دسمبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

دادا، امی کو مت مارو۔ میں نے بدتمیزی کی، سو مار کھائی!||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

پھر اس عورت کو بیڑیاں پہنائی جاتی ہیں چار چھ بچوں کی صورت۔ کہاں بھاگ سکے گی ان بچوں کو لے کر؟ ماں باپ گھر کے دروازے نہیں کھولیں گے، شوہر ساتھ نہیں دے گا، ریاست سر پہ ہاتھ رکھ کر ذمہ داری نہیں لے گی سو ان بچوں کے پیٹ میں روٹی اور سر پہ چھت کے عوض اس ماں کو مار کھانی ہے تمام عمر، خاموشی سے، چپ چاپ۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا ہوتا اگر اس کی جگہ ہم ہوتے؟ کیا ہوتا اگر اس کی جگہ ہماری بیٹی ہوتی؟ کیا ہوتا اگر اس کی جگہ ہماری بہن ہوتی؟ کیا ہوتا اگر یہ ہماری ماں ہوتی اور ہم ان ننھے منوں میں شامل ہوتے جو بے قرار، بے چین اپنی ماں کو ایک شقی القلب شخص سے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں جو ان بچوں کا دادا بھی ہے۔ دادا۔ کیسا پیارا لفظ ہے یہ۔ ابا کے ابا! ہم اپنے دادا دادی کو نہ دیکھ سکے، ابھی تک اس حسرت کو دل میں چھپائے بیٹھے ہیں اور سوچتے ہیں کہ اگر ابا ایسے تھے تو ابا کے ابا کیسے ہوں گے؟

 

کتنے شفیق، کتنے محبت کرنے والے؟ یہ بد قسمتی ہمارے بچوں کے حصے میں بھی آئی ہے، نہ دادا دیکھنے کو ملے نہ نانا۔ وہ بھی ہمارے جیسے محروم۔ مگر پھر خیال آتا ہے، کیا ہوتا اگر یہ دادا ان بچوں کے دادا جیسے ہوتے جو اپنے ننھے منے ہاتھوں سے اپنے دادا کو پیچھے دھکیلنے کی کوشش کر رہے ہیں جو ان کی ماں کو لاتیں، تھپڑ مارنے کے ساتھ ساتھ بیلن سے بلا دریغ پیٹ رہا ہے۔ صاحب ہمارے ساتھ ایک مشکل ہے۔ ہم ہر صورت حال میں یا خود کو ڈال دیتے ہیں یا بچوں کو۔

ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ تو ہڈ بیتی نہیں مگر جگ بیتی کو ہم کیوں نہ ویسے محسوس کرنے کی کوشش کریں؟ یہ سب باتیں وہ تھیں جو ہم نے وہ وڈیو دیکھتے ہوئے سوچیں جو ایک ادھیڑ عمر لحیم شحیم مرد ہاتھ میں بیلن لئے زمین پہ گری ایک عورت کو پیٹ رہا ہے اور تین چھوٹے چھوٹے بچے اس مرد سے اپنی ماں کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ چوتھا بچہ ایک بچی کی گود میں ہے۔ کبھی وہ دادا کو پیچھے دھکیلتے ہیں، کبھی بیلن چھیننے کی کوشش کرتے ہیں، کبھی زمین پہ گری ماں کے سامنے آتے ہیں، کبھی چیختے ہیں، کبھی روتے ہیں، کبھی منتیں کرتے ہیں اور کبھی ماں کو کہتے ہیں، ماما اپنے کمرے میں جاؤ۔

 

یہ واقعہ شیخوپورہ کے علاقے جنڈیالہ میں پیش آیا جہاں لطیف رحمانی نامی سسر نے کھانا نہ بنانے پہ بہو شازیہ کو بدترین جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا۔ وڈیو دیور کی بیوی نے بنائی اور رشتے داروں کو بھیجی۔ کیا قصور تھا بہو نامی اس عورت کا؟ بس یہی کہ کھانا وقت پہ نہیں بنا اور یہ شخص اپنے شکم کی آگ بجھا نہیں سکا۔ بس؟ صرف اتنا؟ نہیں کوئی اور بات ہو گی۔ چلیے فرض کر لیجیے کہ کوئی اور بات بھی ہو گی، شاید کوئی قصور بھی ہو۔

مگر کیا دنیا کا کوئی قانون، اخلاقی ضابطہ اور اصول کسی کمزور انسان کو اس طرح پیٹنے کی اجازت دے سکتا ہے؟ اور اگر وہ انسان عورت ہو؟ اور عورت بھی وہ جو آپ کے بیٹے کی بیوی ہو یعنی آپ کی بیٹی جیسی اور چار بچوں کی ماں۔ وہ سب لوگ جنہوں نے اس وڈیو کو دیکھا، دو سیکنڈ کے لیے افسوس کیا اور پھر بھول گئے، جان لیں کہ یہ ہے آپ کا پدرسری معاشرہ۔ یہ ہے اس معاشرے میں عورت کا مقام اور یہ حشر ہو سکتا ہے اس معاشرے میں کسی بھی عورت کا۔

پٹنے والی وہ عورت آپ کی بیٹی اور بہن بھی ہو سکتی ہے۔ اگلا سوال اس شوہر سے ہے جو اس اپنی بیوی اور بچوں کو اپنے ظالم باپ کے حوالے کر کے بیرون ملک بیٹھا ہے۔ کیا دنیا میں عزت صرف اپنی ماں کی ہوتی ہے؟ کیا ان ننھے منے بچوں کی ماں عزت کی مستحق نہیں؟ دوسری طرف ان بچوں کی ذہنی حالت کا اندازہ کیجیے۔ چار، پانچ، چھ آٹھ برس کے بچے جن کی دنیا کھلونے، آسمان، ٹافی، غبارہ اور ماں ہوتی ہے۔ جن کے لیے دنیا کا سب سے اہم فرد ماں۔

جو اس عمر میں محبت کرنا، جو زندگی گزارنے کا ہنر ماں کی طرف دیکھ کر سیکھتے ہیں۔ ان بچوں نے کیا دیکھا؟ ایک عورت پہ بدترین جسمانی تشدد۔ بچوں نے نہ صرف دیکھا بلکہ سہا ذہنی تشدد، اپنی ماں کو اس طرح پٹتے دیکھ کر، ماں کو بچانے کی ناکام کوشش کر کے۔ کیا حالت ہو گی ان کے دل و دماغ کی؟ کیا سوچتے ہوں گے وہ؟ یہ کس طرح کی دنیا ہے جہاں ہمارے باپ کا باپ ہماری ماں کو اس بری طرح پیٹ رہا ہے، ماں فرش پر لاچار پڑی ہے، بچنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن بھاگتی نہیں۔

کیونکہ اس کے پاؤں کی بیڑیاں یہ چار بچے ہیں جنہیں چھوڑ کر وہ بھاگ نہیں سکتی۔ دوسری طرف گھر میں موجود لوگ زمین پہ گری اس عورت کو بچانے کی کوئی کوشش نہیں کر رہے اور نہ ہی اس مرد کو روکنے کی؟ کیوں؟ کیا عورت کو پیٹنا، معاشرے کے لیے عام بات ہو چکی ہے؟ کیا اکثریت عورت پہ تشدد کو قبول کر چکی ہے؟ جواب یقیناً ہاں میں ہے تبھی تو ہر دوسرے روز، ہر دوسرے ہفتے کہیں نہ کہیں کوئی عورت پٹ رہی ہوتی ہے، قتل ہو رہی ہوتی ہے، ریپ ہوتی ہے اور معاشرہ۔

جس میں آپ سب شامل ہیں، دیکھ کر منہ دوسری طرف کر لیتا ہے۔ ہم جیسے کچھ دیوانے بین کرتے ہیں اور بس بین ہی کرتے ہیں۔ نہ معاشرہ ساتھ دیتا ہے نہ ریاست! اس وڈیو کے بعد اگلی وڈیو دل کو کرچی کرچی کر دیتی ہے جب پچھلی وڈیو میں پٹتی عورت گود میں بچہ اٹھائے وڈیو میں جذبات سے عاری آواز اور چہرے کے ساتھ کہہ رہی ہے۔ ”میں نے اپنے سسر سے بدتمیزی کی تھی، اس لیے اس نے مجھے مارا۔ میں اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرنا چاہتی“ ۔

 

لیجیے جناب محترم سسر شریف کی مار جسٹیفائی کر دی گئی، بدتمیزی کے پردے کے پیچھے۔ ریاست دبک کر بیٹھ گئی، اس عورت کی بے بسی کو ریاست کیوں دیکھے؟ ضرورت کیا ہے اتنی گہرائی میں اترنے کی؟ یہ ایک پیغام ہے سب عورتوں کے لیے۔ اگر بولو گی، احتجاج کرو گی تو ایسے ہی پیٹی جاؤ گی، یہی حشر کریں گے ہم تمہارا؟ جانتی نہیں تم کون ہیں ہم؟ یہ ہے پدرسری معاشرے کا اصل چہرہ جس پہ چڑھا نقاب کبھی کبھی ہٹ جاتا ہے اور اس کی مکروہ ہیئت نظر آنے لگتی ہے۔

بس اتنا ہی تو کرتا ہے یہ نظام کہ پیدائش کے وقت بیٹی کو دفن نہیں کرتا۔ ڈھیل دیتا ہے پندرہ بیس برس۔ انتظار کرواتا ہے، پھر لال کفن پہنا کر رخصت کرتا ہے۔ کبھی میانوالی کی ڈاکٹر سدرہ کی شکل میں، کبھی شیخوپورہ کی شازیہ کے روپ میں اور کبھی سرگودھا کی انجینئر بہو کی صورت میں جسے ایسے ہی ایک سسر نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ہم پھر کہیں گے، ذمہ دار والدین ہیں، جو بیٹیوں کو تعلیم و ہنر کے بغیر پھانسی گھاٹ پر چڑھاتے ہیں، لال کفن پہنا کر۔

پھر اس عورت کو بیڑیاں پہنائی جاتی ہیں چار چھ بچوں کی صورت۔ کہاں بھاگ سکے گی ان بچوں کو لے کر؟ ماں باپ گھر کے دروازے نہیں کھولیں گے، شوہر ساتھ نہیں دے گا، ریاست سر پہ ہاتھ رکھ کر ذمہ داری نہیں لے گی سو ان بچوں کے پیٹ میں روٹی اور سر پہ چھت کے عوض اس ماں کو مار کھانی ہے تمام عمر، خاموشی سے، چپ چاپ۔ ہم نے بلاگ کی ابتدا میں کہا، کیا ہوتا اگر یہ عورت ہماری بیٹی ہوتی؟ قسم ہے پیدا کرنے والے کی ہم ایسے گھر میں ایک سیکنڈ بھی اپنی بیٹی اور بچوں کو نہ رہنے دیتے، چاہے گھر لا کر فاقے ہی کیوں نہ کرنے پڑتے۔ وہ سب جو اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو ایسے گھروں میں چھوڑ کر ان پر ہونے والے تشدد کی طرف سے آنکھیں بند کرلیتے ہیں، مرد ہونا تو ایک طرف رہا، ان کے انسان ہونے پر سوال اٹھایا جا سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

About The Author