وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے بچپن میں کالے توے کو دونوں طرف سے بجانے والی مشین ریکارڈ چینجر کہلاتی تھی۔ جب دبئی جانے والے مزدور گھر واپسی پر لدے پھندے آنے لگے تو کہیں سے منی چینجر بھی آ گیا اور اب چند برس سے گیم چینجر بھی آ چکا ہے۔ چینی گیم چینجر، عرب گیم چینجر، آئی ایم ایف والا گیم چینجر وغیرہ، وغیرہ۔
ہم نے تو یہی پڑھا ہے کہ جس جس ریاست نے وسائل اور سہولیات کی منصفانہ تقسیم، میرٹ اور قانون کی حکمرانی کا تین نکاتی گیم چینجر فارمولا اپنایا وہ آخرت میں ہو نہ ہو دنیا میں ضرور سرخرو ہوئی۔
جن ممالک نے اس تین نکاتی مجرب گیم چینجر کی جگہ کوئی اور گیم ڈالنے کی کوشش کی وہاں کچھ چنیدہ طبقات و ادارے و مافیائیں تو پھلتے ہیں مگر باقی ملک ایسے پھولتا ہے جیسے فاقہ زدہ کم سن کا پیٹ ہوا سے پھولے ہے۔
جاگیری سوچ یہ ہے کہ ’سب میرا اور سب میرے۔‘ صنعتی سوچ یہ ہے ’سب میرا اور میرے کاروباری مددگار دلالوں کا۔‘ فلاحی سوچ یہ ہے کہ ’کچھ نہ کچھ ہر شہری کا۔‘
ہمارے سیاہ و سفید کے مالک چاہتے تو ایسا کوئی بھی اقتصادی گیم چینجر کہیں سے بھی اٹھا کے لاگو کر سکتے تھے جس میں ہر طبقے کی جیت ممکن ہے۔ مگر انھوں نے ہمارے لیے دیسی گیم چینجر چنا۔ یعنی وسائل و مواقع کی تین ڈھیریاں بنائیں۔ ان میں سے ایک ڈھیری صرف میری، دوسری ڈھیری میرے خاندان، عزیزوں اور سہولت کاروں کی اور تیسری ڈھیری باقی پچیس کروڑیوں کی۔ ہمت ہے تو اٹھا لو۔
ثبوت یہ ہے کہ پچھتر برس میں سی پیک منصوبوں سمیت ایک سو پچیس ارب ڈالر کا قرضہ لیا گیا۔ کہیں نہ کہیں تو استعمال ہوا ہو گا۔ امریکہ سے ستر ارب ڈالر سے زیادہ دفاعی، اقتصادی، سماجی و ادارہ جاتی امداد ملی۔ کہیں نہ کہیں تو بہرحال لگی لپٹی ہو گی۔
میرے اپارٹمنٹ کمپلیکس کے صدر دروازے پر گذشتہ سات برس سے متعین چوکیدار صوبے دار خان کئی بار بتا چکا ہے کہ اس کے چار بچے ہیں۔ ان فلیٹوں میں رہنے والی ایک خدا ترس ٹیچر انھیں روزانہ دو گھنٹے پڑھا دیتی ہے کیونکہ فیس دینے کی تو اوقات نہیں۔
سات دن بارہ گھنٹے روزانہ کی نوکری کی تنخواہ بھلے بیس ہزار روپے بنتی ہے مگر صاحبا نیلی چھتری والے نے کبھی کسی کا مقروض نہیں کیا۔ کھانا فلیٹ والے دے دیتے ہیں۔
میں نے ایک دن بقراطی جھاڑی کہ صوبیدار خان پاکستان میں ایک بھی ایسا انسان نہیں جو مقروض نہ ہو۔ دو لاکھ پینسٹھ ہزار پانچ سو اسی روپے کے حساب سے تم، تمہاری بیوی اور چار بچوں پر کل قرضہ پندہ لاکھ ترانوے ہزار چار سو اسی روپے بنتا ہے۔ صوبے دار خان کو بالکل سمجھ میں نہیں آیا کہ میں کیا بک رہا ہوں کیونکہ اس کا تو واحد غرور ہی یہ ہے کہ آج تک کسی سے قرضہ نہیں لیا۔
اس ملک کے پچیس کروڑ میں سے چوبیس کروڑ اسی لاکھ صوبیدار خان اور ان کے بچے نہیں جانتے کہ ان کے نام پر کس نے کب قرضہ لیا۔ وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ نام نہاد ٹیکس نیٹ سے باہر ہونے کے باوجود زندگی کی ہر شے پر بلاواسطہ ٹیکس دے رہے ہیں اور اسی فیصد ٹیکس انہی صوبیدار خانوں سے جمع ہو رہا ہے جن کی ماہانہ آمدنی بیس ہزار سے اوپر نہیں۔
اور پھر یہ اینٹھی ہوئی رقم ان خاکی و غیر خاکی افسروں، ججوں، تاجروں، صنعت کاروں، آئینی عہدیداروں، مشیروں میں بٹ رہی ہے جن کی ایک ماہ کی کمائی پانی، بجلی، گیس، رہائش، پٹرول اور الاؤنسز کی مجموعی مراعاتی مالیت سمیت صوبیدار خان کی پندرہ برس کی کمائی کے برابر ہے۔
آئی ایم ایف کا اندازہ ہے کہ یہی لچھن رہے تو سن دو ہزار اٹھائیس تک پاکستان کا بیرونی قرضہ موجودہ ایک سو پچیس ارب ڈالر سے بڑھ کے ایک سو اسی ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا۔
جب صنعت بیساکھیوں پر کھڑی ہو۔ زراعت سبسڈی کے ریڑھے پر بیٹھی ہو۔ سروس سیکٹر خود پر لگنے والے ٹیکسز کی ٹوپی براہ راست صارف کو پہنا رہا ہو۔ معیشت کا پہیہ زنگ آلود ہونے کے باوجود یہ معجزہ مسلسل ہو کہ پاکستانی بینکوں کے کاروبار کی سالانہ شرح منافع دنیا میں سب سے زیادہ منافع کمانے والے بینکوں میں شمار ہو تو پھر انسانی وسائیل کی ترقی پر رقم لگانے کی کیا ضرورت ہے۔
چونکہ آسانی سے مہیا بیرونی امداد کے سوتے نائن الیون آوٹ آف فیشن ہونے کے سبب خشک ہو چکے ہیں۔ دوست ممالک بھی پہلے کی طرح مٹھی بھر کے اشرفیاں اچھالنے کے بجائے ادھار کی پائی پائی کا جواز لکھت پڑھت میں مانگنے لگے ہیں اور معاشی ڈھانچہ ٹھیک کرنے کا بن مانگا مشورہ بھی دینے لگے ہیں۔
لہٰذا جب پھٹیچر تعلیمی نظام کے سبب اکیسویں صدی کا گلا کاٹ مقابلہ نہ کر سکنے والی ہنر مند معیاری افرادی قوت کے لالے پڑے ہوں اور مذہبی مدارس و لبرل یونیورسٹیوں کے کھیتوں سے سالانہ لاکھوں کی تعداد میں وہ کاغذی فصل کٹ رہی ہو جو کسی غیر ملکی سرمایہ کار کے کام کی نہ ہو تو پھر بیرونی سرمایہ راغب کرنے کے لئے گھر کا زیور ہی نیلامی پر چڑھایا جاتا ہے۔
آؤ ہماری معدنیات لے جاؤ، ایئرپورٹ لیز پر لے لو، ہمارے کمرشل فضائی روٹ پکڑ لو، ہماری زمین میں کارپوریٹ فارمنگ کر کے ساری فصل اٹھا لو، ہماری پورٹ سروسز کے ٹھیکے لے لو۔ بس ہمارے لائف سٹائل کو چیلنج نہ کرو۔ ہمیں کسی بھی گالف کورس یا جم خانے کے کسی کونے میں پڑا رہنے دو۔
ہمارے یہ خواب مت توڑو کہ
اک اڑن کھٹولا آئے گا اور عرب شیخ کو لائے گا
نہ جان نہ پہچان ہے کیا نام بتاؤں میں اس کا
کہ آئیں یئیں یو یو کہ آئیں یئیں یو یو۔۔۔۔
پچھتر برس ہم ویسٹ اوپن پارکنگ لاٹ بنے رہے اور کام چلتا رہا۔اب ہم سروگیٹ مدر یعنی کرائے کی کوکھ بننے کو تیار ہیں۔ وسائل ہمارے مینیجمنٹ تمہاری۔ کمیشن ایڈوانس منافع ففٹی ففٹی۔۔۔
اگرچہ دلی میں جی ٹوئنٹی کے سربراہ اجلاس میں انڈیا سے امریکہ تک براستہ مشرقِ وسطی ایک معاشی کاریڈور بنانے کا ابتدائی خاکہ طے پا گیا ہے۔ مگر ہمیں اس لیے اس بارے میں کوئی ٹینشن نہیں کیونکہ ہماری اعلیٰ ترین قیادت نے یقین دلایا ہے کہ اگلے تین سے پانچ برس میں برادر خلیجی ممالک سے پچھتر ارب سے سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری پاکستان آنے والی ہے۔
کیا یہ بات برادر خلیجی ممالک کو بھی پتہ ہے؟
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر