سوچ رکھا تھا کہ آزادی کا جشن برپا ہے تو ہندوستان کے مسلمانوں کی حالت زار پر بات کروں گا۔ کچھ عرصہ پہلے دلی سے ایک معروف ٹی وی اینکر اور ان کی اہلیہ سے بات ہوئی تو وہ ملک کے باہر بیٹھے ہوئے بھی مودی کا نام لیتے ہوئے آس پاس دیکھتے ہیں اور اپنا لہجہ دھیما کر لیتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ اب دلی میں ہم مسلمانوں کو عادت سی ہو گئی ہے۔
ادھر ہم اپنی شہ رگ کشمیر پر جمعے کی نماز کے بعد آدھا گھنٹہ سڑکوں پر کھڑے ہونے کے لیے تیار بھی نہیں ہیں۔ایک کشمیری دوست نے درد مندانہ تمسخر کے ساتھ کہا کہ ہندوستان والے کہتے تھے کشمیر بنے گا ہندوستان، انھوں نے تو پورے ہندوستان کو ہی کشمیر بنا دیا۔
یہ بھی سوچ رکھا تھا کہ یہ نہیں لکھوں گا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کا حشر دیکھیں اور اس کے بعد محمد علی جناح اور جناح ہاؤس میں رہنے والوں کا، شکر کرو کہ پاکستان بنا لیا اور بچا بھی لیا۔
جڑانوالہ میں مسیحی برادری پر گستاخی کے نام پر سیاست کرنے والی جماعتوں کے جھتوں کے حملے سے دوبارہ سوچنے پر مجبور ہوا کہ ہمسائے کی بات کیا کریں۔ وہاں طاقت کے نشے میں دھت ہندو انتہا پسند، مسلمانوں کو پاکستان بھیجنا چاہتے ہیں اور ہم یہاں ان کی عبادت گاہوں میں گھس کر اسی مقدس کتاب کو آگ لگا رہے ہیں، وہ جو آپ کے اپنے عشق رسول کے مطابق ایک مقدس کتاب ہے اور ساتھ ترانے بجا رہے ہیں کہ
ہم پھاڑ کے رکھ دیں گے
ہم چیر کے رکھ دیں گے
ہم کاٹ کے رکھ دیں گے
اور ہم کسے پھاڑیں، چیریں اور کاٹیں گے؟ گستاخ کو۔۔۔ اور گستاخ کون ہے اور گستاخی کیا ہوئی ہے؟ یہ فیصلہ گستاخی کے نام پر سیاست کرنے والی جماعتیں اور ان کے جتھے کریں گے اور چونکہ جڑانوالہ میں ہم نے مسیحی برادری کے ساتھ وہی کیا ہے جو ہم ہر سال کرتے ہیں۔ مسیحی بستیوں کو جلانا، پھر ان میں سے مقدس صحیفوں کو ڈھونڈنا پاکستان کا سالانہ تہوار بن چکا ہے۔
پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے پنجاب کی تمام مساجد کے اماموں کو حکم دیا ہے کہ وہ جمعے کے خطبے میں بھائی چارے وغیرہ پر بات کریں۔
محسن نقوی نے اماموں کو یہ نہیں بتایا کہ نمازیوں کو یہ بھی بتائیں کہ گستاخی کیا ہوتی ہے اور اس کے لیے پاکستان میں دنیا کے سخت ترین قوانین موجود ہیں تو پھر جب بھی ان گستاخی کے نام پر سیاست کرنے والی جماعتوں کے جتھوں کا موڈ بنتا ہے وہ ’گستاخ، گستاخ‘ کے نعرے لگاتے ہوئے ہمیں بتاتے رہتے ہیں کہ آپ ریاست، اپنے قانون اپنے پاس رکھیں، اب جرم بھی ہم طے کریں گے اور سزا بھی خود دیں گے۔
لیکن یہ بھی ایک واہمہ ہے، ریاست موجود ہے اور جاگتی ہے۔ آج سے چار سال پہلے ان جماعتوں میں شامل ایک تحریک لبیک والے خود بھی ایک گستاخی کر بیٹھے تھے۔ اس وقت بھی ایک غریب مسیحی عورت برسوں جیل میں گزار کے ملک سے باہر جا رہی تھی تو تحریک کی قیادت نے اعلانِ بغاوت کیا۔
افضل قادری صاحب نے پاکستان کے ججوں اور جرنیلوں کے ڈرائیوروں اور باورچیوں کو اُکسایا کہ وہ انھیں قتل کر دیں۔ تحریک کی قیادت اور کارکنوں پر ایسے مقدمے ہوئے کہ مرحوم خادم رضوی کے بھائی کو 55 سال قید کی سزا ہوئی۔
افضل قادری صاحب نے تحریک چھوڑ کر ہر طرح کے دیسی اور سیاسی کاموں سے ریٹائر ہونے کا اعلان کیا۔ قوم کو ان کے آخری پیغام کا لب لباب یہ تھا کہ مجھے معاف کر دیں، گستاخی ہو گئی۔
تحریک لبیک پر کریک ڈاؤن کے بعد زندگی میں شاید پہلی اور آخری دفعہ پاکستان کی فوج کے ایک خفیہ ادارے کے جونیئر افسر سے تحریک کے بارے میں بات ہوئی تو انھوں نے بہت سیدھے سادھے فوجی طریقے سے بتایا کہ اوقات سے باہر ہو رہے تھے تو ان کو سیٹ کر دیا، ان کو تو چندہ دینے والے بھی اٹھا لیے ہیں۔
پھر انھوں نے ایک آہ بھر کر کہا ’لیکن یہ بھی تو دیکھیں کہ تحریک لبیک پاکستان کی چوتھی بڑی سیاسی جماعت ہے۔‘
جب جڑانوالہ میں گھر جل رہے تھے، پاکستان کی آزادی والی ٹی شرٹ پہنے بچہ ماں کو تسلی دے رہا تھا، جب ہم پھاڑ کے رکھ دیں گے کہ ترانے چلا رہے تھے تو کسی سیانے نے کہا چلو تحریک لبیک نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کر دیا۔
ریاست سے کم از کم یہ امید تو کی جا سکتی ہے کہ اگر اپنے ججوں، جرنیلوں کے خلاف گستاخی پر 55 سال قید کی سزا سنا سکتے ہیں تو پاکستان کی آزادی والی ٹی شرٹ پہنے بچے کے خلاف گستاخ گستاخ کے نعرے ہی بند کرا دیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر