نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ڈاکٹر بیٹی کی کنپٹی پر گولی !||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

لگے ہاتھوں ہم یہ بتاتے چلیں کہ خاندان کی ایک بچی کو ذات سے باہر اپنی مرضی شادی پہ سپورٹ کرنے پر ہمارا حقہ پانی بند کیا جا چکا ہے ۔ ابا اور بھائی شادی میں شریک نہیں ہوئے مگر بچی کی شادی خیر و عافیت سے ہو گئی ۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 ” ہم نے تمہارا رشتہ طے کر دیا ہے ۔
 بابا ، کس سے ؟
 تمہارے تایا کے بیٹے سے ۔
 وہ .. وہ .. بابا وہ تو پڑھا لکھا نہیں ہے ۔
 تو ؟ کیا فرق پڑتا ہے ؟
 اچھا کماتا ہے … تمہیں خوش رکھے گا ۔
 بابا … میں اس کے ساتھ نہیں رہ سکتی ، ہمارے درمیان کچھ بھی ایک جیسا نہیں …
 ذات برادری میں یہ سب نہیں دیکھا جاتا … کمانے والا مرد ہو … کافی ہے ۔
 نہیں بابا … پلیز اپنی بیٹی کو زندہ دفن نہ کریں ۔
 میرا فیصلہ اٹل ہے .. میں زبان دے چکا ہوں …
 بابا کیا میری زندگی آپ کی زبان سے زیادہ اہم ہے ؟ ہاں … عورت کی کیا مجال کہ وہ مرد کے فیصلے سے اختلاف کرے ۔ تم بھی محض اس لیے زبان چلا رہی ہو کہ میں نے تمہیں یونی ورسٹی جانے کی اجازت دی …”
 یہ ایک سچا واقعہ ہے ۔ اس سے پہلے کہ ہم آپ کو اس گفتگو کا انجام سنائیں ، ایک اور خط پڑھ لیجیے جو ایک بیٹی نے ہمیں لکھا ہے ۔ وہ باتیں جو شاید وہ کسی اور سے نہیں کہہ سکتی ۔
 ” میں مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھتی ہوں اور یونی ورسٹی سے تعلیم حاصل کر چکی ہوں ۔ میرے بابا کھیتی باڑی کرتے ہیں، میں بہن بھائیوں میں سب سے بڑی ہوں ۔ میرے کچھ خواب ہیں ، میں کچھ بننا چاہتی ہوں لیکن میرے ماں باپ نے میرا رشتہ چچا کے گھر اس وقت طے کر دیا تھا جب میں ساتویں کلاس میں پڑھتی تھی ۔ میں تب بھی اس رشتے پر خوش نہیں تھی ۔لیکن میں چپ رہی ، انکار نہیں کیا ۔ شاید کم عمری کی وجہ سے خوفزدہ تھی۔ جب میں کالج میں آئی تو میں نے انکار کر دیا لیکن میرے والدین نہیں مانے ۔میری بات کو کلی طور پہ رد کر دیا ۔ میں نے یونی ورسٹی میں داخلہ لے لیا ۔تعلیم ختم ہو گئی لیکن وہ بات ختم نہیں ہو سکی ۔ مجھے جذباتی طور پہ ہراساں کیا جاتا رہا کہ خاندان والے تعلق توڑ لیں گے ، لوگ باتیں کریں گے ۔ لڑکا بالکل بھی پڑھا لکھا نہیں ۔ شعور کی شدید کمی ہے ۔ وہ اپنی ماں تک کی عزت نہیں کرتا ۔ اس گھر میں سکون نہیں ہے ۔ میں بچپن میں بھی وہاں رہنا پسند نہیں کرتی تھی ، مجھے گھٹن ہوتی تھی ۔ میں ایسے گھر میں شادی کیسے کر لوں جہاں میرا دم گھٹتا ہے ۔مجھے ایسا گھر چاہیے جہاں سکون ہو ، جہاں میری قدر ہو، شوہر پڑھا لکھا ہو ۔ مسلہ ذات سے باہر شادی نہ کرنے کا ہے ۔آپ بتائیے میں کیسے ماں باپ کو بتاؤں کہ مجھ پہ رحم کریں ؟ میرے ماں باپ میری بات سننے پر تیار نہیں ۔ سارا خاندان انہیں مجبور کر رہا ہے ۔ میں بہت پریشان ہوں ، جی چاہتاہے خود کشی کر لوں “
بتائیے اس بچی کو ہم کیا جواب دیں ؟ کیا یہ کہ دین کی رو سے جو حق اسے حاصل ہے وہ اسے ماں باپ کی ناک کی وجہ سے نہیں دیا جا سکتا ۔
 لگے ہاتھوں ہم یہ بتاتے چلیں کہ خاندان کی ایک بچی کو ذات سے باہر اپنی مرضی شادی پہ سپورٹ کرنے پر ہمارا حقہ پانی بند کیا جا چکا ہے ۔ ابا اور بھائی شادی میں شریک نہیں ہوئے مگر بچی کی شادی خیر و عافیت سے ہو گئی ۔
 رہا حقہ پانی … حقے کے کش ہم لگاتے نہیں اور پانی … پانی بند ہونے کی روایت بھی ہمارے لیے نئی نہیں ۔سو مٹی پاؤ …
 مگر سب بچیاں تو اتنی خوش قسمت نہیں ہوتیں ، میانوالی کی لیڈی ڈاکٹر سدرہ بھی انہی میں سے ایک تھیں ۔ باپ کا اصرار تھا کہ شادی ان پڑھ کزن سے ہو گی ۔ جبکہ ڈاکٹر سدرہ کا جواب نفی میں تھا۔ ڈاکٹر سدرہ گھر بھی چھوڑنا نہیں چاہتی تھیں تاکہ کوئی ان کے کردار پہ انگلی نہ اٹھا سکے ۔ ہمسایوں کے مطابق اسے کئی بار تشدد کا نشانہ بنایا جا چکا تھا مگر بیٹی نے والدین کے خلاف کسی قسم کا ایکشن نہیں لیا ۔
 آغاز میں جو گفتگو ہم نے لکھی وہ ڈاکٹر سدرہ اور ابا کے بیچ ہوئی ۔ اس بات چیت کے جواب میں ابا اپنا پستول نکال کر لایا اور سدرہ کی کنپٹی پہ رکھ کر گولی چلا دی ۔ سدرہ کی آنکھ باہر نکل آئی ، دماغ سوراخ سے باہر بہنے لگا ۔ ہمیں علم نہیں کہ سدرہ کو ہسپتال کس نے پہنچایا مگر اب ڈاکٹر سدرہ ڈسڑکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال راولپنڈی میں وینٹی لیٹر پہ ادھار کی سانسوں پہ زندہ ہے ۔ آنکھیں جا چکی ہیں ، دماغ بہہ چکا ہے …
ہم نے ایک سیکنڈ کے لیے ڈاکٹر سدرہ کی جگہ خود کو تصور کیا ۔ کیا ابا بھی یہی کرتے اگر ہم ایسا کہتے … یہ سوچتے ہوئے دل کانپ گیا اور ایک شفیق صورت آنکھوں کے سامنے آ گئی ۔ ڈاکٹر سدرہ کے ابا کو ہم نے دیکھا نہیں …. اس لیے کہہ نہیں سکتے کہ شفقت پدری مضبوط تھی یا پدرسری معاشرے کی گرفت ؟
 یہ ہے پاکستانیی معاشرے کی حقیقت جو پدرسری نظام میں اس بری طرح لتھڑا ہوا ہے کہ وہاں بیٹی اور بہن باپ / بھائی کی خود ساختہ عزت و غیرت پہ ایک سیکنڈ میں قربان کی جا سکتی ہے۔
 کیا آپ جانتے ہیں کہ باپ اور بھائی کی یہ خود ساختہ عزت و غیرت کیا چاہتی ہے ؟ الفاظ پر سے مصلحت ، احترام ، اور منافقت کی پٹی اتار دیں تو ……… اس غیرت کے مطابق لڑکی کو باپ بھائی اور خاندان کی پسند کے مرد کے ساتھ سونا چاہئے … ان کی بیٹی کے ساتھ جنسی تعلق اس مرد کا بنے جسے وہ چھان پھٹک کر پسند کریں ___اسی کا نام شادی ہے ۔ اور پھر اس کے بعد وہ مرد جیسا چاہے بیٹی کا حشر کرے ۔
وہ ….جس نے پوری عمر کے لیے مضروب ہونا ہے ، اسے کیوں اجازت دی جائے کہ یہ فیصلہ وہ خود کرے ۔
 یہ ہے پاکستانی مرد کی غیرت و عزت کی حقیقت !

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

About The Author