دسمبر 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

آئی وی ایف (ٹیسٹ ٹیوب بے بی) کی کہانی!||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

بھیا راجہ کانسیپٹ سینٹر گئے اور بس۔ چکر لگا لگا کر تھک گئے مگر رپورٹ حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ کوئی بات سننے کو ہی تیار نہیں تھا۔ آئی وی ایف ہو گیا۔ حمل نہیں ہوا۔ بس جی اللہ کی مرضی۔ اب گڑے مردے کیا اکھاڑنا؟ گویا کھیل ختم، پیسہ ہضم!

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بھیا راجہ اور بھابھی رانی ایک مہینے بعد ہی آ پہنچے۔ دونوں کا منہ کچھ لٹکا ہوا۔
کیا ہوا؟
ہم نے ہنس کر کہا۔
وہ آپی۔ ۔ ۔ بھابھی رانی نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔
اوہ بتاؤ تو۔ ۔ ۔
وہ۔ ۔ ۔ وہ یہ تو ٹھیک ہیں۔ مطلب ان کا ٹیسٹ نارمل۔ ۔ ۔
چلو اچھی بات۔
وہ۔ وہ میرے ہارمونز ٹھیک نہیں ہیں اور اووری میں سسٹ بھی ہے۔ cyst
بس۔ اتنی سی بات؟ ہم نے ایک اور قہقہہ لگایا۔
دونوں نے حیران ہو کر ہماری طرف دیکھا۔ چہرے پہ صاف لکھا تھا، ہماری جان پہ بنی ہے اور یہ ہنس رہی ہیں۔

دیکھو بھئی انسانی جسم بھی ایک مشین کی طرح ہے۔ کوئی بھی پرزہ خراب ہو سکتا ہے۔ تم لوگ اکیسویں صدی میں موجود ہو تو فکر کیسی؟
علاج کریں گے تمہارا۔ پرزے میں جو بھی خرابی ہے اسے دور کرنے کی کوشش کریں گے۔

علاج کے نام سے دونوں کے چہرے پر رونق آ گئی۔ ہم تو تب بھی ملک سے باہر تھے سو ان دونوں کو سپرد کیا اپنے عزیز پروفیسر اسلم کو اور خود سدھارے اپنے گھر۔
اب ہمیں پیغامات آنا شروع ہوئے۔ آج پروفیسر صاحب نے یہ دوائی کھلوائی، آج یہ ٹیسٹ کروایا، آج الٹراساؤنڈ کروایا۔ انڈے کا سائز اتنا تھا۔
ہم ہر بار سمجھاتے۔ صبر، حوصلہ، اطمینان۔ بانجھ پن کا علاج طویل، مشکل، صبر آزما اور مہنگا ہے۔

پھر پتہ چلا کہ اووری کی سسٹ بڑی ہو گئی ہے اور اب اسے نکلوانے کی ضرورت ہے۔ ہم نے کہا بلا خوف و خطر کود جاؤ کہ ہمیں پروفیسر صاحب پر اندھا اعتماد ہے۔ لیپرو سکوپی کے ذریعے سسٹ نکالی گئی۔ علاج پھر سے شروع ہوا۔

تقریباً دو سال اسی میں گزر گئے۔ دونوں امید اور مایوسی کے بیچ جھولتے رہتے۔ ساتھ میں سٹریس بھی بہت۔ ہمارا کہنا یہ تھا کہ جب ساس نندوں کی طرف سے زیرو پریشر ہے تو رکھو باقی کی دنیا کو جوتے کی نوک پہ۔ یہ سانپ کی طرح زبان لہراتے لوگ جو نہ تو اخراجات کی ذمہ داری لیں اور نہ ہی کسی اور چیز کی، ان سے کیا ڈرنا؟

خیر جناب۔ دو سال کے بعد بھیا راجہ اور بھابھی رانی کی خواہش ہوئی کہ IVF یا ٹیسٹ ٹیوب بے بی کروا کر دیکھا جائے۔ اس کوشش میں دونوں لاہور کے ایک ایسے آئی وی ایف سینٹر جا پہنچے جو گوگل سرچ میں ٹاپ ریزلٹس میں آتا ہے۔

ایک بار ہمارا بھی ساتھ جانا ہوا۔ دیکھ کر دل دہل گیا۔ ایک بڑی کوٹھی کے کمرے، برآمدے، لان، صحن۔ سب اولاد کے خواہشمندوں سے بھرے پڑے تھے۔ سب کھڑکیوں دروازوں سے لوگ چپکے بیٹھے تھے۔ کوئی گلگت سے آیا ہے تو کوئی زیارت سے، کوئی سرائے عالمگیر سے تو کوئی خانیوال سے۔ کسی نے ادھار لیا ہے تو کوئی زیورات بیچ کر آیا ہے۔ کسی نے زمین بیچی ہے تو کوئی فصل گروی رکھ آیا ہے۔

یہ دیکھ کر ہمارا دل بھر آیا۔

لیکن جس بات نے ہمیں دُکھی کیا وہ اس آئی وی ایف سینٹر کی دکان داری تھی۔ ہم نے دل کو سمجھایا کہ بی بی ظاہر ہے وہ درد دل کی دوا بانٹنے تو نہیں بیٹھے ہوئے۔ گاہک گھیر کر منافع کمانا ہے۔ سو فائدہ دکاندار کا ہونا چاہیے، گاہک کی اہمیت ثانوی ہے۔

ہم نے تو جو محسوس کیا، کیا۔ بھیا راجہ بھی ایک دن کہنے لگے کہ یہاں ڈاکٹرز کچھ اناڑی سے لگتے ہیں، پروفیشنل رویہ ہی نہیں۔ خیر لاکھوں روپیہ بھر کے آئی وی ایف ہوا، بھابھی رانی انتظار میں مضطرب۔ بہت سمجھایا کہ حمل ہو گیا تو ٹھیک، نہ ہوا تو غم نہیں۔ نہ ہم روایتی نند ہیں، نہ بچے نہ ہونے کو روایتی قصہ بننے دیں گے۔

امید ہمیں بھی نہیں تھی کہ آئی وی ایف کامیاب ہو گا۔ ایک بار اس آئی وی ایف سینٹر جا کر کافی کچھ بھانپ چکے تھے۔ وہی ہوا جو ہمارا شک تھا۔ خیر دو اداس لوگوں کو تسلی دی۔ جان بچی سو لاکھوں پائے۔

بھیا راجہ سے کہا کہ آئی وی ایف رپورٹ مانگو کہ وہ مریض کا حق ہے۔ مریض کو علم ہونا چاہیے کہ کب، کس سٹیج پر کیا ہوا؟

رپورٹ لکھنے کے بھی انٹرنیشنل قواعد و ضوابط ہیں جن کے مطابق مندرجہ ذیل سٹیپس رپورٹ میں شامل ہونے چاہئیں۔

کون سی دوائیں استعمال کروائیں گئیں؟
کتنے انڈے الٹرا ساؤنڈ میں نظر آئے؟
سرنج کی مدد سے کتنے انڈے نکلے؟
کتنے انڈے میچیور تھے؟
کتنے انڈے بارآور ہوئے؟
کتنے انڈے بارآوری کے بعد اگلی سٹیج پر گئے؟

کتنے بچے ایمبریو بنے؟
ان ایمبریوز کی کوالٹی کیا تھی؟
کتنے ایمبریوز بچے دانی میں واپس رکھے گئے؟
کتنے ایمبریوز فریزر میں رکھے گئے؟
ایمبریوز واپس بچے دانی میں رکھنے کے بعد خاتون کو کیا دوائیں استعمال کروائی گئیں؟
فریزر میں رکھے گئے ایمبریوز کے متعلق کیا پلان ہے؟

بھیا راجہ کانسیپٹ سینٹر گئے اور بس۔ چکر لگا لگا کر تھک گئے مگر رپورٹ حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ کوئی بات سننے کو ہی تیار نہیں تھا۔ آئی وی ایف ہو گیا۔ حمل نہیں ہوا۔ بس جی اللہ کی مرضی۔ اب گڑے مردے کیا اکھاڑنا؟ گویا کھیل ختم، پیسہ ہضم!

بھیا راجہ کے دن رات کے چکر دیکھ کر سب نے کہا کہ مٹی پاؤ۔
سو مٹی پائی گئی، آئی وی ایف سینٹرز پہ، علاج پہ اور خواہش پہ۔
پھر کیا ہوا؟ جانیے اگلی بار!

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

About The Author