امام بخش
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1987ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی زندگی میں آنے کے دن سے آصف علی زرداری کے خلاف میڈیا کے ذریعے مسلسل کردار کشی کی بد ترین مہم چلائی جا رہی ہے۔ پروپیگنڈسٹوں نے ان کے خلاف منظم طریقے سے جھوٹ متواتر اور اتنی بار بولے کہ اب ان کے خلاف کوئی بھی بودے سے بودا سا الزام آئے تو آصف علی زرداری کے خلاف اندھی نفرت اور تعصب کی آگ میں بھڑکتے ہوئے لوگ فوراً سچ مان لیتے ہیں۔
آصف علی زرداری کے خلاف ایک الزام بڑے تواتر کے ساتھ دہرایا جاتا ہے کہ شادی سے قبل وہ سینما کے ٹکٹ بلیک کیا کرتے تھے۔ اِس الزام کے بارے میں 2012ء میں ہمارے لکھے گئے آرٹیکل "کرپٹ زرداری اور صادق وامین فرشتوں کی اصل کہانی” سے اقتباس حاضر ہے۔
آصف علی زرداری 26 جولائی 1955ء کو کراچی میں سردار حاکم علی زرداری مرحوم کے گھر پیدا ہوئے۔ آصف علی زرداری اولادِ نرینہ میں اکلوتے ہیں۔ حاکم علی زرداری ایک قبائلی سردار اور ممتاز زمیندار تھے۔ نواب شاہ میں ان کی ہزاروں ایکڑ زمین تھی۔ اِن کی زمین کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایوب خان کے دور میں تقریباً آٹھ ہزار ایکڑ زمین لینڈ ریفارمز میں چلی گئی۔ کہتے ہیں کہ نہری نظام سے قبل ان کے آباؤ اجداد کے پاس دس ہزار اُونٹ تھے۔ حاکم علی زرداری کا اندرونِ سندھ زمینداری کے علاوہ کراچی میں بھی کاروبار تھا۔ اُنھوں نے ساٹھ کی دہائی کے شروع میں این اے پی (موجودہ اے این پی) کے پلیٹ فارم سے سیاست شروع کی۔ وہ 1965ء میں ضلع کونسل نواب شاہ سے ممبر منتخب ہوئے اور 1970ء کے اِنتخابات میں نواب شاہ سے ہی پاکستان پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر پہلی بار ایم این اے بنے تھے۔ اِن کی انتخابی مہم کی خصوصی بات یہ تھی کہ اعجاز درانی (نور جہاں کے خاوند)، طارق عزیز سمیت دوسرے اداکار اِن کی الیکشن کمپیئن چلانے کے لیے آئے تھے۔ اِن کی فیض احمد فیض اور جوش ملیح آبادی سے بھی دوستی تھی۔ حاکم علی زرداری نے ڈکٹیٹر ضیاءالحق کے ظالمانہ دور میں بیگم نصرت بھٹو کا بھی بھرپور ساتھ دیا۔ ساٹھ کی دہائی میں حاکم علی زرداری کی حیثیت یہ تھی کہ اگر کوئی بھی اِنٹرنیشنل ڈیلیگشن دارالحکومت کراچی میں آتا تھا تو ڈیلیگیشن میں شامل لوگوں کی حاکم علی زرداری سے ملاقات و ضیافت کی خواہش ضرور ہوتی تھی۔ حاکم علی زرداری کراچی میں دو میں سے ایک بڑی عمارت یعنی بمبینو چیمبرز کے مالک بھی تھے (دوسری عمارت تبت سنٹر تھی)۔ بمبینو چیمبرز سات منزلہ بلڈنگ تھی۔ اس کی ساتویں منزل پر اس زمانے میں حاکم علی زرداری یعنی آصف علی زرداری کی والدہ نے ساتویں منزل پر پینٹ ہاؤس بھی بنوایا تھا، جس کی اُس سستے زمانے میں لاگت تین لاکھ روپے آئی تھی۔ بمبینو چیمبرز میں بمبینو نامی سینما گھر بھی تھا، جو بعد میں ایک اسکول کو عطیہ کر دیا گیا۔ حاکم علی زرداری بمبینو سینما گھر کے علاوہ کراچی میں مشہورِ زمانہ لارکس اور اسکالا سمیت پانچ سینما گھروں کے بھی مالک تھے۔ اُس دور میں فلم انڈسٹری اور سینما گھروں کا کاروبار بہت زیادہ منفعت بخش تھا۔ حاکم علی زرداری کے سینما گھر جدید ترین مووی ٹیکنالوجی سے لیس تھے۔ ان کے سینما گھر پورے برصغیر یعنی بھارت، پاکستان اور بنگلا دیش میں سب سے بہتر تھے اور ان کی اس میدان میں اجارہ داری تھی۔ ان کے سینما گھر سنیما انڈسٹری میں انقلاب لے کر آئے۔ ان کے پانچوں سینیما گھروں میں ٹکٹوں کی خرید ریزرویشن کے ذریعے ہوتی تھی۔ سینما گھروں کے ٹکٹوں کی ریزرویشن کے سلسلے کی شروعات بھی یہاں سے ہوتی ہے۔ حاکم علی زرداری نے ایک سندھی فلم سُورٹ نامی بھی بنائی تھی۔ وہ فلموں کے پروڈیوسر ہونے کے علاوہ فلم ڈسٹریبیوشن ایسوسی ایشن کے چیئرمین بھی تھے۔ اُس وقت کے سُپر سٹار اور امیر ترین فلمسٹار محمد علی کی ان کے ساتھ بہت زیادہ دوستی تھی اور اِن کا ایک دوسرے کے گھر بہت آنا جانا تھا۔ یاد رہے کہ آصف علی زرداری نے سالگرہ نامی ایک فلم میں چائلڈ ایکٹر کے طور پر بھی کام کیا تھا، جس کے ہیرو سُپر سٹار وحید مراد تھے۔
یہاں ہم آصف علی زرداری کے ننھیال کا ذکر کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں۔ آصف علی زرداری کی والدہ نامور مسلم دانشور مولانا خان بہادر حسن علی آفندی کی پوتی تھیں، اس طرح مولانا آفندی آصف علی زرداری کے پڑ نانا تھے۔ حسن علی آفندی آل انڈیا مسلم لیگ سے منسلک رہنے کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ پارلیمانی بورڈ کے رکن بھی رہے۔ 1934ء سے 1938ء تک وہ سندھ کی قانون ساز اسمبلی کے رکن بھی رہے۔ انہوں نے محمد علی جناح کے ساتھ مل کر مسلم لیگ کو مسلمانوں میں متعارف کرانے کا کام کیا۔ مزید برآں، انہوں نے مصر، فلسطین، شام، عراق، یمن، سعودی عرب اور امریکہ کا دورہ بھی کیا، جہاں انھوں نے اپنی تقریروں میں ہندوستان کی آزادی اور اسلام کے بارے میں گفتگو کی۔ مولانا حسن علی سندھ مدرسۃ الاسلام کے بانی تھے، جو انھوں نے اپنی ذاتی آٹھ ایکڑ زمین پر تعمیر کیا۔ یہ وہی مدرسہ ہے، جہاں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ایسی عظیم ہستی 1887ء سے لے کر 1892ء تک زیر تعلیم رہی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے والد شاہ نواز بھٹو کے علاوہ عبداللہ ہارون، ایوب کھوڑو، سر غلام حسین ہدایت اللہ ایسی کئی عظیم ہستیوں نے بھی اِسی عظیم تعلیمی درسگاہ سے اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ یہ مدرسہ 1943ء میں ہائی سکول سے کالج بنا۔ 2012ء صدرِ پاکستان آصف علی زرداری نے سندھ مدرسۃ الاسلام کو کالج سے یونیورسٹی کا درجہ دے دیا۔ آج مولانا آفندی کے بنائے ہوئے اس تعلیمی ادارے کے بطن سے نکلے ایس ایم لا کالج سمیت کئی تعلیمی ادارے موجود ہیں۔
مندرجہ بالا وہی مشہور زمانہ بمبینو سینما گھر تھا، جہاں سے پروپیگنڈسٹ آصف علی زرداری سے ٹکٹ بلیک کرواتے ہیں۔ حیرت ہے کہ اُس دور میں آصف علی زرداری شاید پرائمری اسکول میں پڑھ رہے ہوں گے اور یہ دروغ گو بڑے دھڑلے سے ایک امیر ترین آدمی کے اکلوتے بیٹے سے اتنی چھوٹی سی عمر میں اِنتہائی بے شرمی سے ٹکٹیں بلیک کروائی جا رہے ہیں۔
بشکریہ: روز نامہ مشرق
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر