محمد عامر خاکوانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا تعلق بہاولپور سے ہے، اس کی ایک قدیمی تحصیل احمدپورشرقیہ سے۔ دریائے ستلج بہاولپور کے پاس سے بہہ کر آگے جاتا ہے۔ ہیڈپنجند کا نام بہت لوگوں نے سنا ہوگا، یہ بھی احمد پورشرقیہ کی سب تحصیل اوچ شریف سے چند کلومیٹر دور ہے۔ ہمارے شہر کے لوگوں کا ایک اہم تفریحی سپاٹ ہیڈ پنجند ہے۔کالج یونیورسٹی کے ٹرپ وہاں جاتے ہیں۔جغرافیائی اور آبی حوالوں سے میری تکنیکی معلومات کمزور ہے، مگر سنا یہی کہ پنجند کے مقام پر پانچ دریاستلج، بیاس، چناب، جہلم اور راوی ملتے ہیں۔یاد رہے کہ سندھ طاس معاہدے کی رو سے ستلج اور بیاس کا پانی پاکستان نے بھارت کو دے دیا تھا ۔ بہرحال اس پکنک سپاٹ کا بھی جنوبی پنجاب کی بیشتر جگہوں کی طرح برا حال ہی ہیں، وہاں پر البتہ تازہ مچھلی کھائی جا سکتی ہے، مچھلی تلنے کی کئی دکانیں موجود ہیں، لوگ کشتی کی سیر بھی کرتے ہیں ۔ آج کل اس ہیڈ پنجند سے سیلابی ریلے گزر رہے ہیں اور آس پاس کے علاقوں میں خوف وہراس پھیلا ہے۔ ہیڈ پنجند کی طرح ستلج بھی ہم بہاولپورضلع کے مکینوں کے لئے بڑی کشش کا حامل ہے۔ لاہور سے بہاولپور جاتے ہوئے شہر سے کچھ پہلے دریائے ستلج کا پل ہے۔ رات بھر سفر کرنے کے بعد جیسے ہی ستلج کا پل دیکھا، والدین بچوں کو جگانا شروع کر دیتے ہیں کہ تھوڑی دیر میں بہاولپور کے اڈے پر پہنچ جائیں گے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ میرے بچپن میں ستلج میں کچھ پانی موجود رہتا تھا،مگر طویل عرصہ سے ستلج خشک ہی پڑا ہے۔ بچوں کو بتایا جائے کہ ہم ستلج کے پل سے گزر رہے ہیں، تو بے چارے کھڑکی سے باہر جھانک کر دیکھنے کے بعد مایوس ہی ہوتے کہ یہاں تو ریت اڑ رہی ہے۔ آج کل خیر ستلج پانی سے لبالب بھرا ہے بلکہ اس نے ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ مسلسل تیرہ دن تک ایک لاکھ کیوسک پانی اس میں بہتا رہا۔دراصل بھارت میں ستلج کے کیچمنٹ ایریاز میں اتنی بارشیں ہوئیں کہ ان کے ڈیم فل ہوگئے اور انہیں پانی ادھر چھوڑنا پڑا۔ ستلج کے پانی اور سیلابی ریلوں نے بڑی شدید تباہی مچائی ہے ۔ بہاولپور کے ساڑھے پانچ سو سے زیادہ دیہات متاثر ہوئے، لاکھوں لوگوں کو وہاں سے نکالا گیا اور وہ متاثرین کی حیثیت سے خاصی مشکلات کا شکار ہیں۔ افسوس کہ مین سٹریم میڈیا پر بھی ان سیلاب زدگان کے حوالے سے زیادہ موثر مہم دیکھنے کو نہیں مل رہی۔ مقامی انتظامیہ نے کچھ اقدامات کئے تو ہیں، مگر سرکاری مشینری جتنی بھی مستعد ہوجائے ، اس کے لیول کا ہم سب کو اندازہ ہے ۔ ستلج کی تباہ کاری اپنی جگہ مگر اتنازیادہ پانی آنے سے مستقبل کے حوالے سے خدشات بھی پیدا ہوگئے ہیں۔ ظفر اقبال وٹو آبی انجینئر اور ڈیمز وغیرہ بنانے میں خصوصی مہارت رکھتے ہیں۔ وہ اچھے لکھاری ہیں اور سیلاب ، پانی اور ڈیمزوغیرہ پر ان کے کالم، بلاگز سوشل میڈیا اور اخبارات میں چھپتے رہے ہیں۔ ہمارے اخبار روزنامہ نائنٹی ٹو نیوز کے میگزین کے صفحات میں ظفر اقبال وٹو صاحب کی کئی خصوصی معلومات افزا رپورٹس شائع ہوچکی ہیں۔ ظفروٹو صاحب نے ستلج کے حوالے سے بھی لکھا ہے اور اہم تجاویز دی ہیں۔ ظفر اقبال وٹو لکھتے ہیں : ـ ’’ یہ پہلی دفعہ ہوا ہے کہ انڈیا کی سرحد سے داخل ہونے کے بعد 10 دن کا وقت گزرنے ، پانچ سو کلومیٹر کا سفر طے کرنے اور بیس تیس کلومیٹر کی چوڑائی میں پھیل کر چلنے کے باوجود بھی ستلج سے ایک انتہائی خطرناک درجے کا بڑا سیلابی ریلہ پنجند بیراج تک پہنچا ہے۔ ایسا منظر اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ماضی میں ستلج میں اگر کوئی بڑا ریلہ آتا تو یہ اردگرد کے علاقوں کو ڈبوتا پنجند تک پہنچنے سے پہلے پہلے ہی بہت کمزور ہوچکا ہوتا اور اس کا زور ٹوٹ چکا ہوتا۔لیکن اس دفعہ کچھ مختلف ہوا۔ ’’اس سال نہ صرف پانی کا بہاؤ 278,000 کیوسک کی انتہائی سطح کو پہنچا بلکہ 100,000 کیوسک سے زیادہ پانی کا بہاؤ تو پورے 13 دن دریا میں مسلسل چلتا رہا۔ ستلج میں 10 جولائی کو انڈیا کی طرف سے ایک لاکھ کیوسک پانی چھوٹے کے بعد ستلج کے اس سیلابی سیزن کا آغاز ہوا جس نے دریا کے کناروں پر بنے بند توڑ کر ارد گرد کے علاقے کو غرقاب کردیا اور اگلے پورے مہینے میں مسلسل بارشوں اور انڈیا کے ڈیموں سے پانی کے اخراج کی وجہ سے یہ علاقے مسلسل زیر آب رہے۔ ’’اگست کے تیسرے ہفتے میں آنے والے سب سے بڑے ریلے نے تو اتنی تباہی مچائی کہ دریا کے دونوں کناروں پر تقریباً 15 پندرہ کلومیٹر تک کا علاقہ بہت بڑے تالاب کا منظر پیش کرنے لگا اور تیس کلومیٹر چوڑا یہ تالاب آہستہ آہستہ صوبہ پنجاب میں بہاولپور کی طرف سرکنے لگا۔ گنڈا سنگھ سے لے کر پنجند تک پانچ سو کلومیٹر لمبی اور دس کلومیٹر چوڑی اس دریائی پٹی پراب کوئی جاندار سانس نہیں لیتا۔ یہ انسانوں، جانوروں اور فصلوں سے بالکل خالی ہوچکی۔ لوگ چالیس پچاس دنوں سے بے گھر ہیں۔ ’’ اس سال دریا اب تک 8 ملئین ایکڑ فٹ پانی بہا چکا ہے جو کہ تربیلا ڈیم سے زیادہ بنتا ہے لیکن ماہرین ِ موسمیات کہتے ہیں کہ خطرہ ابھی ٹلا نہیں کیونکہ ستمبر کے شروع میںمزید بارشیں متوقع ہیں اورپانی آنے کی امید ہے جب کہ پہلا سیلابی پانی ابھی تک اسی طرح زمینوں میں کھڑا ہے۔ ’’ستلج میں چونکہ کبھی کبھار ہی پانی آتا ہے لہذا لوگ بھی بے دھڑک ہوکر دریائی راستے میں مکانات اور دیگر تعمیرات کرتے گئے۔ دوسری مجرمانہ غلطی حکومتی اداروں نے کی کہ سیاسی بنیادوں پر ان دریائی زمینوں پر سڑکیں ، پل ، بجلی کے کھمبے اور دیگر سہولیات بہم پہنچاتے گئے ۔ اس سے آبادی کو ان دریائی زمینوں میں پھیلنے کی اور شہہ ملی حالانکہ حکومتی ریکارڈ کے مطابق یہ سارے سیلابی علاقے ہیں۔ ہم اس کا خمیازہ اس تباہی اور بربادی کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔اس سال کے سیلاب کے علاقے کی فلڈ زوننگ ہونی چاہئے اور آئندہ کے لئے ان علاقوں میں انسانی بستیوں کے لئے قوانین بننے چاہئیں۔ ’’ ایک نکتہ اور بھی ہے ، وہ یہ کہ اس مون سون میں ستلج میں تربیلا ڈیم کے حجم کے برابر پانی بہہ چکا اور ہمارے ہاتھ میں آبادیوں کی مسلسل تباہی، فصلوں کی بربادی اور انسانی المئے کے سوا کچھ نہیں آیا۔ حکومت اور افسر شاہی ستلج کے سیلاب کو امداد بٹورنے کے ایک اور نادر موقعے کے طور پر دیکھ رہے ہیں جبکہ متاثرین انہی سے اپنے درد کی دوا مانگ رہے ہیں۔ ’’ایک اندازے کے مطابق ایک ملین ایکڑ فٹ پانی سے ایک ارب ڈالر مالیت کے فوائد لئے جاسکتے ہیں اور ستلج میں صرف پچھلے ایک ماہ میں کم ازکم تین ملین ایکڑ فٹ پانی بہہ چکا۔ تین ارب ڈالر کے اس ’’اپر چیونٹی کاسٹ‘‘ کے علاوہ مکانات ، آبادیوں ، فصلوں اور جانوروں کی موت کے نقصانات علیحدہ سے ہیں۔ ’’ دیگر قدرتی آفات کے برخلاف سیلاب ایک ایسی آفت ہے کہ جس کا وقت سے پہلے پتہ بھی چل جاتا ہے اوربروقت اقدامات سے نقصانات سے بچا جا سکتا ہے۔ جیسے ہی بھارت میں مون سون داخل ہوا تو کم ازکم مہینہ پہلے سے ہی محکمہ موسمیات بتا رہا تھا کہ اس دفعہ ستلج میں سیلاب آئے گا۔ انڈیا کے ڈیم بھرنے کی خبریں بھی ہر روز آرہی تھیں لیکن ستلج کے سیلاب کی زد میں آنے والے علاقوں کی مکمل نشاندہی اور تفصیلی معلومات ہونے کے باوجود ادارے مکمل سکون میں اور بے عملی کی کیفیت میں رہے۔ دریا کے راستے کی رکاوٹوں پر توجہ دینے یا سیلاب پہنچنے سے پہلے حفاظتی اقدامات نہ ہوئے۔ ستلج کی سیلابی پٹی کی مکمل نشاندہی موجود ہے اور کس سطح کے سیلاب کی زد میں کون سی بستیاں آئیں گی ، اس کی معلومات اداروں کے پاس موجود ہیں۔ ’’اگر اسلام بیراج سے ایک سیلابی نہر بنا کر اس سیلابی پانی کا کچھ حصہ چولستان کی طرف بھی موڑ دیا جاتا تو کتنا زیادہ فائدہ ہوتا۔ اگر یہ نہر صرف 5 ہزار کیوسک پانی بھی لے جاتی تو اس مون سون میں پانچ لاکھ ایکڑ فٹ تک پانی چولستان بھر میں پھیلایا جاسکتا تھا اور ساتھ ہی سیلاب کی شدت تھوڑی کم کی جاسکتی تھی۔ اسی طرح ستلج کے دائیں بائیں غیر آباد نشیبی علاقے تلاش کرکے انہیں دریا سے چھوٹے چھوٹے چینل بنا کر پانی سے بھرا جا سکتا تھا (آف لائن اسٹوریجز)۔ لیکن ستلج بہتا رہا اور ہم دیکھتے رہے۔پانی اترنے کا انتظار کرتے رہے اور اب پانی نسبتاً کم ہونے پر شادیانے بجا رہے ہیں۔ ’’سیلابی المئے کے سائز کا اندازہ یہاں سے لگائیں کہ 550 دیہات متاثر ہوئے ہیں، اب تک 2 لاکھ سے اوپر لوگوں کو علاقے سے نکالا گیا اورایک لاکھ ایکڑ اراضی پر کھڑی فصلیں تباہ ہوئی ہیں۔ امداد اکٹھا کرنے کے لئے صحیح ماحول بن چکا لیکن کیا ستلج میں اگلے بڑے پانی آنے تک ہم کچھ تیاری کر چکے ہوں گے؟‘‘ آبی پراجیکٹس کے ماہر انجینئر ظفر اقبال وٹو صاحب نے جو سوال اٹھایا ہے، اس کا جواب تو متعلقہ حکام ہی دے سکتے ہیں۔ہمارا صرف یہ کہنا ہے کہ اس جانب ارباب اقتدار کی توجہ ضرور دلائیے ، شائد انجانے ہی میں کچھ اچھا کام سرزد ہوجائے۔
یہ بھی پڑھیے:
عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر