دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ازالہ، مداوا یا سمجھوتا!۔۔۔||عاصمہ شیرازی

وقت تیزی سے بدلا، اس قدر تیزی سے کہ چند اُسے تقدیر کا ہیر پھیر قرار دیتے ہیں اور چند مکافات عمل۔ میز کے اردگرد کردار بدل گئے، معتوب، مشکور قرار پائے اور منظورِ نظر محفل سے در بدر۔ حضور! یہ سیاست نہیں سیاست سے کچھ آگے کی بات ہے۔ سیاست ناممکن کو ممکن بنانے کے فن کا نام ہے مگر اصل سیاست کا گُر سیاسی جماعتوں میں کہاں؟

عاصمہ شیرازی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نیرنگِ خیال میں کوئی تو اچھوتی بات ہو!!! وہی پرانے مضامین، وہی پرانے اوراق تاریخ بدل بدل کر سامنے آ جاتے ہیں۔ پُرانے نعرے نئے لفظوں کے پہناوے میں لوٹ آتے ہیں، پرانے دعوے نئی جماعتوں کے منشور میں سمٹ کر سیاسی کاک ٹیل کی صورت پیش ہوتے ہیں۔

اب بھی ملکی محاذ پر انداز اور احباب بدلتے ہیں۔ کبھی ایک نظریہ مفتوح قرار پاتا ہے تو کبھی کسی بیانیے پر قبضہ۔ ’مفتوحہ سیاسی جماعتیں‘ واہ واہ اور داد و تحسین کی ڈونگرے برساتی ہیں اور مفاہمتی انداز اختیار کر لیتی ہیں تو کبھی راندہ درگار قرار دی جانے والی جماعت ’مزاحمتی‘ روپ اختیار کر لیتی ہیں۔

فاتح اور مفتوح، غالب اور مغلوب جبکہ قابض اور مقبوض کے درمیان سمجھوتہ فقط مفادات کا ہی ہے۔

کل ایک جماعت زیر عتاب تھی اور بظاہر یہ محسوس ہوتا تھا کہ مسلم لیگ ن اب کبھی اقتدار میں نہ آ پائے گی۔ مجھ سمیت بہت سے صحافیوں کو راولپنڈی کی دو یا تین اہم بریفنگز اب بھی یاد ہیں۔

تحریک انصاف کے لیے اُلفت و محبت کے تمام تقاضے پورے ہو رہے تھے۔ ادارہ ایک صفحے کی تیاری میں تن، من اور دھن لگانے پر مقرر تھا۔ اس طرح کھل کر ایک سیاسی جماعت کی حمایت جبکہ دوسری کو چور ثابت کرنے پر طاقت کا استعمال کیا جا رہا تھا کہ نہ کچھ منظر عام پر آنے کا خوف اور نہ ہی چھپانے کی کوشش۔ محبت تمام زنجیریں توڑ چکی تھی اور ’محبوب‘ کو کوئی پتھر سے نہ مارے اس بات کو یقینی بنایا جا رہا تھا۔

سرویز سے لے کر ٹی وی پروگراموں تک ہر چیز ’مینج‘ کی جا رہی تھی اور بلآخر امیدوں کا سورج تحریک انصاف کی سُنہری کامیابی لیے 26 جولائی 2018 کو طلوع ہوا۔

’وہ جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت‘ ادارے کے اظہار تشکر کا ترجمان بنا۔ یہ سب نیا نہیں تھا مگر حیران کُن ضرور تھا۔

Imran Khan

یہ نہیں کہ اس سے پہلے انتخابات میں کبھی مداخلت نہیں ہوئی، سیاسی جماعت کی سرپرستی نہیں ہوئی، یہ بھی نہیں کہ اس سے قبل کنگز پارٹیاں نہیں بنی مگر یوں کھل کر حمایت پہلی بار ہی تھی۔ یہ حجاب تب اُترا اور اب۔۔ اب شاید اس سے آگے کا مرحلہ ہے۔ یقین کی منزل مقتدرہ کے ہاتھ تھی کہ اگلے کئی سال کا انتظام ہو چکا اور متبادل قید خانوں میں ڈال دیے گئے۔

وقت تیزی سے بدلا، اس قدر تیزی سے کہ چند اُسے تقدیر کا ہیر پھیر قرار دیتے ہیں اور چند مکافات عمل۔ میز کے اردگرد کردار بدل گئے، معتوب، مشکور قرار پائے اور منظورِ نظر محفل سے در بدر۔ حضور! یہ سیاست نہیں سیاست سے کچھ آگے کی بات ہے۔ سیاست ناممکن کو ممکن بنانے کے فن کا نام ہے مگر اصل سیاست کا گُر سیاسی جماعتوں میں کہاں؟

نواز شریف 13 جولائی 2018 کو اپنی صاحبزادی مریم نواز کے ہمراہ واپس لوٹے اور لاہور ائیر پورٹ پر اُنھیں بیٹی سمیت گرفتار کر لیا گیا۔ گرفتاری کے یہ مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ جہاز میں سوار نواز شریف مشتاق تھے کہ لاہور اُنھیں دیکھنے اُمڈا آیا ہو گا۔ مگر جب اُن کی توجہ رن وے پر موجود ایک چھوٹے طیارے اور ہیلی کاپٹر پر پڑی تو اُن کی خواہشات خدشات میں بدل گئیں۔ بہر حال اس بارے اسی پلیٹ فارم پر پانچ سال قبل لکھ چکی ہوں فقط ماحول اور وقت بدلنے کا اشارہ ہے۔

نواز

اب کی بار نواز شریف پاکستان آئے تو اسلام آباد سے لاہور تک ’ریاستی استقبال‘ اور ’انتظام‘ تھا، خواہش کے مطابق عوام کا جم غفیر بھی، عوام کے غُل اور کبوتروں کے جھنڈ زمین پہ اُتر آئے تھے۔ مینار پاکستان تک شایان شان سفر شاہانہ تھا اب جب مقدمات سے لے کر استقبال تک کا عمل ’ان ڈو‘ ہو رہا ہے، ’تیز ترین سزاؤں‘ کے عمل سے ’تیز ترین انصاف‘ تک کا عمل جادوئی ہے۔

سلیٹ صاف کر کے نئی تحریر لکھی جا رہی ہے، تو کچھ لوگ اسے ’ازالہ‘ قرار دے رہے ہیں تو کچھ ’مداوا‘ جبکہ کچھ ’سمجھوتا‘۔

اب اس مداوے اور ازالے کے درمیان جو کچھ تھا اُس کا فیصلہ کیسے ہوگا۔ ”تب اور اب ۔۔۔ جب اور پھر تب کے بیچ اصل کھیل کیا تھا اور کیا شرط ہے کہ اب نیا کھیل نہ ہو گا۔ کل کے عہد کیا تھے اور اب نئے پیمان کیا ہیں؟ بہرحال نواز شریف صاحب کچھ کے لئے سرخرو اور کچھ کے لئے معتوب ہو کر واپس آچکے ہیں۔ نئی اننگ کا آغاز مینار پاکستان سے ہوا ہے، انتقام نہ لینے کا عہد ہے اور مفاہمت کی آرزو۔ دیکھئے آرزوؤئیں اور عہد کیسے پورے ہوتے ہیں؟

 بشکریہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام

About The Author