کو عظیم سیاسی رہنما کے طور پر تعمیر کیا اور پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے کا طوفاں بپا کر دیا، جو پورے کروفر کے ساتھ آج تک جاری ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی ایسے سلوک کا حق بھی رکھتی ہے کیونکہ کمپنی کے قابلِ نفرین اشخاص ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو کے بعد آج آصف علی زرداری بھی باز نہیں آ رہا جو کمپنی سویلین کنٹرول کے ماتحت کرنے کا اہتمام کرتا ہے، کیری لُوگر بِل ایسے جھنجھٹ ڈال دیتا ہے اور تو اور آئین تک بحال کر کے کمپنی کے لیے بڑے مسائل کھڑے کر دیتا ہے۔
اپنے اقتدار کے دوران ہمالیائی جائیداد بنانے والے نواز شریف کے ساتھ مُقتَدَرِین کی جمُورا مینوفیکچرر کمپنی کا کچھ بگڑاؤ شروع ہوا تو بیک اَپ کے طور پر عمران خان کو پروڈیوس کر لیا گیا۔ اپنے میڈیائی لشکر کا رُخ اسے ہیرو بنانے پر لگا دیا اور سب سیاسی آوارہ گردوں کو بھی اِس کی پارٹی میں بھیج دیا گیا۔ ساری عمر اپنے تن من کا خرچہ بھیک اور چندے سے پورے کرنے والے عمران خان کے سر پر صادق و امین کا تاج سجا کر قوم کا مسیحا بنا کر پیش کیا گیا۔ یہ موصوف اپنے پروفیشن میں اتنا مہان ہے کہ شریفین سے بھی جھوٹے حلف ناموں پر قومی خزانے سے بھیک کھری کرتا رہا۔ موصوف کے لیے میڈیائی تشہیر کے ذریعے دولے شاہی چوہوں کی ایسی ذہنی نس بندی کی گئی کہ آج وہ کوئی دلیل سنتے ہیں اور نہ ہی کوئی حقائق تسلیم کرتے ہیں۔
کذابِ اعظم عمران خان کی بَک بَک میں قے کی کثرت سے کمپنی کا گھر انتہائی پراگندہ ہونے اور اس کے نکمے پن سے تنگ آ کر ‘کم لگانا اور زیادہ کھانا’ کے اصول پر کاربند آل شریفیہ سے ایک بار پھر سے رجوع کر لیا گیا ہے۔ جن پالتو میڈیائی خدمت گاروں نے احکامات کے باوجود عمرانڈُو پن کا کچھ بڑھ کر مظاہرہ کیا تو اِن کے سارے جِن نکال دیے گئے ہیں۔ اب نواز شریف کے حق میں ذہن سازی کے نئے احکامات کے مطابق میڈیائی طبلچیوں نے اپنے طبلے کَس لیے ہیں۔ کمپنی کے دیے گئے بیانیے کا اِن پر پاؤڈر مل رہے ہیں۔ اگلے چند دنوں میں یہ میڈیائی فنکار گھنگرو باندھ کر اپنی تا تا تھئیا کو عروج پر لے جائیں گے۔ نئی پالیسی کے مطابق عمران خان کی بجائے نواز شریف کے حق میں جعلی سرویز شائع کرنے کے ساتھ ساتھ آنجناب کو امیدِ پاکستان، معمارِ پاکستان اور عظیم مدبر کے طور پر منوایا جائے گا۔ حسب معمول پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف زہریلے قلم گھسائے جائیں گے اور تیزابی زبانیں چلائی جائیں گی۔
سزا یافتہ اشتہاری مجرم نواز شریف کو لندن سے ہی وزیرِ اعظم بنانے کے لیے کنگھی پٹی کر کے لایا گیا ہے۔ جو یقینی طور اپنے سمدھی اسحٰق ڈار کے ساتھ مل کر مُلکی معیشت کے ساتھ وہی کچھ کرے گا جو وہ لندن سے بیٹھ کر پچھلے سولہ مہینے کرتا رہا ہے۔ نواز شریف کے لیے قانون موم کی ناک اور ضابطے پاؤں کے جُوتے بنا دیے گئے ہیں۔ ماحول سازگار بنا دیا گیا ہے اور اس کی تمام سزائیں تیز رفتاری سے معاف کی جا رہی ہیں تاکہ نواز شریف کی انتخابات میں شمولیت محفوظ کی جا سکے۔ نواز شریف کی محبت میں سرتاپا اندھا دُھند غرق کمپنی بھی شاید غدارِ وطن ضیاءالحق کی سچی پیروکار ہے جو کہا کرتا تھا کہ الیکشن کا عمل بے سود ہے، جب تک مثبت نتائج حاصل نہ ہوں۔
یہ وہی نواز شریف ہے جو کئی بار اپنے معنوی باپ ضیاءالحق کو بُھول جانے کی ایکٹنگ کر چکا، ذوالفقار علی بھٹو کو ہیرو اور شہید مان چکا، اپنے بدبُودار کرتوتوں پر قوم کے ساتھ ساتھ بے نظیر بھٹو شہید اور آصف علی زرداری سے بارہا معافیاں مانگ چکا۔ لیکن حقیقت میں یہ آج بھی وہیں کھڑا ہے، جہاں یہ 1981ء میں کھڑا تھا۔
ساری عمر کمپنی کی چاکری کرنے والے نواز شریف نے آتے ہی اپنے آپ کو مزید ننگا کرنے کے ساتھ ساتھ کمپنی کے کرتا دھرتاؤں کے چہروں سے بھی نقاب اُلٹ دیے ہیں لیکن وطن عزیز کی حد درجہ درگت بنانے والی آئین و قانون اور اخلاقیات سے عاری کمپنی کے لیے کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے کیونکہ اس وقت اِن کے پاس نواز شریف اور عمران خان کی صورت میں دو جمُورے لاڈلے موجود ہیں، جو بوقت ضرورت باری باری استعمال کیے جا سکتے ہیں اور اِن کٹھ پُتلیوں کو راج سِنگھاسَن پر سجا کر کُھل کھیلنے میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں ہوتی۔
آئین و قانون کو جُوتے کی نوک پر رکھنے والی کمپنی کی پالیسی بُکس میں آئین، جمہوریت، دفاع اور معیشت کی مضبوطی کا ریکارڈ رکھنے اور اقوام عالم میں پاکستان کو سر بلند کرنے والی پاکستان پیپلز پارٹی کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی کے ادوار میں کمپنی حکومت کی راہ میں قدم قدم پر رکاوٹیں کھڑی کرتی ہے اور اپنی ساری توانائیاں حکومت کی مُشکیں کسنے پر صرف کرتی ہے۔ میڈیا کے ساتھ ساتھ عدالتوں کو بھی پروپیگنڈہ سیلز بنا دیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس کمپنی کی طرف سے لاڈلوں کے حکومتی ادوار میں ہر محاذ پر مکمل مدد مہیا ہوتی ہے۔ عدلیہ اور میڈیا رفیق کار ہوتا ہے لیکن نااہل لاڈلے ہر طرح کی سہولت کاری کے باوجود وطن عزیز کا پہلے سے بڑھ کر بیڑا غرق کر دیتے ہیں۔
لاڈلوں کو جیلوں میں ہر قسم کی سہولیات میسر ہوتی ہیں اور ہر فرمائش پوری ہوتی ہے لیکن کبھی بھول کر بھی پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماؤں ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کو قانونی حقوق بھی نہ دیے بلکہ اُلٹا بغیر کسی جُرم کے سُولی پر لٹکا دیا، جان لے لی اور عمر قید سے زیادہ عرصہ پُر تشدد قید میں رکھا۔
اب یہ بات ہرگز پوشیدہ نہیں رہی ہے کہ دھتکارے جانے پر لاڈلوں کو بُھولے اسباق یاد کروانے کے لیے نااہل کیا جاتا ہے۔ لاڈلے کے توبہ تائب ہونے کے بعد کمپنی پھر سے آئین و قانون پر ننگا ناچ کر اُنھیں بحال کرتی ہے۔ اس لیے خاطر جمع رکھیے کہ اگر نواز شریف کی خدمات احکامات کے عین مطابق نہ رہیں اور عمران خان کی طرف سے خدمات کی بڑھ کر آفرز آئیں تو موصوف کی واپسی کے امکانات مکمل طور روشن ہیں۔
جمُورا مینوفیکچرر کمپنی کی طرف سے غیر جانبدار صحافیوں کی میڈیا میں بندش اور اپنی صحافتی پنیری کی بدولت اس وقت وطنِ عزیز میں 99٪ صحافی نُونی ہیں یا پھر عمرانڈُو، جن کے ہاتھوں میں دولے شاہی چوہوں کے دماغوں کا مکمل کنٹرول ہے، اِن صحافتی طبلچیوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف ثابت شدہ جھوٹے الزامات کو روزِ روشن کی طرح واضح سچ کے طور پر اِنھیں ازبر کرایا ہوا ہے۔ جنھیں وہ بار بار دُہرا کر اپنا ایمان تازہ کرتے ہیں. اِس وقت آئین پاکستان کے مطابق دونوں لاڈلے سرٹیفائیڈ چور اور نااہل ہیں لیکن ہر طرح کے جھوٹے مقدمات میں باعزت بری ہونے والی پی پی پی کی لیڈرشپ کو برین واشڈ دولے شاہی چوہے بے تکان کرپٹ کہتے ہیں۔
ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ نُون لیگ اور پی ٹی آئی میں تقسیم ذہنی نس بندی کے شکار کارکنان اپنے رہنماؤں کی سلیکشن کے بارے میں اپنے ضمیروں کو کیسے مطمئن کرتے ہوں گے کیونکہ دونوں کی سلیکشن آئین و قانون اور اخلاقیات کو روند کر کی جاتی ہے۔ پھر وہ کیسے ایک کو ٹھیک اور دوسرے کو غلط کہتے ہیں۔ خدا ہی سمجھے تو سمجھے بندہ ان شعور سے محروم قبیلے کو سمجھنے سے قاصر ہے۔
ہماری یہ خام خیالی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی کہ ہم ہر بار سوچتے ہیں کہ بہت ہو گیا اب پاکستان کی اس سے بڑھ کر بربادی نہیں ہو سکتی۔ اس لیے اپنے تئیں اپنی جیب میں دنیا کے ہر مسئلے کا امرت دھارا حل رکھنے والی کمپنی اب اپنی حرکتوں سے باز آ جائے گی، عوام کو فیصلے کرنے کا حق دے گی، جس کی وجہ جمہوریت اپنا راستہ بنا کر ملک کو ترقی کے راستے پر گامزن کر دے گی لیکن کمپنی کی طرف سے جمہوریت میں مسلسل زہر ملانے سے وطن عزیز پر حالتِ نزع طاری ہے۔ کمپنی باز نہ آئی تو مریض کی موت یقینی ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر